پیگاسس پروجیکٹ: این ایس او گروپ کے لیک ڈیٹابیس میں ملے ہندوستانی نمبروں کی فہرست میں سپریم کورٹ کے جج رہےجسٹس ارون مشرا کے ذریعےقبل میں استعمال کیے گئے ایک نمبر کے ساتھ نیرو مودی اورکرشچین مشیل کے وکیلوں کے نمبر بھی ملے ہیں جو ممکنہ سرولانس کے نشانے پر تھے۔
سپریم کورٹ۔ (فائل فوٹو: شیوم باسو)
نئی دہلی: سپریم کورٹ کی رجسٹری کے دوعہدیداروں ،بھگوڑے ہیرا کاروباری نیرو مودی کے وکیل اور اگستا ویسٹ لینڈ معاملے کے مبینہ مڈل مین کرشچین مشیل کے وکیل کے فون نمبروں کے ساتھ ساتھ عدالت کے سبکدوش جج کے پرانے نمبر اسرائیلی اسپائی ویئر پیگاسس کے ممکنہ نشانے کی فہرست میں تھے۔
سال 2019 میں سپریم کورٹ کی رجسٹری کے دو عہدیداروں این کے گاندھی اور ٹی آئی راجپوت کے ٹیلی فون نمبر ممکنہ نگرانی کی فہرست میں شامل تھے،جس میں سینکڑوں نمبر شامل تھے۔ ان میں سے بعض میں پیگاسس اسپائی ویئر کے ساتھ نشانہ بنائے جانے کے واضح ثبوت نظرآتے ہیں۔
جب ان کے نمبر ڈیٹابیس میں جوڑے گئے، اس وقت دونوں عہدیداروں نےعدالت کی رجسٹری کےاہم‘رٹ’سیکشن میں کام کیا تھا۔
کسی بھی سال میں1000سے زیادہ رٹ عرضیاں عدالت میں دائر کی جاتی ہیں اور یہ براہ راست مرکزی حکومت سے وابستہ ہوتی ہیں۔ ان میں سے بعض کو سیاسی طور پرحساس مانا جاتا ہے۔
دی وائر کی جانب سےرابطہ کیے جانے پر این کے گاندھی، جو سبکدوش ہو چکے ہیں، نے اس بات پر حیرانی کا اظہار کیا کہ کوئی بھی سرکاری ایجنسی انہیں یا ان کےسیکشن کو نگرانی کے ممکنہ نشانے کے طور پر کیوں دیکھےگی۔
قابل ذکر ہے کہ دونوں عہدیداروں کے اسمارٹ فون کی فارنسک جانچ کے فقدان میں یہ قائم کرنا ممکن نہیں ہے کہ کیا وہ محض نگرانی کرنے والوں کی دلچسپی کے دائرے میں تھے یا حقیقت میں ان کی نگرانی کی گئی۔
دی وائرسمیت ایک بین الاقوامی میڈیا کنسورشیم نے سلسلےوار رپورٹس میں بتایا ہے کہ ملک کے مرکزی وزیروں، 40 سے زیادہ صحافیوں ،اپوزیشن رہنماؤں، ایک موجودہ جج، کئی کاروباریوں و کارکنوں سمیت 300 سے زیادہ ہندوستانی فون نمبر اس لیک ڈیٹابیس میں تھے، جن کی پیگاسس سے ہیکنگ ہوئی یا وہ ممکنہ نشانے پر تھے۔
یہ جانچ دنیا بھر کے 50000 سے زیادہ لیک ہوئے موبائل نمبر پر مشتمل تھی، جن کی اسرائیل کے این ایس او گروپ کے پیگاسس سافٹ ویئر کے ذریعےسرولانس کی جا رہی تھی۔ اس میں سے کچھ نمبروں کی ایمنسٹی انٹرنیشنل نے فارنسک جانچ کی ہے، جس میں یہ ثابت ہوا ہے کہ ان پر پیگاسس اسپائی ویئر سے حملہ ہوا تھا۔
راجستھان کا ایک موبائل نمبر، جو سابق میں جسٹس ارون مشرا کے نام پر رجسٹرڈ تھا، 2019 میں ممکنہ نشانوں کے ڈیٹابیس میں جوڑا گیا تھا۔ جسٹس مشرا ستمبر 2020 میں سپریم کورٹ سے سبکدوش ہوئے اور اب نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کے چیئرمین ہیں ۔
دی وائر نے شروعاتی رپورٹس میں بھی بتایا تھا کہ ایک موجودہ جج کا نام بھی ممکنہ نگرانی کے دائرے میں تھا۔ اب ان ججوں سے بات کرنے کے بعد دی وائر یہ تصدیق کر سکتا ہے کہ راجستھان کا یہ نمبر، جو ستمبر 2020 میں ریٹائر ہوئے سپریم کورٹ کے جسٹس ارون مشراکے نام پر رجسٹرڈ تھا، سال 2019 میں ممکنہ نگرانی فہرست میں جوڑا گیا تھا۔
ایک خفیہ ذرائع، جس کی پہنچ بی ایس این ایل کے ریکارڈس تک ہے، نے بتایا کہ یہ نمبر 18 ستمبر 2010 سے لےکر19 ستمبر 2018 تک جسٹس مشرا کے نام پر رجسٹرڈ تھا۔
چونکہ پیگاسس اسے استعمال کرنے والی ایجنسی کو معمولی انٹرسیپشن سے آگے بڑھ کر انکرپٹیڈ طور پر ہونے والے مواصلات تک بھی پہنچ دیتا ہے، اس لیےاپنے تصدیق کے عمل کے تحت دی وائر نے جسٹس ارون مشرا سے پوچھا تھا کہ کیا وہ اس نمبر کو بند کرنے کے بعد بھی وہاٹس ایپ یا دوسرے کسی میسنجر ایپ پر اس نمبر کو استعمال کرتے ہیں۔
اس پر انہوں نے کہا، ‘نمبر +9194******* 2013-2014 سے میرے پاس نہیں ہے۔ میں اس نمبر کا استعمال نہیں کرتا۔’اس وقت نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کے چیئرمین جسٹس مشرانے یہ بھی جوڑا کہ انہوں نے 21 اپریل 2014 کو یہ نمبر سرینڈر کر دیا تھا۔ ایسے میں ڈیٹابیس کے ہندوستانی نمبروں کی فہرست میں اسے کیوں جوڑا گیا یہ واضح نہیں ہے۔
اس کے علاوہ ڈیٹابیس میں کچھ وکیلوں کے بھی نمبر شامل ہیں، جس میں سے کچھ ہیومن رائٹس سے متعلق معاملوں میں شامل ہیں۔ ان میں سے کم از کم دو ایسے ہیں جو تب ہائی پروفائل موکل کی نمائندگی کر رہے تھے، جب ان کے نمبر نگرانی کے ممکنہ لوگوں کی فہرست میں دکھائی دیتے ہیں۔
نیرو مودی کے وکیل وجے اگروال کو 2018 کی شروعات میں ڈیٹابیس میں جوڑا گیا تھا۔ ان کا کوئی بھی فون فارنسک جانچ کے لیےدستیاب نہیں تھا۔
نیرو مودی بینک دھوکادھڑی کے معاملے میں مطلوب ہیں اور جنوری 2018 میں ہندوستان سے ان کا بھاگنا تب مودی سرکار کے لیے شرمندگی کا سبب بنا تھا، جب اس کے ایک مہینے بعد وہ داووس میں وزیر اعظم کے ساتھ ایک گروپ تصویر میں دکھائی دیے تھے۔ تب سے لندن سے ان کی واپسی کو یقینی بنانا ایک سرکاری ترجیح رہی ہے۔
دہلی کے ایک دیگر وکیل الجو پی جوزف کا نمبر 2019 میں فہرست میں شامل ہوا۔ وہ اگستا ویسٹ لینڈ ہیلی کاپٹر سودا معاملے کے سلسلے میں دسمبر 2018 میں ہندوستان میں سرینڈر کیے گئے مبینہ‘مڈل مین’کرشچین مشیل کی نمائندگی کرتے ہیں۔
مشیل کا معاملہ مودی سرکار کے لیے بھی بڑی سیاسی اہمیت کا ہے کیونکہ اس نے مشیل کی گواہی کو کانگریس کے سینئر رہنماؤں اور یہاں تک کہ گاندھی پریوار کو اگستا گھوٹالے میں پھنسانے کے لیے استعمال کرنے کی
امید کی تھی۔
جوزف کے آئی فون ڈیٹا کی فارنسک جانچ ابھی چل رہی ہے، لیکن ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تکنیکی ٹیم کا کہنا ہے کہ شروعاتی اشارے کے طور پر پیگاسس سے متعلق نشان دکھائی دے رہے ہیں۔
جوزف کو شروعاتی فارنسک جانچ کے بارے میں بتائے جانے کے بعد انہوں نے دی وائر سے کہا، ‘یہ سرکار شہریوں کی پرائیویسی میں سیندھ لگانے کے لیے جانی جاتی ہے۔ ایسی تکنیک کے استعمال سے پتہ چلتا ہے کہ جمہوری قدروں سے سمجھوتہ کیا جا رہا ہے اور ہندوستان کی جمہوریت ان کے ہاتھوں میں محفوظ نہیں ہے۔’
لیک ہوئے ڈیٹابیس میں سے ایک نمبر سابق اٹارنی جنرل مکل روہتگی کے چیمبر میں کام کرنے والے جونیئر وکیل ایم تھنگاتھورائی کا بھی ہے۔
ان کے نمبروں کے ممکنہ نگرانی کی فہرست میں ہونے کی بات بتائے جانے پر دونوں نے حیرانی کا اظہار کیا۔ جونیئر وکیل ایم تھنگاتھورائی نے بتایا کہ بینک جیسی کئی جگہوں پر ان کے باس (روہتگی)کے نام کے ساتھ ان کا نام درج ہے جس سے کہ عدالت یا کسی کام میں مصروف ہونے کے دوران وہ غیرضروری کال یا اوٹی پی وغیرہ سے پریشان نہ ہوں۔ روہتگی نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے۔
یہ نمبر روہتگی کے اٹارنی جنرل کے روپ میں عہدہ چھوڑنے کے دو سال بعد 2019 میں جوڑا گیا تھا۔ اس دوران روہتگی نے کچھ اہم معاملوں میں‘حکومت’کی نمائندگی جاری رکھی، لیکن کچھ مدعوں پر سرکار سے الگ رائے رکھنا بھی شروع کر دیا تھا۔
پچھلے مہینے کی شروعات میں پیگاسس پروجیکٹ شروع کرنے سے پہلے اس پروجیکٹ سے وابستہ اداروں نے وزیر اعظم دفتر کو لکھا تھا۔ تب الکٹرانکس اور انفارمیشن ٹکنالوجی کی وزارت نے اس بات کی
تردید کی تھی کہ اس نے غیرقانونی طریقے سے کسی کی بھی نگرانی کی ہے۔
وزارت نے کہا تھا، ‘کچھ خاص لوگوں پر سرکاری نگرانی کے الزامات کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ہے۔’
دی وائر سمیت ایک بین الاقوامی میڈیا کنسورشیم نے بتایا ہے کہ این ایس او گروپ کے لیک ہوئے ڈیٹابیس کی فہرست میں راہل گاندھی سمیت اپوزیشن رہنما،مرکزی وزیروں پرہلاد سنگھ پٹیل اور اشونی ویشنو، کاروباری انل امبانی، سی بی آئی کے ایک سابق چیف اور کم از کم 40 صحافی شامل تھے۔ حالانکہ بنافارنسک جانچ کے بغیریہ تصدیق کرنا ممکن نہیں ہے کہ سبھی فون ہیک کیے گئے تھے۔
گزشتہ دو ہفتوں سے کانگریس اور کئی اپوزیشن پارٹی الزامات کی سپریم کورٹ کی نگرانی میں جانچ کی مانگ کر رہے ہیں اور سرکار سے یہ بھی واضح کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں کہ پیگاسس اسپائی ویئر کا استعمال کیا گیا تھا یا نہیں۔ مرکزی حکومت اس معاملے میں اپوزیشن کے سبھی الزامات کو خارج کر رہی ہے۔
(اجئے آشیرواد کے ان پٹ کے ساتھ)