ملک میں اقتصادی بحران کو لےکر راجیہ سبھا میں وزیر خزانہ نرملا سیتارمن کے جواب سے عدم اطمینان کااظہار کرتے ہوئے کانگریس، ترنمول کانگریس، عام آدمی پارٹی اور بائیں بازو کی جماعتوں کے ممبروں نے ایوان کا بائیکاٹ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیر خزانہ معیشت کے سامنےکھڑے مسائل کے حل کے بجائے اپنی بجٹ اسپیچ پڑھ رہی ہیں۔
نرملا سیتا رمن/ فائل فوٹو: پی ٹی آئی
نئی دہلی: وزیر خزانہ نرملا سیتارمن نے راجیہ سبھا میں معیشت کے انتظام وانصرام اور صورت حال کو لےکر حزب مخالف کی تنقید کابچاؤ کیا۔ انہوں نے اس کے لئے پہلے کی کانگریس قیادت والی یو پی اے حکومت کے دوران بہت وسیع طورپراقتصادی اعداد و شمار کا موازنہ کرتے ہوئےکہا کہ اقتصادی ترقی ضرور دھیمی ہوئی ہے لیکن معیشت کبھی بحران میں نہیں گئی۔راجیہ سبھا میں معیشت کی صورت حال پر سوال کا جواب دیتے ہوئے سیتارمن نے کہا کہ حکومت نے اپنے پہلے بجٹ کے بعد جو قدم اٹھائےہیں، اس کا مثبت نتیجہ آنا شروع ہو گیا ہے۔ آٹوسیکٹر جیسے کچھ شعبوں میں اصلاح کے اشارے دکھ رہے ہیں۔
حکومت کے ریونیو کی صورت حال کو لےکر تشویش کو دور کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال کے پہلے سات مہینوں میں گزشتہ سال کےاسی مدت کے مقابلے میں براہ راست ٹیکس اور جی ایس ٹی وصولی دونوں میں اضافہ ہوا ہے۔وزیر خزانہ ایوان بالا میں اپنی باتیں پوری کر پاتیں اس سے پہلے ہی ان کے جواب سے عدم اطمینان ظاہر کرتے ہوئے کانگریس، ترنمول کانگریس، عام آدمی پارٹی اور بائیں بازو کی جماعتوں کے ممبروں نے ایوان سے بائیکاٹ کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیر خزانہ معیشت کے سامنےکھڑے مسائل کے حل کے بجائے اپنی بجٹ اسپیچ پڑھ رہی ہیں۔
سیتارمن نے کہا،؛ملکی مفاد میں ہر قدم اٹھائے جا رہے ہیں۔ اگر آپ محتاط طریقے سے معیشت پر غور کریں تو فی الحال اقتصادی شرح نموضرور نیچے آئی ہے لیکن یہ بحران نہیں ہے، ایسی حالت کبھی نہیں آئےگی۔اس کے بعد انہوں نے 2014 کے بعد سے نریندر مودی کی رہنمائی والی حکومت کی مدت کار اور سابق یو پی اے دو کے پانچ سال کی مدت کے دوران جی ڈی پی میں اضافہ کے اعداد و شمار دئے۔ انہوں نے کہا کہ افراط زر ہدف سے کم ہے،اقتصادی توسیع بہتر ہے اور دیگر وسیع اقتصادی علامتوں کی حالت بھی ٹھیک ٹھاک ہے۔
قابل ذکر ہے کہ غیر-بینکنگ مالی کمپنیوں میں بحران اور اس کا اثر خردہ کاروبار کرنے والی کمپنیوں، گاڑی کمپنیوں، مکان فروخت اور بھاری صنعت پر پڑا جس سے ملک کی اقتصادی شرح نمو کمزور ہوئی ہے۔ملک کی اقتصادی شرح نمو رواں مالی سال کے اپریل-جون سہ ماہی میں 5 فیصد رہی اور 2013 کے بعد سے سب سے کم ہے۔ مختلف ایجنسیوں کا اندازہ ہے کہ دوسری سہ ماہی میں اس میں اور گراوٹ آ سکتی ہے۔ یہ حالت تب ہے جب کمپنی ٹیکس میں کٹوتی سمیت کئی حوصلہ افزائی تدابیر کئے گئے ہیں۔
سیتارمن نے کہا کہ پچھلے دو مالی سال سے اقتصادی شرح نمو میں گراوٹ پھنسے قرض کی وجہ سے بینکوں کے بہی-کھاتوں پر دباؤ اوردوسری طرف قرض میں ڈوبی کمپنیوں کا نتیجہ ہے اور اس کے لئے سابق یو پی اے حکومت کی قرض بانٹنے کی پالیسی ذمہ دار تھی۔انہوں نے اپوزیشن کی اس تنقید کو خارج کر دیا کہ پانچ جولائی کو پیش ان کا بجٹ سست ہوتی معیشت کے خدشات کا حل کرنے میں ناکام رہی اور اس لئے انہوں نے بجٹ منظور ہونے کے ایک مہینے کے اندر کئی تدبیروں کا اعلان کیا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ اقتصادی تجزیہ میں بینکوں میں سرمایہ ڈالے جانے کی ضرورت اور اصلاحات کا ذکر تھا اور اس کی ضرورت کوسمجھتے ہوئے اس کا ذکر بجٹ اسپیچ میں بھی کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اسی بجٹ اسپیچ کے بعد بینکوں میں 70000 کروڑ روپے کا سرمایہ ڈالا گیا اور اسی کی وجہ سے حال میں بینکوں کے قرض گراہک تک پہنچ بنانے کے پروگراموں میں 2.5 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کے قرض دیے گئے۔سیتارمن نے کہا کہ Bankruptcy and Credit Insolvency Code کا نتیجہ دکھ رہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ معیشت میں نرمی نقدی کے مسئلہ کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ فنڈ کی ریلیز کا مسئلہ ہے۔
سیتارمن نے جی ایس ٹی کے بارے میں کہا کہ 31 مارچ 2020 تک خالص طور پر 6.63 لاکھ کروڑ روپےکے خالص ٹیکس وصول کرنے کا ہدف ہے، اس میں سے اپریل-اکتوبر کے دوران 3.26 لاکھ کروڑ وصول کئے گئے۔ ماہانہ کی بنیاد پر جی ایس ٹی کی وصولی میں اضافہ ہورہا ہے۔ براہ راست ٹیکس وصولی بھی اپریل-اکتوبر کے دوران 4.8 فیصد بڑھکر 6.86 لاکھ کروڑ روپےرہی۔انہوں نے کہا کہ جی ڈی پی تناسب کے طور پر براہ راست ٹیکس وصولی 2014-15 میں 5.5 فیصد سے بڑھکر 2018-19 میں 5.98فیصد پر پہنچ گئی۔
سیتارمن نے کہا، 2009-14 کے دوران ایف ڈی آئی ریلیز 189.5 ارب ڈالر رہی۔ اس کے بعد بی جے پی قیادت والی حکومت کے پانچ سال کی مدت میں یہ 283.9 ارب ڈالر رہا۔ غیر ملکی کرنسی کا ذخیرہ یو پی اے-دو کے وقت 304.2 ارب ڈالر تھا جو بی جے پی حکومت میں 412.6 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔انہوں نے کہا،کیا ہر چیز نیچے آ رہی ہیں؟ بالکل نہیں۔ ہم سیکٹر کے سامنے مسائل سے واقف ہیں،ہم یقینی بنائیںگے کہ ان مسائل کا مثبت حل ہو۔
وزیر خزانہ کے جواب کے بعد صدرجلسہ نے حزب مخالف ممبروں کے ذریعے سیتارمن کے جواب کے درمیان میں ہی ایوان سے واک آؤٹ کرنے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کرنا مناسب نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ممبر واک آؤٹ کرتے رہے ہیں لیکن ان کو وزیر خزانہ کا پوراجواب سننا چاہیے تھا کیونکہ یہ ایک بہت اہم مدعا ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)