
بی جے پی ایم ایل اے پاؤلین لال ہاؤکیپ نے دی وائر سے بات چیت میں کہا کہ ریاست میں معنی خیز اور مثبت تبدیلی تبھی آئے گی جب مرکزی حکومت پہاڑی علاقوں میں کُکی برادری کے لیے ایک الگ انتظامیہ تشکیل دے گی۔

پاؤلین لال ہاؤکیپ۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)
نئی دہلی: منی پور کے وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ کے 9 فروری کواستعفیٰ دینے کے بعد سے یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا بھارتیہ جنتا پارٹی نے حقیقت میں منی پور میں دیرینہ بحران کا کوئی حل تلاش کر لیا ہے۔
اس سلسلے میں ریاست کے ایک بی جے پی ایم ایل اے پاؤلین لال ہاؤکیپ نے دی وائر سے بات چیت میں شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ معنی خیز اور مثبت تبدیلی اسی وقت آئے گی جب مرکزی حکومت پہاڑی علاقوں میں کُکی برادری کے لیے الگ انتظامیہ تشکیل دے گی۔
معلوم ہو کہ علیحدہ انتظامیہ کا یہ مطالبہ 10 دسمبر 2024 کو سامنے آیا تھا، جب منی پور کی کُکی برادری کے سات ایم ایل اے نے نئی دہلی کے جنتر منتر پر مرکزی حکومت کے خلاف جان و مال کے نقصان کو روکنے کے لیے فوری اقدامات نہ کرنے پر خاموش احتجاج کیا تھا اور اپنی برادری کے لیے علیحدہ انتظامیہ کے مطالبے کو دہرایا تھا۔ اس دوران ایم ایل اے نے منہ پر سیاہ ماسک لگایا تھا اور میڈیا سے بات کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
اس احتجاج سے پہلے انہوں نے منی پور بحران سے نمٹنے کے پارٹی کے طریقے پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا۔
اس احتجاج کے صرف دو ماہ بعدہاؤکیپ، جو چوڑا چاند پور میں نسلی تنازعہ سے متاثرہ سیکوٹ انتخابی حلقہ کی نمائندگی کرتے ہیں اور احتجاج کرنے والے ایم ایل اے میں سے ایک ہیں، نے ریاست میں جاری نسلی کشیدگی کے بارے میں حکومت کے رویہ پر تنقید کی ہے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ اس معاملے میں بیرین کا استعفیٰ کافی نہیں ہے۔
ہاؤکیپ کا تبصرہ منی پور کے سیاسی منظر نامے کی مشکلات کو نشان زد کرتا ہے، جہاں خود مختاری کے مطالبات اب ریاست کی حکمرانی کو چیلنج کر رہے ہیں۔
اسمبلی میں ‘شرمندگی’
منی پور کی سیاست کے حوالے سے ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بیرین سنگھ کو ایسے وقت میں وزیر اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ کیوں دینا پڑا جب 8 فروری کو دہلی میں بی جے پی نے زبردست جیت درج کی؟
ہاؤکیپ کا کہنا ہے کہ ‘اسمبلی سیشن میں فلور ٹیسٹ میں ناکام ہونے کی شرمندگی سے بچنے کے لیے۔’
واضح ہو کہ بیرین کے استعفیٰ سے دو دن قبل کانگریس کے ریاستی صدر کیشم میگھ چندر نے فلور ٹیسٹ کا مطالبہ کیا تھا۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں انہوں نے کہا تھا، ‘براہمسترا میزائل یقینی طور پر ڈبل انجنوں میں سے کسی ایک کو نشانہ بنائے گا!’ انہوں نے کہا تھا کہ کانگریس ‘جلد ہی’ تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے تیار ہے۔
تاہم، بیرین کے استعفیٰ کے فوراً بعد منی پور کے گورنر اجئے بھلا نے ان کے بلائے گئے اسمبلی اجلاس کو رد کر دیا ہے۔
معلوم ہو کہ 60 رکنی منی پور اسمبلی میں بی جے پی کے پاس 37 سیٹیں ہیں۔ نگا پیپلز فرنٹ (این پی ایف) اپنے پانچ ایم ایل اے کے ساتھ حکومت کی حمایت کرتا ہے۔ جنتا دل (یونائیٹڈ) یا جے ڈی (یو) کے پاس شروع میں چھ ایم ایل اے تھے، لیکن ان میں سے پانچ بی جے پی میں شامل ہوگئے، جے ڈی (یو) کے پاس ایک ایم ایل اے رہ گیا۔
میگھالیہ کے وزیر اعلیٰ کونراڈ سنگما کی قیادت میں نیشنل پیپلز پارٹی (این پی پی) نے ابتدائی طور پر منی پور میں بی جے پی کی قیادت والی حکومت کی حمایت کی تھی۔ تاہم، نومبر 2024 میں این پی پی نے جاری تشدد پر قابو پانے میں بیرین کی ناکامی کا حوالہ دیتے ہوئے، اپنی حمایت واپس لے لی تھی ۔
ہاؤکیپ کا یہ بھی ماننا ہے کہ بی جے پی حکومت منی پور میں اپنی اکثریت کھو چکی ہے اور اس کے پاس فلور ٹیسٹ کے لیے مطلوبہ تعداد نہیں ہے۔
بیرین سے ‘نجات’
پچھلے 21 مہینوں میں ایسے کئی مواقع آئے ہیں، جب بی جے پی کے اپنے ایم ایل اے نے کھل کر بیرین حکومت کی مخالفت کی ہے۔ اگرچہ بی جے پی اور اس کے اتحادی 31 کے جادوئی اعداد و شمار سے بہت آگے ہیں، ہاؤکیپ اور کئی دیگر ایم ایل اے کا خیال ہے کہ این ڈی اے کے پاس اکثریت ہے، لیکن بہت سے ایم ایل اے بیرین کے خلاف ہیں۔
ہاؤکیپ نے کہا، ‘ان کا استعفیٰ بکواس سے جان چھڑانے کے سوا کچھ نہیں ہے۔’
غور طلب ہے کہ منی پور میں 3 مئی 2023 سے تشدد جاری ہے۔ تب سے ریاست کے باشندے مسلسل بیرین کو اقتدار سے ہٹانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ تاہم، بی جے پی قیادت نےہر طرح سے ان کا دفاع کیا ہے۔
ہاؤکیپ کا خیال ہے کہ اس مرحلے پر بیرین کو ہٹانے سے کچھ نہیں بدلے گا۔ انہوں نے کہا، ‘وہ وزیراعلیٰ رہیں یا نہ رہیں، یہ غیر متعلق بات ہے۔ کُکی برادری انڈین یونین کے تحت ایک الگ سیاسی اور انتظامی یونٹ چاہتی ہے۔’
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ بی جے پی کے اندر سے کسی نئے چیف منسٹر کو قبول کریں گے، خواہ وہ شخص میتیئی ہی کیوں نہ ہو، ہاؤکیپ نے جواب دیا،’بھلے ہی بی جے پی کُکی چیف منسٹر بنا دے ، اس سے کچھ نہیں بدلے گا۔ علیحدہ انتظامیہ قومی مفاد میں ہے۔’
قابل ذکر ہے کہ اس سال جنوری میں وزارت داخلہ کے حکام نے کُکی کے نمائندوں کے ساتھ دہلی میں ایک میٹنگ کی تھی، جس میں کُکی کونسل، جو کہ مختلف تنظیموں کے نمائندوں کے ساتھ ایک نئی باڈی ہے، کو واضح پیغام دیا گیا تھا کہ اس سے پہلے کہ کوئی بھی سیاسی بات چیت اور حل شروع ہو، ریاست میں تشدد کا مکمل خاتمہ ضروری ہے۔ اس کے بعد ہی علیحدہ انتظامیہ کے مطالبے پر غور کیا جائے گا۔
اس سے قبل، وزارت داخلہ نے اکتوبر 2024 میں ایک میٹنگ بھی بلائی تھی، جس میں میتیئی، کُکی اور نگا برادریوں کے تقریباً 20 ایم ایل اے کو اکٹھا کیا گیا تھا۔ تشدد کے پھیلنے کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب متضاد گروپوں کے قانون سازوں نے ممکنہ حل پر بات کرنے کے لیے ملاقات کی تھی۔ دو گھنٹے سے زیادہ جاری رہنے والی میٹنگ میں بی جے پی کے رکن پارلیامنٹ سمبت پاترا اور وزارت کے سینئر افسران نے بھی شرکت کی۔ تاہم، مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ اور بیرین دونوں اس میٹنگ سے غیر حاضر رہے۔
‘صرف سچائی کی جیت ہوتی ہے’
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انہیں مرکزی حکومت پر بھروسہ ہے، تو ہاؤکیپ نے جواب دیا، ستیہ میوجیتے ۔ سچائی کی ہی جیت ہوتی ہے۔ اگر وہ اپنے نقطہ نظر میں ایماندار ہیں تو کوئی حل نکل سکتا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ نئے وزیر اعلیٰ کے انتخاب پر بات چیت کے لیے تمام بی جے پی ایم ایل اے کو 12 فروری کو نئی دہلی بلایا گیا ہے ۔ قابل ذکر ہے کہ مبینہ طور پربیرین کےاستعفیٰ سے متعلق بات چیت کے دوران کُکی بی جے پی کے ممبران اسمبلی سے اس سلسلے میں نہ تو رابطہ کیا گیا اور نہ ہی انہیں کسی بحث میں شامل کیا گیا تھا۔
گزشتہ 21 مہینوں کے تشدد کے دوران بیرین کی زیرقیادت حکومت سے عدم اطمینان کا اظہار نہ صرف کُکی بی جے پی ایم ایل اے بلکہ ان کے میتیئی ہم منصبوں نے بھی کیا ہے۔ دونوں گروپوں نے وزیر اعظم نریندر مودی سے مداخلت کی اپیل کی تھی۔ تاہم، وزیر اعظم نے کسی ایم ایل اے سے بات نہیں کی ہے۔
اکثریتی میتیئی اور کُکی برادریوں کے درمیان نسلی تنازعہ نے منی پور میں بدامنی کو جنم دیا ہے، جس کے نتیجے میں مئی 2023 سے اب تک 250 سے زیادہ اموات اور تقریباً 60000 افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)