گزشتہ 10-11 فروری کوجمہوریت کانفرنس میں سول سوسائٹی کے سو سے زائد ارکان، سابق نوکر شاہ، میڈیا پروفیشنل اور ماہرین تعلیم نے شرکت کی۔ ان میں جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ، کانگریس کے سینئر لیڈر سلمان خورشید، منیش تیواری، سی پی آئی (ایم) لیڈر سیتارام یچوری اور ایم پی کپل سبل بھی شامل تھے۔
نئی دہلی: سول سوسائٹی کے سو سے زیادہ ارکان، انسانی حقوق کے کارکن، سابق نوکر شاہ ، میڈیا کے پیشہ ور افراد اور ماہرین تعلیم 10 اور 11 فروری کو ہندوستان میں بڑھتی آمرانہ تبدیلیوں پر تشویش کا اظہار کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔
رپورٹ کے مطابق، ان کی کانفرنس میں خصوصی طور پر نوجوانوں اور خواتین میں بے روزگاری جیسے اہم مسائل سے نمٹنے ، ، اکثریتی فرقہ واریت کی لہر کو روکنے، آئینی حقوق کے تحفظ اور قانونی اداروں کی خودمختاری، وفاقی ڈھانچے کو مضبوط بنانے اور مساوات اور سماجی انصاف کو فروغ دینےکے بارے میں بات کی گئی۔
دو روزہ ڈیموکریسی کنونشن 2024 میں جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ، سینئر کانگریس لیڈر سلمان خورشید، منیش تیواری، سی پی آئی (ایم) کے جنرل سکریٹری سیتارام یچوری، ایم پی کپل سبل، کشمیر کے سی پی آئی (ایم) لیڈر محمد یوسف تاریگامی نے اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے ترجمان سہیل بخاری نے خطاب کیا۔
اس دوران ڈیموکریسی کنونشن کی جانب سے پیش کی گئی قراردادوں میں نئے انڈین جسٹس کوڈ، انڈین سول ڈیفنس کوڈ اور انڈین ایویڈنس بلوں پر نظرثانی کا مطالبہ کیا گیا، جو محض شک کی بنیاد پر گرفتاریوں کی اجازت دیتے ہیں، اور دہشت گردی کی تعریف کو وسیع کرتے ہوئے اس میں پرامن احتجاج اور سڑک جام کرنے کو شامل کرتے ہیں۔
مزید برآں، کانفرنس نے غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) اور جموں و کشمیر کے پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) جیسے سخت قوانین کو منسوخ کرنے کی سفارش کی۔
پریس ریلیز کے مطابق، کانفرنس نے اندرونی تنازعات میں مسلح افواج کی تعیناتی سے گریز کرنے پر زور دیتے ہوئے 1951 کی سفارش کہ پریوینٹو ڈیٹنشن ایکٹ (پی ڈی اے) کا اطلاق صرف حالت جنگ میں ہونا چاہیے کی توثیق کی، ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ضمانت ضابطہ ہے، اس اصول کی پیروی کی جانی چاہیے اور صرف غیرمعمولی جرائم کی صورت میں مستثنیٰ ہونا چاہیے۔
اس کے علاوہ، کانفرنس نے حکومت کے ناقدین کو نشانہ بنانے کے لیے اس کے مبینہ استعمال کا حوالہ دیتے ہوئے پریوینشن آف منی لانڈرنگ ایکٹ، 2002 (پی ایم ایل اے) میں جامع تبدیلیوں کا مطالبہ کیا۔
اس نے حکومت سے ایم ایس پی کی قانونی گارنٹی فراہم کرنے اور سوامی ناتھن کمیشن کی سفارشات کو لاگو کرنے، آمدنی کی حفاظت کو یقینی بنانے اور فصلوں کے تنوع کو فروغ دینے کے لیے مختلف فصلوں میں ایم ایس پی کی توسیع کی وکالت کی بھی کی۔
دیگر اہم تجاویز میں 1947 کی کٹ آف تاریخ کے ساتھ 1992 کے عبادت گاہوں کے ایکٹ کو سختی سے نافذ کرنے اور ایک جامع گھریلو انسداد امتیازی قانون بنانے، شہریوں کو مختلف شعبوں میں امتیازی سلوک کے خلاف تحفظ فراہم کرنے اور 2019 کے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے ) کو منسوخ کرنا شامل ہے۔
( مکمل پریس ریلیز پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)