مغربی ممالک اور امریکی اداروں نے ا یبٹ آباد کے آپریشن کے بعد جس طرح پاکستان کو ایک طرح سے احساس گناہ میں مبتلاکرکے رکھا اور اسامہ کی ایک فوجی مستقر میں موجودگی کو پوری دنیا میں موضوع بحث بنادیا، بالکل اسی طرح بارشہ کا آپریشن بھی ترکی کی سفارت کاری کے لیے اب ایک امتحان ہوگا۔ لگتا ہے کہ آپریشن کا وقت بھی سوچ سمجھ کر طے کیا گیا تھا، تاکہ یہ ترکی کی حالیہ فوجی و سفارتی کامیابی میں دودھ میں جیسے مینگنیاں ڈالنے کا کام کرے۔
ابوبکر البغدادی، فوٹو : رائٹرس
مئی 2011 میں پا کستانی شہر ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے ٹھکانے پرجس طرح امریکی اسپیشل فورسز نے رات کے اندھیرے میں آپریشن کرکے القاعدہ کے سربراہ کو ہلاک کردیا، بالکل اسی طرز پر شام کے ادلیب صوبہ کے حریم ضلع میں واقع بارشہ گاؤں میں دھاوا بول کر امریکی افواج کی ڈیلٹا یونٹ نے ہیلی کاپٹرز کی مدد سے داعش کے سربراہ
ابوبکر البغدادی کو ہلاک کرنے کا دعوی کیا ہے۔ یہ علاقہ جبل الاعلیٰ پہاڑوں سے گھرا ہے، اور دروز فرقہ کثیر تعداد میں یہاں آباد ہے۔ ان دونوں آپریشنز میں مماثلت یہ ہے کہ جس طرح تلاش بسیار کے بعد معلوم ہوا کہ اسامہ کسی پہاڑی غار کے بجائے پاکستان کے ایک شہری علاقہ اور وہ بھی ایک فوجی مستقر کے پاس کئی سالوں سے مقیم تھے، اسی طرح بغدادی کو بھی امریکیوں نے ایک ایسی جگہ ڈھونڈ نکالا، جو ایبٹ آباد کی طرح شہر تو نہیں، مگر ایک دیہی رہائشی علاقہ ہے اور پچھلے دو سالوں سے ترک افواج اور ان کے اتحادی گروپوں کے قبضہ میں تھا۔
بتایا جاتا ہے کہ کچھ دوری پر ہی اس علاقہ میں ترک فوج کی پکیٹ ہے۔ ا مریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اس آپریشن میں تعاون کے لیے ترکی، عراق، شام اور کر د عسکریوں کا تو شکریہ ادا کیا، مگر امریکی ادارے، جو اپنے صدر کے اس علاقہ سے فوجی انخلا اور ترکی کو رول دینے کے فیصلہ سے سخت نالاں ہیں، کا کہنا ہے کہ یہ آپریشن صرف کرد عسکری گروپوں اور ان کے کمانڈر جنرل مظلوم عابدی کی وجہ سے ممکن ہوسکا۔ مغربی ممالک اور امریکی اداروں نے ا یبٹ آباد کے آپریشن کے بعد جس طرح پاکستان کو ایک طرح سے احساس گناہ میں مبتلاکرکے رکھا اور اسامہ کی ایک فوجی مستقر میں موجودگی کو پوری دنیا میں موضوع بحث بنادیا، بالکل اسی طرح بارشہ کا آپریشن بھی ترکی کی سفارت کاری کے لیے اب ایک امتحان ہوگا۔ لگتا ہے کہ آپریشن کا وقت بھی سوچ سمجھ کر طے کیا گیا تھا، تاکہ یہ ترکی کی حالیہ فوجی و سفارتی کامیابی میں دودھ میں جیسے مینگنیاں ڈالنے کا کام کرے۔
امریکی صدر کے لیے گو کہ یہ کامیابی خاصی اہم ہے، مگر ایک امتحان بھی ہے کہ کیا وہ فوجی انخلا ء اور کرد عسکریوں کی مدد بند کرنے کے فیصلہ پر عمل درآمد کرپائیں گے؟ ٹرمپ اپنے ملک کے اداروں اور مغربی اتحادیوں کی تنقید کا ہدف بنے ہوئے ہیں۔ ان کے ناقدین کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کے قدم کی وجہ سے داعش اس علاقہ میں پھر پیر جما ئے گا۔ ترکی کی وزارت دفاع کے مطابق آپریشن سے قبل ترکی کے ساتھ اطلاعات کا تبادلہ کیا گیا تھا، مگر امریکی ذرئع کا کہنا ہے کہ یہ اطلاعات بس یہ بتانے کے لیے تھی کہ ان کی پیکٹ کے نواح میں امریکی فوج آپریشن کر رہی ہے۔ دیگر تفصیلات ان کو نہیں بتائی گئی تھیں۔
جو اطلاعات مختلف ذرائع سے موصول ہو رہی ہیں، ان کے مطابق پچھلے ماہ عراقی خفیہ اداروں کو بغدادی کے دو بھائیوں جمعہ اور احمد کی بیویوں کا سراغ ملا تھا۔ عراقی خفیہ ادارے دراصل ایک شامی شہری کی ٹوہ میں تھے، جو عراق منتقل ہو گیا تھا، مگر حال ہی میں اس نے اپنی فیملی کو دوبارہ شام پہنچایا دیا تھا۔ عراقی خفیہ ذرائع نے یہ اطلاع امریکی ادارے سی آئی اے کے سپرد کردی۔مگر امریکی ادارے عراقی حکومت کو بھی کریڈٹ دینے سے کترا رہے ہیں۔ جس علاقہ میں یہ آپریشن ہوا ہے وہ داعش مخالف گروپ حیات التحریرالشام کے قبضہ میں ہے۔ اس گروپ نے ماضی میں اس علاقہ میں داعش سے تعلق رکھنے کے نام پر کئی افراد کو سرعام ہلاک کردیا ہے۔ اگست 2018کے بعد سے ادلیب صوبہ کے وسیع علاقہ پر اس گروپ اور نیشنل فرنٹ آف لبریشن نے قبضہ کر لیا تھا۔
ان دونوں گرپوں کی پشت پناہی ترکی کرتا آرہا ہے۔ دسمبر 2018میں بشار الاسد کی فوج اور عسکریوں کے بیچ ترکی کی ایما پر ایک سیز فائر لائن کھنچی گئی تھی اور علاقہ میں ایک غیر فوجی علاقہ تشکیل دیا گیا تھا۔جس طرح اسامہ کا ایبٹ آباد کو رہائش کے لیے چننا ایک معمہ ہے، بارشہ میں بھی بغدادی کی موجودگی ایک عقدہ ہی رہےگی۔ دونوں کے متعلق عام رائے تھی کہ وہ پہاڑوں، ریگستانوں یا کھلے علاقوں میں رہنے کے عادی ہیں۔ ترکی کے آپریشن کے بعد چونکہ یہ خدشہ تھا کہ داعش اس علاقہ میں افراتفری کا فائدہ اٹھا کر سرگرمیاں، دوبارہ شروع کرسکتی ہے، اس لیے امریکی اداروں نے ترسیل کے ہر ذریعہ پر خصوصی نظر رکھی ہوئی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ اس علاقہ سے متواتر داعش کے کیڈرز کو پیغامات موصول ہو رہے تھے۔
گو کہ شمالی شام میں ترکی کی فوج کشی اور پھر سفارتی محاذ پر پے در پے کامیابیاں حاصل کرکے صدر رجب طیب اردگان نے پہلا راؤنڈ جیت لیا تھا، مگر بغدادی کی ادلیب میں موجودگی اور اس کی ہلاکت پر وہ بالکل اسی طرح سوالوں کے گھیرے میں رہیں گے، جس طرح پاکستانی حکومت کو 2011 کے آپریشن اور اس کی ناک کے نیچے اسامہ کی موجودگی پر جواب دینے پڑ رہے ہیں۔ اردگان کے حکومت سنبھالنے سے قبل ہی ترکی کو شاید اس کا ادراک ہوگیا تھا کہ دنیا میں حلیفوں پر تکیہ کرنے کے بجائے اپنے قوت بازو پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے۔
اس لیے امید ہے کہ پاکستان کے برعکس اردگان مغربی ممالک کو مؤثر انداز میں جو اب دے پائیں گے۔ 5اگست 2019 ء کو جس طرح ہندوستان نے ریاست جموں و کشمیر کو تحلیل کرکے نہ صرف یونین میں ضم کیا، بلکہ اس کے درجہ کو باقی ہندوستانی ریاستوں سے بھی کم تر کردیا، کچھ اسی طرح 1974 میں ترکی اور یونان کے درمیان بحیرہ روم میں موجود جزیرہ سائپریس یا قبرص میں ایک فوجی بغاوت کا ڈرامہ رچا کر، یونان نے اس کو ضم کرنے کا اعلان کردیا تھا۔ یہ 1950میں طے اس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی تھی، جس میں اس جزیرہ کو ایک آزاد مملکت کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا۔ مغربی ممالک کی شہ پر یونان کے اس عمل کے خلاف ترکی نے خاصی سفارتی تگ و دو کی۔ اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں سے معاہدے کی پاسداری اور اس جزیرہ پر آباد ترک آبادی کے حقوق بحال کرنے کی فریاد کی۔
مگر جب کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی، تو ایک ماہ بعد ترکی نے فوجی مداخلت کر کے قبرص کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کرلیا۔ اب تو فوراً ہی اقوام متحدہ حرکت میں آگئی، نیز عالمی طاقتوں کو اس جزیرہ پر یونانی نژاد آبادی کی فکر ستانے لگی۔ بالآخر قبرص کو ترک اور یونانی نژاد آبادی میں بانٹ دیا گیا۔ بعد میں 1983میں ترک اکثریتی شمالی قبرص نے آزادی کا اعلان کرکے ترکی کو ایک گارئینٹر ملک کے بطور پر تسلیم کرلیا۔ آج بھی ترک افواج ہی شمالی قبرص کی سرحدوں کی حفاظت کرتی ہیں۔
کچھ ایسی ہی تاریخ 45 سال بعد دہرائی جا رہی تھی، جب مغربی ممالک شام کے حصے بخرے کرکے ترکی کی سرحدسے متصل ایک آزد مملکت کے قیام کی تیاریا ں مکمل کرنے میں مصروف تھے۔ اسرائیل میں اس کو تسلیم کرنے کے قواعد بھی تیار تھے۔ مگر ترکی نے فوج کشی کرکے نہ صرف اس منصوبہ کو ناکام کردیا، بلکہ فوجی آپریشن کے بعد سفارتی محاذ پر پے در پے کامیابیاں حاصل کرکے پہلے امریکہ پھر روس کو شمال مشرقی شام کو ایک محفوظ علاقہ تسلیم کروانے کے لیے منوادیا۔ ان دونوں واقعات سے ایک بار پھر یہی ثابت ہوتا ہے کہ سفارتی کاوشیں اور میز پر گفت و شنید تبھی بار آور ثابت ہوتی ہیں، جب آپ کے فوجی بوٹ زمین پر مضبوط ہوں۔ دونوں میں ایک واضح لنک ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے سبھی ادراوں کے منصوبوں کو ویٹوکرکے جس طرح ترکی کے لیے ملٹری آپریشن کی راہ ہموار کی، اس کے خلاف سے سب زیادہ رد عمل اسرائیل میں ہوا۔ جس سے یہ عیاں ہوتا تھا کہ دال میں ضرور کچھ کالا تھا۔
ٹرمپ کا خیال تھا کہ خطے میں سرگرم عسکری گروپوں کے بجائے اپنے ناٹو حلیف ترکی کی باقاعدہ افواج کے گراؤنڈسپورٹ سے ہی داعش کے خلاف آخری معرکہ سر کیا جائے، جو امریکی اداروں کو منظور نہیں ہے ۔امریکہ اور ترکی کے تعلقات میں سرد مہری کی ایک بڑی وجہ یہی تھی، کہ سابق امریکی صدر براک اوبامہ نے خطے میں اپنے ناٹو حلیف سے مدد لینے کے بجائے، گراؤنڈ آپریشن کے لیے کرد عسکریوں کو مجتمع کر کے علاقہ ان کے حوالے کر دیا۔ اس کے عوض ان سے وعدہ کیا گیا تھا کہ شمالی شام کو عرب آبادی سے خالی کرواکے ان کے حوالے کردیا جائےگا۔اب دیکھنا ہے کہ بغدادی کی ہلاکت کے بعد صورت حال کیا رخ اختیار کریگی،جہاں حال ہی میں خطہ میں ترکی نے اپنی فوجی اور سفارتی برتری جتلا کر اسرائیل اور دیگر عرب ممالک کی نیندیں حرام کر دی تھیں۔