وزیر اعظم نریندر مودی نے لوک سبھا میں تحریک عدم اعتماد پر دو گھنٹے سے زیادہ کی تقریر کی، جس میں انہوں نے منی پور کے بارے میں10 منٹ سے بھی کم بات کی۔ اپوزیشن لیڈروں نے اس پر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ انہوں نے ایوان کو انتخابی ریلی کی طرح استعمال کیا۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی لوک سبھا میں تحریک عدم اعتماد پر تقریر کرتے ہوئے۔ (اسکرین گریب بہ شکریہ: یوٹیوب/سنسد ٹی وی)
نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے لوک سبھا میں تحریک عدم اعتماد کا جواب دیتے ہوئے کانگریس اور اپوزیشن اتحاد پر حملہ کرنے کے بعد، کانگریس نے ان پر انتخابی تقریر کرنے کے لیے پارلیامنٹ کے پلیٹ فارم کو استعمال کرنے کا الزام لگایا۔ پارٹی نے کہا کہ وزیر اعظم ‘کانگریس فوبیا’ میں مبتلا ہیں۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، کانگریس لیڈر ملیکارجن کھڑگے نے آخر میں ایوان میں منی پور پر بات کرنے پر وزیر اعظم کا شکریہ ادا کیا۔ کھڑگے نے کہا کہ اگر وزیر اعظم اپنی ضد اور انا کو ترک کر کے پہلے ہی بحث پر راضی ہو جاتے تو پارلیامنٹ کا قیمتی وقت بچ جاتا اور اہم بل اچھی بحث کے بعد پاس ہو جاتے۔
کانگریس صدر نے ایک ٹوئٹ میں لکھا، ‘آخرکار آپ نے ایوان میں منی پور تشدد پر بات کی۔ ہمیں یقین ہے کہ منی پور میں امن کی بحالی کی رفتار تیز ہوگی، ریلیف کیمپوں سے لوگ اپنے گھروں کو لوٹیں گے۔ ان کی بازآبادکاری کی جائے گی، ان کے ساتھ انصاف کیا جائے گا… ہمیں تکلیف ہے کہ منی پور تشدد جیسےغیرمعمولی مسئلے پر اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد جیسے پارلیامانی ہتھیار کا استعمال کرنا پڑا۔ لیکن آپ نے ایوان کا استعمال بھی انتخابی ریلی کے طور پر کیا۔’
انہوں نے یہ بھی کہا کہ لوک سبھا میں کانگریس کے لیڈر ادھیر رنجن چودھری کی معطلی انتہائی غیر جمہوری ہے۔ یہ اقتدارکےتکبر اور بدنیتی کو ظاہر کرتا ہے۔
دوسری طرف لوک سبھا میں کانگریس کے ڈپٹی لیڈر گورو گگوئی نے کہا کہ وزیر اعظم کو ‘کانگریس فوبیا’ ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپنی تقریر میں پی ایم نے کانگریس پر حملہ کیا اور منی پور کے بارے میں بہت کم بات کی۔
واضح ہوکہ وزیر اعظم کی کل 2 گھنٹے 12 منٹ کی تقریر میں تقریباً 90 منٹ پر اپوزیشن نے ان کی تقریر میں منی پور کا ذکر نہ کرنے پر ایوان سے واک آؤٹ کر دیا تھا۔ ان کے جانے کے بعد وزیر اعظم نے منی پور کا ذکر کیا۔
ایوان کے باہر نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے گگوئی نے کہا، ‘…ان دو گھنٹوں میں انہوں نے صرف ہمارے ملک – انڈیا–کا نام ہی توڑ مروڑ کر پیش کیا۔ ان میں کانگریس فوبیا ہے جسے ہم دیکھ سکتے ہیں کیونکہ وزیر اعظم نے اپنا زیادہ تر وقت کانگریس پر الزام لگانے میں صرف کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعظم اپنے سامنے انڈیا انڈیا کا نعرہ لگاتے ہوئے ہندوستانی جماعتوں کے اتحاد کو دیکھ کر گھبرا گئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ‘ان کی تقریر سے کوئی فرق نہیں پڑتا، ہمیں یقین ہے کہ ہماری جماعتیں آئینی اقدار کو بچانے، تہذیبی اقدار کے تحفظ اورآئین میں درج سالمیت، بھائی چارے، آزادی اور مساوات اوراصولوں کو بچانے کے لیے متحد ہوئی ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ 2024 میں ‘انڈیا’ اتحاد جیتے گا۔
واک آؤٹ کے بعد کانگریس ایم پی ششی تھرور نے کہا، ‘ہم نے پی ایم سے منی پور پر قوم سے خطاب کرنے کو کہا۔ ایک گھنٹہ 45 منٹ تک انہوں نے لفظ منی پور کا ذکرتک نہیں کیا تھا۔ وہ خالصتاً سیاسی تقریر کر رہے تھے، کانگریس پارٹی اور اپوزیشن پر تمام پرانے حملے تھے، توہین آمیز تبصرے تھے، لیکن تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اٹھائے گئے سوالات کا کوئی جواب نہیں تھا۔ یہ خالصتاً سیاسی تقریر تھی۔ اس میں نیا کیا تھا؟ انہوں نے ملک کو ایسا کیابتایا جو ہم نہیں جانتے؟’
انہوں نےمزید کہاکہ ‘اس میں سنجیدگی کا فقدان تھا جسے ہم وزیراعظم کے ساتھ جوڑتے ہیں اور عدم اعتماد کی تحریک کا کوئی ٹھوس حوالہ نہیں تھا۔’
آر جے ڈی کے رکن پارلیامنٹ منوج کمار جھا نے بھی وزیر اعظم کی تقریر پر مایوسی کا اظہار کیا۔ انہوں نے
کہا، ہم نے سوچا تھا کہ وزیر اعظم منی پور کی تکلیف کے برعکس اخلاقی اکثریت کے نقشے پر چار قدم چلیں گے، لیکن آپ نے کیا دیکھا – طعنے، لطیفے، احمقانہ باتیں جو چھوٹے وہاٹس ایپ گروپس میں چلتی ہیں۔ وزیراعظم سے اس کی توقع نہیں تھی۔’
ڈی ایم کے ایم پی ٹی آر بالو نے کہا کہ اپوزیشن منی پور اور ملک کے دیگر حصوں کی صورتحال کے بارے میں وزیر اعظم سے سننے کی امید کر رہا ہے جہاں تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ بالو نے کہا، ‘انہوں نے ایک سیاسی تقریر کی ہے۔ تحریک عدم اعتماد کا مقصد منی پور اور ہریانہ اور دیگر علاقوں میں جہاں تشدد ہو رہا ہے، پر ان کا ردعمل سننا تھا۔ ہم نے کئی بار مداخلت کی لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔