دس برسوں کی اسیری میں اجنبیت ،بیگانگی، علیحدگی اور زندگی کی صعوبتوں کے درمیان بھی جی این سائی بابا کے جینے کا عزم اور حوصلہ برقرار رہا۔ شاید انہی اقدار حیات کی بدولت انہوں نے صدیوں سے مظلوم قوموں کے جمہوری حقوق کے لیے اپنے غیر مشکوک کمٹ منٹ کو زندہ رکھا ہوگا۔
جی این سائی بابا، پس منظر میں بمبئی ہائی کورٹ کی ناگپور بنچ۔ (فوٹو: اسپیشل ارینجمنٹ)
جب ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ دسہرہ کا جشن منانے میں مصروف تھا، حیدرآباد سے خبر آئی کہ دہلی یونیورسٹی کے سابق پروفیسر جی این سائی بابا نے رات 8.30 بجے کے قریب
آخری سانسیں لیں۔ تقریباً ایک دہائی کی اسیری کے بعدرواں برس مارچ 2024 میں ممبئی ہائی کورٹ نے انہیں بے قصورقرار دیا،لیکن تب تک ان کی صحت کافی بگڑ چکی تھی۔ 80 فیصد تک جسمانی طور پر معذور ہونے کے باوجود، ان دس برسوں کے دوران ناگپور جیل میں ان کی صحت کے حوالے سے لاپرواہی اور مجرمانہ غفلت برتی گئی۔ سائی بابا کی شریک حیات وسنتا فریاد کرتی رہیں کہ ان کی صحت بگڑتی جا رہی ہے، لیکن ریاست کی جابرانہ پالیسیوں کو نافذ کرنے والے اور ذلت آمیز رویہ رکھنے والے جیل حکام کو کوئی فرق نہیں پڑا۔
دس برسوں کی اسیری میں اجنبیت ،بیگانگی، علیحدگی اور زندگی کی صعوبتوں کے درمیان بھی جی این سائی بابا کے جینے کا عزم اور حوصلہ برقرار رہا۔ شاید انہی اقدار حیات کی بدولت انہوں نے صدیوں سے مظلوم قوموں کے جمہوری حقوق کے لیے اپنے غیر مشکوک کمٹ منٹ کو زندہ رکھا ہوگا۔ انہیں کامل یقین تھا کہ ایک دن وہ بے قصور ثابت ہوں گے اور درس و تدریس کے اپنے پیشے میں واپس آئیں گے اور دہلی یونیورسٹی کے طلبہ کے درمیان انگریزی ادب کی کلاسیں لیں گے۔
لیکن،یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ 5 سال کی عمر میں جسم کے نچلے حصے میں پولیو کی وجہ سے سائی بابا کو روزمرہ کی بنیادی ضروریات کے لیے بھی اکثراپنے ساتھیوں کی مدد کی ضرورت پڑتی تھی۔ لہٰذا، جیل کی اذیت ناک کال کوٹھری میں دس سال تنہائی میں گزارنے کے بعد ان کے جسم کے اندرونی حصوں پرجو مہلک اثرات مرتب ہوئے ہوں گے، ان کی وجہ سے ان کی بے وقت موت پورے نظام عدل اور حکومت کی سفاک مشینری کے بارے میں بعض سنگین سوال کھڑے کرتی ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے ملک کا زیادہ تر مین اسٹریم میڈیا ان تلخ سوالوں سے فرار حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس وقت ملک کا تقریباً پورا میڈیا جسے جمہوری اقدار کا علمبردار ہونا چاہیے تھا، وہ بھی ریاست کے ایک عوام دشمن آلہ کار میں تبدیل ہو چکا ہے۔
سائی بابا، جنہیں ان کے قریبی لوگ سائی کہتے تھے، کا نظریاتی دائرہ بہت وسیع تھا۔ موجودہ ہندوستان میں، وہ قبائلیوں کے انسانی حقوق سے لے کر سیاسی قیدیوں تک اور نو لبرل اقتصادی نظام کے خلاف معاشی طور پر خودکفیل (آتم نربھر) ہندوستان کی مہم کے ساتھ ساتھ جنگ مخالف عوامی جدوجہد تک پر یکساں طور پر دسترس رکھتے تھے۔ وہ تیلگو زبان میں موجود نوآبادیاتی مخالف ثقافتی روایت سے آتے تھے جس کی جڑیں تحریک آزادی کے آخری مرحلے میں تیبھاگا اور نظام مخالف تلنگانہ تحریکوں سے ملتی ہیں۔
وہ تحریک آزادی کے بعد امریکہ پرست، سامراجی پالیسیوں سے پاک ایک آزاد اورخودمختار ہندوستان کے تصور میں جذب عوامی تحریکوں کے تئیں گہری عقیدت رکھنے والے ایک عوامی دانشور تھے، جن کے لیے اکیڈمک زندگی کی بے کیف خوشحالی اور دانشورانہ ڈسکورس تفریح کا وسیلہ نہیں بلکہ موجودہ ہندوستان میں حاشیے پر ڈال دیے گئے طبقات اور لوگوں کی زندگیوں کی جدوجہد کو متحد کرنے کی پہل تھیں۔
انہیں ابتدائی طور پر بدنام زمانہ غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت گرفتار کیا گیااور مقدمہ چلایا گیا۔ کئی ماہرین قانون کا استدلال ہے کہ اس قانون کی جڑیں برطانوی حکومت کے دوران 1919 کے رولٹ ایکٹ سے ملتی ہیں، جسے گاندھی جی نے تمام جابرانہ قوانین میں سب سے زیادہ سفاک کہا تھا۔ جلیانوالہ باغ کا قتل عام اس قانون کے خلاف انجام دیا گیا تھا۔ آزاد ہندوستان میں آئینی اقدار کا تقاضہ یہ تھا ایسے قوانین کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جانا چاہیے تھا۔ کیونکہ یہ شہری آزادیوں کی خلاف ورزی کے لیے ہی بدنام ہیں، لیکن اندرا گاندھی نے اس قانون کو بحال کیا۔
وقت گزرنے کے ساتھ، تمام بعد کی حکومتوں نے اس قانون کو شہری آزادیوں کو دبانے کے لیے استعمال کیا۔ سائی بابا سے پہلے بدنام زمانہ بھیما کوریگاؤں معاملے میں قید فادر اسٹین سوامی کو بھی اسی قانون کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ مقدمے کے دوران ہی فادر سٹین سوامی 80 سال کی عمر میں ہسپتال میں انتقال کر گئے۔ اب اس معاملے میں انہیں بے قصور ثابت کرنے کے لیے عدالتی کارروائی جاری ہے۔ اگست 2022 میں سائی بابا کے ساتھ گرفتار کیا کیے گئے ایک اور ملزم پانڈو نروٹے کی بھی جیل میں ہی موت ہوچکی ہے۔
اس پورے واقعہ میں ایک بات قابل غور ہے، وہ ہے حکومتی مشینری کی غیر مرئی تنظیموں کا کردار۔ یہ ایک لازمی حقیقت ہے کہ سائی بابا کو گرفتار کرنے، ان پر جھوٹے مقدمے کا الزام لگانے اور اس کے نتیجے میں دس سال تک جیل میں بے وجہ قید رہنے کی وجہ سےان کی جسمانی صحت کے لیے جان لیوا ہوتے چلے جانے میں ‘ڈیپ اسٹیٹس’ کے کردار پر انگلی اٹھائے بغیر شہریوں پر مظالم ڈھانے والے مجرمانہ مکڑ جال کو سمجھنا مشکل ہے۔
مرکزی اور ریاستی انٹلی جنس ایجنسیاں، جیل حکام، پولیس مشینری وغیرہ سبھی سائی بابا جیسے دانشوروں اور فادر اسٹین سوامی اور پانڈو نروٹے جیسے سماجی کارکنوں کی بے وقت اور غیر فطری موت کے لیےبراہ راست اور بالواسطہ طور پر ذمہ دار ہیں۔ اگر جیلوں کا نظام انسانی ہو، طبی سہولیات فوری اور آسانی سے میسر ہوں تو یقیناً ایسی اموات کو روکا جا سکتا ہے اور ایک بہتر نظام کا تصور بھی کیا جا سکتا ہے۔
سائی بابا کی موت کے بعد ان کے اہل خانہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ سائی کی خواہش کے مطابق ان کا جسدخاکی طبی تحقیق کے لیے عطیہ کیا جائے گا۔ سوشل میڈیا پر، اگرچہ بہت کم تعداد میں، لیکن مختلف سماجی و سیاسی پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے سائی بابا کو ان کے جینے کے عزم، ان کے مضبوط ارادے اور کمٹ منٹ کے لیے یاد کیا ہے۔سائی بابا مارچ کے مہینے میں بری ہونے کے بعد سیاسی قیدیوں اور جیل کے اندر رائج ذات پات کے غیر انسانی نظام کے خاتمے کے لیے کام کرنا چاہتے تھے۔حال ہی میں سپریم کورٹ کی طرف سے جیل کے اندر ذات پات کے امتیاز کے نظام کو ختم کرنے کے حق میں جو فیصلہ آیا ہے ، اس کی روشنی میں سائی بابا کی مذکورہ خواہشات اور بھی اہم ہو جاتی ہیں۔
سول سوسائٹی کے کارکنوں کو حقیقی شہری آزادی حاصل کرنے کے لیے سائی بابا کی زندگی اور ان کی جدوجہد ہمیشہ ترغیب دیتی رہے گی۔ تاہم، ان کی بے وقت موت ہماری جمہوریہ کے سامنے ہمیشہ ایک سوال رہے گی۔ جنوبی ایشیا کے عظیم شاعر فیض احمد فیض کے لفظوں میں کہیں تو؛
تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیے اے ارض وطن
جو ترے عارض بے رنگ کو گلنار کریں
کتنی آہوں سے کلیجہ ترا ٹھنڈا ہوگا
کتنے آنسو ترے صحراؤں کو گل زار کریں
(انل کمار مِشر، ہری دیو جوشی یونیورسٹی آف جرنلزم اینڈ ماس کمیونی کیشن، جئے پور میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ انہوں نے مہاتما گاندھی انٹرنیشنل ہندی یونیورسٹی، وردھا سے ہندوپاک تعلقات میں میڈیا کے رول پر پی ایچ ڈی کی ہے۔)