یہ پہلی بار ہے جب مرکزی حکومت نے سرکاری طور پر سروے پورا ہونے کےبعد ایک سروے رپورٹ جاری نہیں کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہیں، حکومت نے رپورٹ کورد کرنے سے پہلے این ایس سی سے مشورہ نہیں کیا تھا۔
نئی دہلی: این ایس سی(National Statistical Commission ) کے صدر بمل کمار رائےنے تقریباً ایک مہینے پہلے کہا تھا کہ چار دہائیوں میں پہلی بار صارفین کے اخراجات میں آئی کمی دکھانے والی سرکاری سروے رپورٹ عام کی جائےگی لیکن اب خودمختار تنظیم نے رپورٹ نہ جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔بزنس اسٹینڈرڈ کے مطابق، رائے نے کہا، ‘ میں نے کوشش کی۔ (15 جنوری کے این ایس سی اجلاس میں) سروے کو جاری کرنے کے لئے میں نے ایک تجویز دی لیکن مجھےکوئی حمایت نہیں ملی۔ میں نے صدر کے طور پر تجویز رکھی تھی، لیکن یہ نہیں ہوا۔ میں اب اور کچھ نہیں کہہ سکتا۔
ایک ذرائع نے کہا کہ چیف شماریات داں (chief statistician)پروین شریواستو نے این ایس سی کے اجلاس میں سروے کے اعداد و شمار جاری کرنے پر اعتراض کیا۔ حالانکہ، این ایس سی کے ایک ممبر نے اعتراضات کیےاور اعداد و شمار کو عام کرنے کا دباؤ بنایا۔اس معاملے کی جانکاری رکھنے والے ایک شخص نے کہا کہ ممبروں کےدرمیان نشریاتی اجلاس کے منٹس میں افراد کے خیالات کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔ذرائع نے کہا، اس سے این ایس سی کے اندر ہونے والے اجلاس کو لےکر سوال اٹھتےہیں۔
(این ایس او کے سروے ڈیزائن اورریسرچ محکمہ نے ایک پریزنٹیشن دی جس میں صارفین کے اخراجات میں آئی گراوٹ کے مدعےکو اعداد و شمار اور وجوہات کے ساتھ سامنے رکھا گیا۔ملک کے شماریاتی نظام کی دیکھ ریکھ کرنے والی اعلیٰ تنظیم این ایس سی نے بہتر طریقہ کار کے ساتھ مالی سال 2021 اور مالی سال 2022 میں صارفین کےاخراجات پر نئے سرے سے ایک کے بعد ایک کئی سروے کرنے کی سفارش کی ہے۔
حکومت نے پچھلے ہفتہ سابق چیف شماریاتی داں پروناب سین کی رہنمائی میں ماہرین کی ایک کمیٹی کی تشکیل دی ، جس نے صارفین کے اخراجات پر نئے سروے کا کام کیا۔اس کا استعمال ہندوستان میں غریبی اور عدم مساوات پر سرکاری اندازہ حاصل کرنے کےلئے کیا جاتا ہے۔گزشتہ سال نومبر میں مالی سال 2012-18 کے درمیان صارفین کے اخراجات میں 3.7 فیصد کمی آنے کی بزنس اسٹینڈرڈ کی رپورٹ کے بعد مرکزی حکومت نے این ایس اوکے ذریعے کئے گئے مالی سال 2018 کے سرکاری سروے کو نہیں جاری کرنے کا فیصلہ کیا۔
گزشتہ سال نومبر میں لیک ہونے کے بعد سامنے آئی این ایس او کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پچھلے 40 سالوں میں پہلی بار سال 2017-18 میں صارفین کے اخراجات کے حدود میں گراوٹ آئی ہے۔ اس کی اہم وجہ دیہی علاقوں میں مانگ میں آئی کمی بتائی گئی تھی۔اجلاس کے منٹس کے مطابق، ممبروں کے خیالات اور تجزیے پر غور کرنےکے بعد اس بات پر رضامندی بنی ہے کہ گھریلو صارفین سروےکے ااعداد و شمار اتنے حساس نہیں ہیں کہ وہ اخراجات، خاص طورپرسماجی فلاح وبہبود کے پروگرام کے ذریعے دستیاب کرائی گئی اشیا اور خدمات کے معاملوں میں آنے والی اہم تبدیلی کا اندازہ لگا سکے۔
ماہرین کے مطابق، صارفن کے اخراجات میں گراوٹ کا مطلب ہے کہ ملک میں غریبی کا تناسب کئی دہائیوں میں پہلی بار بڑھ سکتا ہے۔سروے پر دوبارہ کام کرنے والی ماہرین کی کمیٹی کی صدارت کرنے والےسین نے کہا، ‘ ہمیں ابھی سے سروے کرانے میں سنگین مسئلہ درپیش ہونے جا رہے ہیں۔غیر-رد عمل کا کافی امکان ہے، جو اصل میں ڈیٹا کو کافی خراب کر سکتا ہے۔
این ایس او نے اپنے فیلڈ افسروں پر اعتماد کی کمی کی وجہ سے خاص طورپر مغربی بنگال، کیرل اور اتر پردیش جیسی ریاستوں میں حملے دیکھے ہیں۔ لوگوں کو ڈر ہے کہ سروے افسر ڈیٹا جمع کر رہے ہیں جو ان کی شہریت کا تعین کرنے کے لئےاستعمال کیا جا سکتا ہے۔یہ پہلی بار ہے جب حکومت نے سرکاری طور پر سروے پورا ہونے کے بعدایک سروے رپورٹ جاری نہیں کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہیں، حکومت نے رپورٹ کو ردکرنے سے پہلے این ایس سی سے مشورہ نہیں کیا تھا۔
بتا دیں کہ، گزشتہ سال نومبر میں 200 سے زیادہ ماہرین اقتصادیات اور ماہرین تعلیم نے ایک کھلا خط لکھا تھا، جس میں ملک کےشماریاتی نظام کے لئےزیادہ خودمختار اور صارفین کے اخراجاتی ڈیٹا کو فوراً جاری کرنے کی مانگ کی گئی تھی۔