دہلی فسادات: کورٹ نے کہا-صحیح جانچ کرنے میں پولیس کی ناکامی ٹیکس دہندگان کے وقت اور پیسے کی بربادی ہے

08:28 PM Sep 06, 2021 | دی وائر اسٹاف

فروری2020 میں دہلی کے چاندباغ علاقے میں فسادات  کے دوران ایک دکان میں مبینہ لوٹ پاٹ اور توڑ پھوڑ سے متعلق  معاملے میں عآپ کےسابق کونسلر طاہر حسین کے بھائی شاہ عالم اور دو دیگر کوبری کر دیا۔ عدالت نے کہا کہ اس معاملے میں ایسا لگتا ہے کہ چشم دید گواہوں، حقیقی ملزموں اور تکنیکی شواہد  کا پتہ لگانے کی کوشش کیے بنا ہی صرف چارج شیٹ  داخل کرنے سے ہی معاملہ سلجھا لیا گیا۔

(فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: دہلی کی ایک عدالت نے پچھلے سال شمال-مشرقی دہلی میں ہوئے فسادات سے متعلق ایک معاملے کی جانچ کو لےکر جمعرات کو دہلی پولیس کی سرزنش کی اورکہا کہ جب تاریخ تقسیم  کے بعد سےاب تک قومی راجدھانی میں سب سے بدترین فرقہ وارانہ  فسادات کو دیکھےگی تو صحیح  جانچ کرنے میں پولیس کی ناکامی جمہوریت کے محافظ کو تکلیف پہنچائے گی۔

عدالت نے یہ بھی کہا کہ معاملے کی صحیح جانچ کرنے میں پولیس کی ناکامی ٹیکس دہندگان کے وقت اور پیسے کی‘شدید’اور ‘مجرمانہ’ بربادی ہے۔

عدالت نے عام آدمی پارٹی کےسابق کونسلر طاہر حسین کے بھائی شاہ عالم اور دو دیگر راشد سیفی اور شاداب کو فروری 2020 میں دہلی کے چاند باغ علاقے میں فسادات کے دوران ایک دکان میں لوٹ پاٹ اور توڑ پھوڑ سے متعلق  معاملے میں بری کر دیا۔

عدالت نے جانچ کوبےمعنی  قرار دیا جس میں ایسا معلوم  ہوتا ہے کہ ایک کانسٹبل کو گواہ کے طورپر پیش کیا گیا۔

ایڈیشنل سیشن جج ونود یادو نے کہا کہ معاملے کا کوئی ایسا سی سی ٹی وی فوٹیج نہیں تھا، جس سے ملزم کی جائے وقوع  پر موجودگی کی تصدیق  ہو سکے، کوئی آزاد چشم دید گواہ نہیں تھا اور مجرمانہ  سازش کے بارے میں کوئی ثبوت نہیں تھا۔

جج نے کہا،‘میں خود کو یہ دیکھنے سے روک نہیں پا رہا ہوں کہ جب تاریخ  دہلی میں تقسیم کے بعد کے سب سے بدترین فرقہ وارانہ فسادات کو پلٹ کردیکھےگی،تو جدیدسائنسی طریقوں کا استعمال کرکے صحیح جانچ کرنے میں جانچ ایجنسی کی ناکامی یقینی طور پرجمہوریت کے محافظ کو تکلیف  دےگی۔’

انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں ایسا لگتا ہے کہ چشم دید گواہوں، حقیقی ملزموں اور تکنیکی شواہد کا پتہ لگانے کی کوشش کیے بنا ہی صرف چارج شیٹ داخل کرنے سے ہی معاملہ سلجھا لیا گیا۔

ٹائمس آف انڈیا کے مطابق، جج ونود یادو نے کہا کہ جس طرح کی جانچ کی گئی اور سینئر افسران کے ذریعے نگرانی کی کمی نے واضح طور پر دکھایا کہ جانچ ایجنسی نے صرف عدالت کی آنکھوں پر پٹی باندھنے کی کوشش کی اور کچھ نہیں۔

انہوں نے کہا کہ انہیں یہ جان کر دکھ ہوا کہ کوئی حقیقی/مؤثر جانچ نہیں کی گئی اور صرف کانسٹبل گیان سنگھ کے بیان درج کرکے، وہ بھی دیر سے،بالخصوص جب ملزم پہلے سے ہی کسی دوسرے معاملے میں گرفتار تھے۔ پولیس نے صرف معاملے کو سلجھاہوا دکھانے کی کوشش کی۔

انہوں نے کہا کہ یہ دیکھا گیا کہ ملزم کے خلاف الزام طے کرنے کے لیے ریکارڈ پر لائے گئے ثبوت انتہائی  کم تھے۔ لمبی جانچ کے بعد پولیس نے صرف پانچ گواہ دکھائے، جن میں سے ایک متاثرہ  تھا، دوسرا کانسٹبل، ایک ڈیوٹی افسر، ایک رسمی گواہ اور جانچ افسر۔

عدالت نے شاہ عالم، راشد سیفی اور شاداب کو بھیڑ کے ذریعےہرپریت سنگھ کی دکان میں مبینہ  توڑ پھوڑ، لوٹ پاٹ اور آگ لگانے کے تمام الزامات سے بری کر دیا۔

یہ نوٹ کیا گیا کہ بڑی تعداد میں ایسے ملزم ہیں جو پچھلے 18 مہینوں سے جیل میں بند ہیں، صرف اس لیے کہ ان کے معاملوں میں شنوائی شروع نہیں ہوئی ہے اور پولیس ضمنی چارج شیٹ داخل کرنے میں مصروف  لگ رہی ہے۔

عدالت نے کہا نے کہا،‘اس عدالت کا قیمتی وقت  ان معاملوں میں تاریخیں دینے میں برباد ہو رہا ہے۔ اس طرح کے معاملوں میں بہت وقت  برباد ہو رہا ہے، جہاں پولیس کے ذریعے ہی  شاید ہی کوئی جانچ کی جاتی ہے۔’

عدالت نے کہا، ‘شکایت کی صحیح طریقے سےسنجیدگی اور مہارت  کے ساتھ جانچ کرنے کی ضرورت تھی، لیکن یہ غائب تھا۔’

عدالت نے کہا، ‘اس معاملے میں غیرجانبدارانہ جانچ،سینئر افسروں کے ذریعےنگرانی کی کمی،ٹیکس دہندگان کے وقت  اورپیسے کی مجرمانہ طور پر بربادی ہے۔’

عدالت نے کہا کہ دو تحریری شکایتیں ملنے کے بعد بھی پولیس نے 2 مارچ، 2020 تک جانچ شروع نہیں کی۔ اچانک 3 مارچ، 2020 کو کانسٹبل سامنے آیا اور جانچ افسر نے اس موقع کو لپک لیا۔ نتیجے کےطور پراس نے اپنا بیان درج کرایا اورملزمین  کو منڈولی جیل سے گرفتار کر لیا گیا۔

عدالت کا معاملے میں مزید مشاہدہ یہ تھا کہ ایف آئی آر میں ملزمین کا نام خصوصی طور پرنام نہیں تھا، انہیں کوئی خصوصی رول  نہیں سونپا گیا تھا، کوئی عینی شاہد ریکارڈ پر نہیں تھا اور کوئی سی سی ٹی وی فوٹیج یا ویڈیو کلپ اس بات کی تصدیق  نہیں کر سکا کہ وہ اس وقت جائے وقوع پر موجود تھے۔ دور سےبھی یہ دکھانے کے لیے کوئی ثبوت نہیں تھا کہ انہوں نے مجرمانہ طور پر سازش میں حصہ لیا تھا۔

یہ پہلی بار نہیں ہے، جب عدالت میں دہلی فسادات کے سلسلے میں پولیس کی جانچ پر سوال اٹھاتے ہوئے اس کی سرزنش کی گئی  ہے۔ اس سے پہلے عدالت نے ایک دوسرے معاملے کی شنوائی کرتے ہوئے کہا تھا کہ دہلی فسادات کے اکثر معاملوں میں پولیس کی جانچ کا معیار انتہائی گھٹیا ہے۔

 جج ونود یادو نے کہا کہ پولیس آدھے ادھورے چارج شیٹ دائر کرنے کے بعد جانچ کو منطقی انجام  تک لے جانے کی بہ مشکل ہی پرواہ کرتی ہے، جس وجہ سے کئی الزامات میں نامزد ملزم سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ زیادہ تر معاملوں میں جانچ افسر عدالت میں پیش نہیں ہو رہے ہیں۔

معلوم ہوکہ فروری 2020 میں شمال-مشرقی دہلی میں شہریت قانون (سی اےاے)کےحامیوں اورمخالفین کے بیچ تشدد کے بعد فرقہ وارنہ فساد بھڑک گیا تھا، جس میں کم از کم 53 لوگوں کی جان چلی گئی تھی اور 700 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)