مہاراشٹر کے ایک ڈاکٹر نے ہاسٹل میں نابالغ طالبات کے ساتھ جنسی زیادتی کے بارے میں علم ہونے کے باوجود اتھارٹی کو مطلع نہیں کیا تھا، جس کے لیے پولیس نے اس کے خلاف پاکسو کے تحت معاملہ درج کر لیا تھا۔ ہائی کورٹ کے ڈاکٹر کے خلاف کیس کو ردکرنے کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے بدھ کو کہا کہ علم ہونے کے باوجود نابالغ کے خلاف جنسی ہراسانی کی اطلاع نہ دینا ایک سنگین جرم ہے اور مجرموں کو بچانے کی کوشش ہے۔
عدالت نے کہا کہ جنسی جرائم سے بچوں کے تحفظ یعنی پاکسو ایکٹ کے تحت کسی جرم کے بارے میں فوری اور مناسب معلومات انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور ایسا نہ کرپانے سے قانون کا مقصد فوت ہوجاتاہے۔
ٹائمز آف انڈیا کے مطابق، عدالت نے مہاراشٹر کے ایک ہاسٹل میں کئی نابالغ آدی واسی لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی رپورٹ نہ کرنے پر ایک ڈاکٹر کو مقدمے کا سامنا کرنے کا فیصلہ سنایا۔
اخبار کے مطابق، طبی معائنے کے دوران، نابالغ آدی واسی طالبات، جن میں سے کچھ کلاس 3 اور 5 میں تھیں، نے چندر پور ضلع کے انفینٹ جیسس انگلش پبلک ہائی اسکول کے ہاسٹل کے سپرنٹنڈنٹ اور چار دیگر کے جنسی زیادتی کے بارے ڈاکٹر کو بتایا تھا۔ لیکن انہوں نے مبینہ طور پر ان ملزمین کو بچانے کے لیےیہ بات چھپالی۔
جون 2019 میں پولیس نے پانچ ملزمین کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر کے خلاف پاکسو کے تحت چارج شیٹ داخل کی تھی۔ اس سال کے شروع میں، بامبے ہائی کورٹ کی ناگپور بنچ نے متاثرہ طالبات کے بیانات کی تفصیلی جانچ کے بعد ڈاکٹر کے خلاف چارج شیٹ کو رد کر دیا تھا۔ ریاستی حکومت نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی تھی۔
جہاں سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو رد کر دیا، جس میں اس نے ایک ڈاکٹر کے خلاف ایف آئی آر اور چارج شیٹ کو منسوخ کر دیا تھا، جس نے ہاسٹل میں کئی نابالغ لڑکیوں کے خلاف جنسی ہراسانی کا علم ہونے کے باوجود اتھارٹی کو مطلع نہیں کیا۔
جسٹس اجے رستوگی اور جسٹس سی ٹی روی کمار کی بنچ نے کہا کہ یہ سچ ہے کہ کیس کے دیگر ملزمین کے سلسلے میں ایف آئی آر اور چارج شیٹ ابھی بھی باقی ہے۔
اپنے 28 صفحات کے فیصلے میں، بنچ نے کہا، …جانکاری ہونے کے باوجود نابالغ بچے کے خلاف جنسی زیادتی کی اطلاع نہ دینا ایک سنگین جرم ہے اور اکثر جنسی زیادتی کے جرم کے مجرموں کو بچانے کی کوشش ہوتی ہے۔
ٹائمز آف انڈیا کے مطابق، بنچ نے یہ بھی کہا، ہم کہہ سکتے ہیں، ہم ناراض نہیں ہیں، لیکن یقینی طور پر غم زدہ ہیں، کیوں کہ پاکسو ایکٹ کے ایک جائز کیس میں گرل ہاسٹل میں نابالغ آدی واسی لڑکیوں کے ساتھ جنسی استحصال سے متعلق بات کو سامنے لانے کے بجائے دبا دیا گیا۔
سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ ہائی کورٹ کو اکیلے ہی تفصیلی تحقیقات شروع کرنے کے بجائے استغاثہ کو مقدمے کی سماعت کے دوران ثبوت پیش کرنے اوراس کی جانچ کرنے کی اجازت دینی چاہیے تھی۔
بنچ نے یہ بھی کہا کہ تحقیقات کے دوران یہ پتہ چلا کہ 17 نابالغ لڑکیوں کے ساتھ مبینہ طور پر بدسلوکی کی گئی تھی اور ہاسٹل میں داخل لڑکیوں کے علاج کے لیے ایک ڈاکٹر کو مقرر کیا گیا تھا۔
اس نے کہاکہ پولیس کا معاملہ یہ ہے کہ 17 متاثرین میں سے کچھ نے بیانات دیے ہیں کہ ڈاکٹر کو ان پر جنسی حملے کے بارے میں جانکاری دی گئی تھی۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)