ہندوستان کا ریئل ٹائم شور مانیٹرنگ نیٹ ورک شہری آوازوں کی مسلسل بڑھتی ہوئی سطح کو ریکارڈ کرتا ہے، لیکن شور میں زندگی بسرکرنے والے کروڑوں لوگوں کے لیے راحت کا وعدہ افسر شاہی کی بے حسی اور سیاسی خاموشی میں پھنسا ہوا ہے۔
سائلنس زون – قانون کی کتابوں میں ایک مثالی تصور، لیکن زمینی طور پر یہ شور والی سڑکوں پر محض ایک کھوکھلا مذاق بن کر رہ گیاہے۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)
کئی ہندوستانی شہروں میں اب سناٹا ایک مستقل گونج میں تبدیل ہوگیا ہے۔ ہارن بجانا، ڈرلنگ کرنا اور لاؤڈ اسپیکر بجانا صرف پریشان کن واقعہ نہیں ہے – یہ صحت عامہ کے لیے سنگین خطرہ بن چکے ہیں۔ ہسپتال، اسکول اور رہائشی علاقے جیسے حساس علاقے اب محفوظ نہیں رہے، کیونکہ شور کی سطحیں اکثر قانونی حدود سے تجاوز کر جاتی ہیں۔ یہ آرٹیکل 21 کے تحت آرام اور ذہنی سکون کے آئینی حق کو براہ راست چیلنج کرتا ہے۔
یورپ میں شور سے متعلق بیماریوں اور اموات کے اعدادوشمار براہ راست پالیسی سازی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
یورپی ماحولیاتی ایجنسی کا اندازہ ہے کہ شہری شور سے خطے کو ہر سال 100 بلین یورو کا معاشی نقصان ہوتا ہے، جس کی وجہ سے رفتار کی حد اور زوننگ کے قوانین میں تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ اس کے برعکس، ہندوستان میں ریاستی آلودگی کنٹرول بورڈ کے درمیان ہم آہنگی اور شفافیت کا فقدان ہے۔
مثال کے طور پر، اتر پردیش میں
2025 کی پہلی سہ ماہی کے لیے آفیشل ریئل ٹائم شور مانیٹرنگ نیٹ ورک ڈیٹا کو ابھی تک پبلک نہیں کیا گیا ہے۔
بنیادی مسئلہ صرف تکنیکی خامیوں میں نہیں ہے — جیسے کہ
سینسر کو زمین سے 25-30 فٹ اوپر (جو
سی پی سی بی کے 2015 کے رہنما خطوط کی خلاف ورزی ہے) — بلکہ جوابدہی کی کمی میں ہے۔ نیشنل ایمبیئنٹ نوائس مانیٹرنگ نیٹ ورک(این اے این ایم این)، جس کا آغاز
2011 میں ہوا ، ریئل ٹائم مانیٹرنگ کا وعدہ کرتا تھا، لیکن اب یہ اکثر ایک غیر فعال آرکائیو بن کر رہ گیاہے جس کا نفاذ پر اثر بہت کم ہے۔
سائلنس زون – قانون کی کتابوں میں ایک مثالی تصور، لیکن زمینی حقیقت میں یہ صرف شوروغل سے بھری سڑکوں پر ایک کھوکھلے مذاق کے سوا کچھ نہیں ہے۔
‘خاموشی کی حدیں کاغذ پر متعین ہیں، لیکن زندگی کی ہلچل میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ درحقیقت، ان خاموش علاقوں میں اگر واقعی کچھ خاموش ہے تو وہ بذات خود قانون کی بے بسی ہے۔’
–
انل سود ، سماجی کارکن اور ماہر ماحولیات، دارالحکومت دہلی
سال
2005میں ، سپریم کورٹ آف انڈیا نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ضرورت سے زیادہ شور زندگی اور آرام کے بنیادی حق کی خلاف ورزی کر سکتا ہے۔ عدالت نے ذہنی صحت اور شہری آزادیوں پر اس کے سنگین اثرات پر زور دیا۔ عالمی ادارہ صحت کے معیارات کے مطابق، خاموشی والے علاقوں میں شور کی سطح دن کے وقت 50 ڈیسیبل (ڈی بی(اے))اور رات میں 40 ڈیسیبل (ڈی بی(اے)) سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ اس کے باوجود،
دہلی اور بنگلورو جیسے شہروں میں حساس علاقوں کے قریب ریڈنگ اکثر
65-70 ڈیسیبل تک پہنچ جاتی ہے ۔
یہ نقصان صرف انسانوں تک محدود نہیں ہے۔ آکلینڈ یونیورسٹی کے 2025 کے ایک
مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ صرف ایک رات کا شہری شور اور مصنوعی روشنی ہی عام مینا پرندوں کے گانے اور نیند کے پیٹرن کو تبدیل کر دیتا ہے۔ ان کے نوٹ چھوٹے اور پیچیدہ ہو جاتے ہیں – جو حیاتیاتی تنوع کے مواصلاتی طریقہ کار میں خلل ڈالتے ہیں۔
سماجی قبولیت اور غیرمرئی خطرہ
صوتی آلودگی کا سب سے بڑا چیلنج اس کا پوشیدہ یا غیرمرئی ہونا ہے۔ دھوئیں یا کوڑے کے برعکس، یہ کوئی جسمانی نشان نہیں چھوڑتا – صرف تھکاوٹ، چڑچڑاپن اور نیند کی کمی دیتا ہے۔ جیسے جیسے لوگ اس کے عادی ہوتے جاتے ہیں، شہری احتجاج کم ہوتے جاتے ہیں۔ بچے، بوڑھے اور پہلے سے موجود طبی حالات والے لوگ سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
پالیسی اور ادارہ جاتی کمزوریاں
ہندوستان کے شور کی آلودگی (ریگولیشن اینڈ کنٹرول) رول-2000 بدلتے ہوئے شہری ڈھانچے کے باوجود آج بھی تقریباً تبدیل نہیں ہوئے ہیں۔ میونسپل اداروں، ٹریفک پولیس اور آلودگی کنٹرول بورڈ کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان انہیں غیر مؤثر بنا دیتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس حوالے سےایک قومی پالیسی کی ضرورت ہے جو زون کے لیے مخصوص حدود کا تعین کرے، باقاعدہ آڈٹ کا حکم دے اور مقامی شکایات کے ازالے کو مضبوط کرے۔
ثقافتی تبدیلی ضروری
صرف قانونی اور تکنیکی اقدامات سے شہری شور کو نہیں روکا جا سکتا۔ ‘شور کی حساسیت’ کو شہروں میں روزمرہ کی ثقافت میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ اسے اسکول کے نصاب، ڈرائیور کی تربیت اور کمیونٹی بیداری کے پروگراموں میں شامل کرنے سے، ہارن بجانا اور غیر ضروری شور معاشرے میں ناقابل قبول ہو سکتا ہے – بالکل اسی طرح جیسے آج سیٹ بیلٹ باندھنا ایک عادت بن چکی ہے۔
آگے کا راستہ
مقامی کارروائی کو مضبوط بنائیں:این اے این ایم این ڈیٹا اور کارروائی کے ساتھ میونسپل اداروں کو بااختیار بنائیں۔
سختی سے نافذ کریں: نگرانی کو جرمانے اور تعمیل کی جانچ سے جوڑیں۔
مہم کو پائیدار بنائیں: ‘
نو ہارن ڈے‘ کو ایک طویل مدتی عملی تحریک میں تبدیل کریں۔
شور سے بچنے والی شہری منصوبہ بندی بنائیں: ترقی میں صوتی منظر نامے کو مدنظر رکھیں۔
کسی شہر کی رہنے کی صلاحیت صرف اس کی سڑکوں، عمارتوں اور ٹکنالوجی سے طے نہیں ہوتی — بلکہ اس غیر مرئی خاموشی سے بھی طے ہوتی ہے جو لوگوں کو سوچنے، آرام کرنے اور عزت کے ساتھ جینے کی اجازت دیتی ہے۔ اگر ہندوستان شور کو ایک حق اور صحت عامہ کا مسئلہ سمجھنے کے لیے اقدامات نہیں کرتا ہے، تو اس کے نام نہاد اسمارٹ شہر تیز اور چمکدار تو رہیں گے، لیکن سماعتوں کے لیے ناقابل برداشت بھی ہو جائیں گے۔
(روہن سنگھ ماحولیاتی مسائل اور بچوں کے حقوق پر لکھتے ہیں۔)