الہ آباد ہائی کورٹ میں معاملے کی شنوائی کے دوران ایک حلف نامہ داخل کرکےیوپی سرکار کی جانب سے عدالت کو یہ جانکاری دی گئی۔ اتر پردیش میں تبدیلی مذہب سے متعلق قانون نافذ ہونے کے ایک دن بعد گزشتہ سال 29 نومبر کو مظفرنگر میں دو مسلمان مزدوروں کے خلاف کیس درج کیا گیا تھا۔
نئی دہلی: اتر پردیش کے مظفرنگر میں تبدیلی مذہب سےمتعلق نئےقانون کےتحت دو مسلمان یومیہ مزدوروں کےخلاف درج معاملے کے ایک مہینے بعد یوپی سرکار نے الہ آباد ہائی کورٹ کو بتایا کہ دونوں کے خلاف کسی طرح کے ثبوت نہیں ملے ہیں۔ حالانکہ، ان میں سے ایک کے خلاف مجرمانہ طور پردھمکی دینے کےسنگین الزام ہیں۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، اتر پردیش کے تبدیلی مذہب سے متعلق قانون نافذ ہونے کے ایک دن بعد 29 نومبر 2020 کو منصورپور پولیس تھانے میں پیشہ سے مزدور ندیم(28)اور ان کے بھائی سلمان (29) کے خلاف معاملہ درج کرایا گیا تھا۔
مظفرنگر کے منصورپور پولیس تھانے میں خاتون کے شوہر کی شکایت پر تبدیلی مذہب سے متعلق قانون اور آئی پی سی کی دفعہ120بی، 506 اور 504 کے تحت معاملہ درج کیا گیا تھا۔اتراکھنڈ کے ایک فرم میں مزدوروں کے ٹھیکیدار کے طور پر کام کرنے والے شکایت گزار اکشے کمار کا الزام ہے کہ ندیم اکثر ان کے گھر آتے تھے اور انہوں نے ان کی بیوی سے ناجائز تعلق بناکر ان کا مذہب تبدیل کرانے کی کوشش کی تھی۔
انہوں نے الزام لگایا تھی کہ ندیم ان کی بیوی کامذہب تبدیل کروانے کے بعد ان سے شادی کرنا چاہتے تھے اور اس کام میں سلمان ان کی مدد کر رہے تھے۔اکشے نے الزام لگایا تھا کہ جب انہوں نے مخالفت کی تو دونوں (ندیم اور سلمان)نے انہیں دھمکی دی تھی۔
جوائنٹ ڈائریکٹر(پراسیکیوشن)اودھیش پانڈے نے ریاستی سرکار کی جانب سے گزشتہ سات جنوری کو ہائی کورٹ میں حلف نامہ دائر کیا، جس میں کہا گیا کہ جانچ افسرکو تبدیلی مذہب سے متعلق قانون کے اہتماموں سے متعلق کسی جرم میں ملزمین کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔
حلف نامے میں کہا گیا کہ جانچ کے دوران پایا گیا کہ ندیم کےخاتون کے ساتھ ناجائز رشتے نہیں تھے۔خاتون کا بیان بھی درج کیا گیا۔ حالانکہ، یہ پتہ چلا کہ ملزمین نے شکایت گزارکو دھمکی دی تھی، اس لیے اس الزام میں ان کے خلاف چارج شیٹ دائر کی گئی۔
حلف نامے میں کہا گیا کہ چارج شیٹ31 دسمبر کو دائر کی گئی اور جانچ افسر کو تبدیلی مذہب سے متعلق قانون کے تحت کوئی ثبوت نہیں ملے ہیں۔انڈین ایکسپریس سے بات چیت میں ندیم نے بتایا،‘خاتون کےشوہرنے شک کی بنیاد پر مجھ پر غلط الزام لگایا۔ اپنے غلط کام کو چھپانے کے لیے انہوں نے کہانی گڑھی اور میرے خلاف معاملہ درج کرایا۔ میں مدد کے لیے یوپی سرکار اور پولیس کا شکرگزار ہوں۔’
ان کے وکیل سید فرمان نقوی نے کہا کہ سرکار کے حلف نامے میں کہا گیا ہے کہ سلمان کو کلین چٹ دی گئی، ندیم کے خلاف تبدیلی مذہب سے متعلق قانون کے تحت کوئی ثبوت نہیں ملے۔منصورپور پولیس تھانے کے ایس ایچ او کشال پال سنگھ نے کہا کہ خاتون نے اپنے بیان میں ان پر کسی بھی طرح کے تبدیلی مذہب کی کوشش کے الزاموں سے انکار کیا۔ انہوں نے پولیس کو بتایا کہ ان کے شوہرکو شک تھا کہ ان کا ندیم کے ساتھ تعلق ہے۔
سنگھ نے کہا کہ حالانکہ، دھمکی دیے جانے کے ثبوت ملے ہیں۔ندیم کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ504 (امن و امان میں خلل پیدا کرنے کے ارادے سے جان بوجھ کر توہین کرنا) اور 506 (مجرمانہ طور پر دھمکی)کے تحت معاملہ درج کیا گیا۔
اس معاملے پر 15 جنوری کو شنوائی ہوگی۔بتا دیں کہ اس سے پہلے 18 دسمبر 2020 کو الہ آباد ہائی کورٹ نے ندیم کے خلاف مجرمانہ کارروائی شروع کرنے پر روک لگا دی تھی۔ہائی کورٹ کا کہنا ہے کہ خاتون اور مرد دونوں بالغ ہیں اور یہ ان کی پرائیویسی کا بنیادی حق ہے۔
ریاست میں 28 نومبر کو تبدیلی مذہب سے متعلق قانون کےنافذ ہونے کے بعد سے اب تک 16 معاملے درج کیےجا چکے ہیں۔
بتا دیں کہ گزشتہ 24 نومبر کو اتر پردیش سرکار ‘لو جہاد’ کو روکنے کے لیے شادی کے لیےتبدیلی مذہب پر لگام لگانے کے لیے‘قانون’لے آئی تھی۔اس میں شادی کے لیے فریب، لالچ دینے یا جبراً تبدیلی مذہب کرائے جانے پر مختلف اہتماموں کے تحت زیادہ سے زیادہ 10سال کی سزا اور 50 ہزار تک جرما نے کا اہتمام ہے۔
اتر پردیش پہلی ایسی ریاست ہے، جہاں مبینہ لو جہاد کو لےکر اس طرح کا قانون لایا گیا ہے۔