پچھلے سال مارچ میں دہلی کا نظام الدین مرکز کو رونا ہاٹ اسپاٹ بن کر ابھرا تھا۔ تبلیغی جماعت کے اجتماع میں شرکت کرنے والے کئی لوگوں کے کورونا وائرس سے متاثر پائے جانے کے بعد 31 مارچ 2020 سے ہی یہ بند ہے۔
نئی دہلی: نظام الدین مرکزکو دوبارہ کھولنے سےمتعلق عرضی پر مرکزی حکومت نے دہلی ہائی کورٹ کے سامنے حلف نامہ داخل کیا ہے۔مرکزکو کھولنے کی مخالفت کرتے ہوئے مرکزی حکومت نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ سرحد پار کئی ملکوں پر اثر ڈال سکتا ہے۔ حالانکہ دہلی ہائی کورٹ نے کہا کہ مرکزکو غیرمتعینہ مدت تک بند نہیں رکھا جا سکتا۔
واضح ہو کہ مرکزی حکومت نے سوموار کو دہلی ہائی کورٹ سے کہا کہ پچھلے سال مارچ میں کووڈ 19پروٹوکال کی مبینہ خلاف ورزی کرکے نظام الدین مرکز میں تبلیغی جماعت کے اجتماع کے سلسلے میں درج معاملہ سنگین ہے اور اس کاسرحد پار تک اثر ہے۔
بتادیں کہ نظام الدین مرکز میں کووڈ 19 کے پروٹوکال کی مبینہ طورپرخلاف ورزی کو لےکر مارچ 2020 میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ پچھلے سال مارچ میں دہلی کا نظام الدین مرکز کو رونا ہاٹ اسپاٹ بن کر ابھرا تھا۔ دہلی کے نظام الدین ویسٹ میں واقع مرکز میں
13 مارچ سے 15 مارچ تک کئی اجتماع ہوئے تھے، جن میں سعودی عرب، انڈونیشیا، دبئی، اور ملیشیا سمیت کئی ممالک کے مسلم مبلغوں نے حصہ لیا تھا۔
ان کے علاوہ ملک بھر کے مختلف حصوں سے ہزاروں کی تعداد میں ہندوستانیوں نے بھی اس میں حصہ لیا تھا، جن میں سے کئی کو رونا متاثرہ پائے گئے تھے۔ اس کو لے کر مسلم کمیونٹی پر کورونا پھیلانے کاالزام لگایا گیا تھا۔
مرکز کو دوبارہ کھولنے کی عرضی پر مرکزی حکومت نے کہا کہ اس کے سنگین نتائج ہوں گے۔ حکومت نےدہلی کے ڈپٹی پولیس کمشنر کی تصدیق کے ساتھ داخل حلف نامے میں کہاکہ کورونا پروٹوکال کی خلاف ورزی کو لےکر درج کیس پراپرٹی کے طور پر مرکز کو ابھی ایسے ہی محفوظ رکھنا ضروری ہے۔
دہلی پولیس کے ڈپٹی کمشنر(کرائم)کے ذریعےداخل حلف نامے میں حکومت نے دہرایا کہ کووڈ 19 ضابطوں کی خلاف ورزی کے سلسلے میں درج معاملے کی جانچ کے تحت مرکز کی پراپرٹی کو محفوظ رکھنا ضروری ہے کیونکہ اس کےسرحد پار تک اثر ہیں اور دوسرے ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات کا معاملہ بھی جڑاہے۔
مرکز کو دوبارہ کھولنے کے لیے دہلی وقف بورڈ نے عرضی دی ہے، جس پر جسٹس مکتہ گپتا نے شنوائی کی۔ مرکز پچھلے سال 31 مارچ سے ہی بند ہے۔ ہائی کورٹ نے مرکز سے سوال کیا کہ اس کی منشا کب تک نظام الدین مرکز کو بند رکھنے کی ہے اور کہا کہ یہ ہمیشہ کے لیے نہیں کیا جا سکتا۔
حکومت کی جانب سے پیش وکیل نے دلیل دی کہ مرکز کو کھولنے کی قانونی کارروائی کی شروعات پراپرٹی کے پٹےدار یا کیمپس میں رہنے والے لوگوں کے ذریعےکی جا سکتی ہے اور پہلے ہی مرکز کے رہائشی حصے کو سپرد کرنے کی عرضی پرشنوائی ہائی کورٹ کے ہی دوسرے جج کے سامنے آخری دور میں ہے۔
مرکزی حکومت کی جانب سے پیش وکیل رجت نائر نے کہا، ‘صرف قانونی نظریےپرغور کرکےعرضی کو حل کیا جا سکتا ہے۔ وقف بورڈ کو پٹےدار کو پیچھے کرکے آگے آنے کا حق نہیں ہے۔’
حالانکہ جج نے کہا، ‘کچھ لوگوں کے قبضے میں پراپرٹی تھی۔ مہاماری کی وجہ سے ایف آئی آر درج کی گئی۔اور آپ نے پراپرٹی پر قبضہ کر لیا۔ اس کو واپس کیا جانا چاہیے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ پراپرٹی کو ہمیشہ رکھا (عدالت کے حکم کے ماتحت)جائے۔ آپ کی اس معاملے پر کیا رائے ہے؟ آپ ہمیں بتائیں آپ کس کا انتظار کر رہے ہیں۔ آپ کب تک اس پر تالا لگائے رکھیں گے۔’
عدالت نے مرکز کی منتظمہ کمیٹی کے ایک ممبر کے ذریعے معاملے میں فریق بنائے جانے کی عرضی پر نوٹس جاری کیا اور حکومت کے حلف نامہ پر جواب داخل کرنے کی وقف بورڈ کو اجازت دینے کے ساتھ ہی معاملے کی اگلی شنوائی 16 نومبر کو طے کر دی۔
وقف بورڈ کی جانب سے پیش ہوئےوکیل رمیش گپتا نے دلیل دی کہ عرضی ڈیڑھ سال سے زیادہ سے زیر سماعت ہے اور انہوں نے واضح کیا کہ ان کی عرضی مرکز کی پوری پراپرٹی واپس کرنے کی ہے جس میں مسجد، مدرسہ اور رہائشی حصے شامل ہیں۔ انہوں نے کہا، اب پراپرٹی کو انہیں ہمیں واپس سونپنا چاہیے۔مرکزی حکومت کا کوئی رول نہیں ہے۔
سینئر ایڈووکیٹ سلمان خورشید نے مداخلت کرنے والے رکن کی نمائندگی کرتے ہوئےکہا کہ وہ بھی اس معاملے میں وقف کے ساتھ ہیں اور جب بھی مرکز کو کھولنے کی اجازت دی جائےگی تمام ضابطوں پر عمل کیا جائےگا۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)