انسانی حقوق کی پامالیوں کے بیچ کمیشن کے چیئرمین کا سرکار کی تعریف کرنا، چہ معنی دارد

جس نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کو شہریوں کےانسانی حقوق کےتحفظ کے ساتھ خلاف ورزیوں پرنظر رکھنے کے لیےبنایا گیا تھا، وہ اپنے یوم تاسیس پر بھی ان کی خلاف ورزیوں کےخلاف آواز اٹھانے والوں پر برسنے سے گریز نہ کر پائےتو اس کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ اب مویشیوں کے بجائے انہیں روکنے کے لیے لگائی گئی باڑ ہی کھیت کھانے لگی ہے؟

جس نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کو شہریوں کےانسانی حقوق کےتحفظ کے ساتھ خلاف ورزیوں  پرنظر رکھنے کے لیےبنایا گیا تھا، وہ اپنے یوم تاسیس پر بھی ان کی خلاف ورزیوں کےخلاف آواز اٹھانے  والوں پر برسنے سے گریز نہ کر پائےتو اس کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ اب مویشیوں کے بجائے انہیں روکنے کے لیے لگائی گئی باڑ ہی کھیت کھانے لگی ہے؟

نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کےیوم تاسیس پر کمیشن کےچیئرمین ریٹائرڈ جسٹس ارون مشرا۔ (فوٹو بہ شکریہ: nhrc.nic.in)

نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کےیوم تاسیس پر کمیشن کےچیئرمین ریٹائرڈ جسٹس ارون مشرا۔ (فوٹو بہ شکریہ: nhrc.nic.in)

اٹھائیس سال پہلےجس نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کو شہریوں کےانسانی حقوق کےتحفظ کے ساتھ ساتھ ہی خلاف ورزیوں پر نظر رکھنے کے لیے بنایا گیا تھا، وہ اپنےیوم تاسیس پر بھی ان کی خلاف ورزیوں کے خلاف آواز اٹھانے والوں پر برسنے سے گریز نہ کر پائےتو اس کےسوا اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ اب مویشیوں کے بجائے انہیں روکنے کے لیے لگائی گئی باڑ ہی کھیت کھانے لگی ہے؟

یہی تو کہ پچھلے سات سالوں سے لگاتار ہوتی آ رہی آئینی اداروں کی تنزلی اس مقام پر جا پہنچی ہے، جہاں عام آدمی کو ان سے کوئی تحفظ ملنے کی کوئی امید باقی نہیں رہ جاتی! لیکن اب معاملہ اتنا ہی نہیں ہے۔

ملک کی حساس ترین ریاست کشمیر میں انسانی حقوق کی سب سے زیادہ خلاف ورزی  ہوتی ہے اور جس کو روکنے کے لیےمرکزی حکومت کے پینچ کسے رکھنا نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کی ذمہ داری  ہے، وزیر داخلہ  امت شاہ کی معرفت اسے وہاں ہی نہیں، نارتھ ایسٹ کے سارے صوبوں میں امن  کے نئےدور کاآغاز ہوتا دکھائی دینے لگا ہے اور اس کےچیئرمین ریٹائرڈ جسٹس ارون کمار مشرا؛اس کے لیے وزیر داخلہ کی تعریف میں اپنےمنصب کےآئینی وقار کے تحفظ  کی بھی پرواہ نہیں کر رہے۔

اس پر ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعےکمیشن کے یوم تاسیس کوخطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی قطعی یہ فکرنہیں ہوتی کہ ان کے راج میں ملک بھر میں انسانی حقوق کا حال برا ہو گیا ہے اور ان کی بڑھتی ہوئی خلاف ورزیوں کی وجہ سےانٹرنیشنل ہیومن رائٹس کمیشن انڈیکس میں ملک کی رینکنگ نیچے گرتی جا رہی ہے۔ اس کے برعکس وہ  تشویش کا اظہارکرتے ہیں کہ کچھ لوگوں کے ذریعے، ظاہر ہے، ان کا اشارہ  اپنے مخالفین کی جانب ہی تھا،انسانی حقوق کےتحفظ اور ان کی خلاف ورزیوں کو لےکر‘سلیکٹو اپروچ’ سے کام لیا جاتا ہے۔

وزیر اعظم کے ہی لفظوں میں کہیں تو ‘انسانی حقوق کی بہت زیادہ خلاف ورزی تب ہوتی ہے، جب اسے سیاسی رنگ سے دیکھا جاتا ہے،سیاسی چشمے سے دیکھا جاتا ہے، سیاسی نفع نقصان کے ترازو سے تولا جاتا ہے۔’اور‘اس طرح کا سلیکٹوسلوک جمہوریت کے لیے بھی اتنا ہی نقصاندہ ہوتا ہے۔’آگے وہ اپنی بات میں یہ جوڑے بنا بھی نہیں رہ پاتے کہ حال کے سالوں میں کچھ لوگ انسانی حقوق کی تشریح اپنے اپنے طریقے سے، اپنے اپنے مفاد کو دیکھ کر کرنے لگے ہیں۔ ایک ہی طرح  کے کسی معاملے میں کچھ لوگوں کو انسانی حقوق کی پامالی نظرآتی ہے اور ویسے ہی کسی دوسرے معاملے میں انہی لوگوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں دکھتی۔

سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ یہ سب کہنے کے پیچھےوزیراعظم کی ‘پالیٹکس’کیا ہے؟ لیکن اگر وہ ہر شہری کےانسانی حقوق کےتحفظ کی اپنی سرکار کی ذمہ داری سے دامن جھاڑ کر کہنا چاہتے ہیں کہ کسی شخص یا تنظیم  کا کسی ایک معاملے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے خلاف آواز اٹھانا یا اسے لےکرجدوجہد کرنا تب تک قابل نفرت مانا جائےگا، جب تک وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ویسے سارے معاملوں کو لےکر آواز نہیں اٹھاتا تو بلاشبہ، یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی روکنے کے بجائے اس کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو ہی روک دینے کی قواعد ہے۔

ایسے میں یہ سوال کہیں زیادہ موزوں ہو جاتا ہے کہ کیا کسی ایک معاملے میں، اس کےمتاثراپنے ہاں یا بیگانے،انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو اس کے لیے تب تک انتظار کرنا چاہیے، جب تک وہ ایسے سارے معاملوں پر آواز اٹھانے کا بوجھ اٹھانے میں اہل نہ ہو جائیں؟

لیکن کوئی تو بتائے کہ وہ اتنے اہل کیوں کر ہو سکتے ہیں؟ وہ کوئی سرکار نہیں ہیں نا۔

سچ پوچھیے تو یہ دیکھنا اوریقینی بنایاتو سرکاروں کا کام ہے کہ ملک میں کہیں بھی کسی بھی آدمی کےانسانی حقوق کی خلاف ورزی نہ ہو۔ کوئی شہری یا رضاکار تنظیم تو جس بھی معاملے میں جس بھی طرح سے اپنی پسند کے حساب سے چن کر ہی سہی ایسے جو بھی معاملے سرکار کے علم میں لاتا ہے، تو اس کی مدد ہی کرتا ہے۔ وہ سرکاروں کو روکتا تو نہیں ہے، قاعدے سے کہنا چاہیے کہ روک ہی نہیں سکتا، کہ وہ دوسرے ایسے معاملوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہ روکے، جنہیں وہ نہیں اٹھا رہا۔

لیکن حد ہے کہ اس مدد کے لیے اس کااحسان مند ہونے کے بجائے وزیر اعظم اب اس کی سلیکٹو ہونے کی سہولیت بھی چھین لینا چاہتے ہیں۔ یہ ویسے ہی ہے جیسے کسی معاملے میں گواہی دینے گئےشخص سے پوچھ رہے ہوں کہ تم اسی ایک معاملے میں گواہی کیوں دے رہے ہو، باقی معاملوں میں کیوں نہیں دے رہے؟

دوسری جانب بڑے میاں تو بڑے میاں، چھوٹے میاں سبحان اللہ کی حالت ہے! نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کےچیئرمین ریٹائرڈ جسٹس ارون کمار مشرا نے بھی‘فیصلہ’سنا دیا ہے کہ ‘انسانی حقوق کےمحافظ’ شخص اوررضاکار تنظیمیں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے معاملے ہی اٹھاتے رہ گئے اور انہوں نے سیاسی تشدد اور دہشت گردی  کی ‘کڑی نندا’ نہیں کی یا کرنے کو لےکر لاتعلق رہ گئے، تو تاریخ  انہیں معاف نہیں کرےگی۔

اتنا ہی نہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہندوستان میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے بہتر کام ہو رہا ہے کیونکہ ہمارا جمہوری ڈھانچہ تنازعات کے پرامن اور قانونی حل میں یقین رکھتا ہے۔ یعنی کوئی پریشانی نہیں ہے اور جب پریشانی ہی نہیں ہے تو کچھ کرنے یا فکرمند ہونے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اس سوال کو آگے بڑھائیں تو پھر کمیشن کی بھی بھلا کیا ضرورت ہے؟

اس سلسلے میں ایک اور بات قابل غور ہے۔اقوام متحدہ نے 1948 میں دس دسمبر کوانسانی حقوق کا جو چارٹر جاری کیا تھا اور جس پر ہندوستان سمیت دنیا کے اکثر سارے مہذب اور جمہوری ممالک نے دستخط کیے ہوئے ہیں، اس میں انسانی حقوق کی صحیح تعریف کی گئی ہے۔ اسی تعریف کو قبول کرتے ہوئے ہندوستان  نے 1993میں انسانی حقوق کے تحفظ کا قانون بنایا اور اسی سال 12 اکتوبر کو نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کاقیام کیا۔مقصد تھا:انسانی حقوق کاتحفظ اور انہیں بڑھاوا دینا۔ ان کی خلاف ورزیوں  کا نوٹس لینا، اس کی جانچ کرنا اور پبلک اتھارٹی کے ذریعےمتاثرین کے لیے معاوضے وغیرہ  کی سفارش کرنا۔

لیکن اب وزیر اعظم اور اس کمیشن کےچیئرمین دونوں مل کر اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت انسانوں کو حاصل انسانی حقوق کو اپنی تنگ‘راشٹروادی’تعریفوں اوروضاحتوں کے حوالے کرنے کی پھیر میں لگتے ہیں۔ اسی لیے وزیراعظم مذکورہ چارٹر کی بات نہیں کرتے۔ کہتے ہیں کہ ‘ہم نے صدیوں تک اپنے حقوق  کے لیےجدوجہد کیا۔ ایک ملک کے روپ میں، ایک سماج کے روپ میں ناانصافی اورمظالم کی مزاحمت کی۔ ایک ایسے وقت میں جب پوری دنیا عالمی جنگ کے تشدد میں جھلس رہی تھی، ہندوستان  نے پوری دنیا کو ‘حقوق  اور عدم تشدد’کاراستہ دکھایا۔’

ان کی بات مان لیتے ہیں، سجھایا ہوگا بھائی، لیکن ابھی تو سوال کل ملاکر اتنا سا ہے کہ اقوام متحدہ چارٹر کے تحت جن انسانی حقوق کی انٹرنیشنل گارنٹی ہے، ان کی ہندوستان میں کیا حالت ہے؟ اگر ان کے تحفظ کو لےکر کوئی پریشانی  ہی نہیں ہے، جیسا کہ کمیشن کےچیئرمین نے کہا ہے، تو انڈیکس میں ملک کی ریٹنگ لگاتار گرتی کیوں جا رہی ہے؟ کیا سرکار اور کمیشن کو اسے گرنے سے بچانے کی ذمہ داری یاد دلانے والوں کی وجہ سے؟

ایسا ہے تو کیا اس کا ایک مطلب  یہ بھی نہیں کہ کمیشن کےچیئرمین کے ذریعے سپریم کورٹ میں جج کے روپ میں کام کرتے ہوئے ‘گلوبل تھنکنگ سے مالامال انٹرنیشنل جینیس’ کے طور پرسراہے گئےوزیر اعظم نریندر مودی اور اب،‘جموں و کشمیر سمیت پورے نارتھ ایسٹ میں امن کا نیادور لانے والے’ ہیرو کے روپ میں سراہے گئے وزیر داخلہ امت شاہ پر یہ سرکار کو اس کی ذمہ داری یاد دلانے والے بھاری پڑ رہے ہیں؟ بھلا کیوں؟

کیا اسی لیے نہیں کہ انسانی حقوق کے محافط کو کوسنے والی سرکار نے خود سلیکٹو اپروچ اپناکر جمہوریت کو خطرے میں ڈال رکھا ہے؟

(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں۔)