نیپال کےصدر کی منظوری کے ساتھ ہی ملک کے آئین میں نئے نقشے نے قانونی شکل اختیار کر لی ہے۔ ہندوستان کے ساتھ سرحدی تنازعہ کے بیچ نئے نقشے میں لیپولیکھ، کالاپانی اور لمپیادھورا کو نیپال نے اپنے حصے میں دکھایا ہے، جو اتراکھنڈ کا حصہ ہیں۔
نیپال کا نیا سیاسی اور انتظامی نقشہ۔ (فوٹو: نیپال سرکار)
نئی دہلی: نیپال کی صدر ودیا دیوی بھنڈاری نے نیپال کے نئے نقشے بل پر جمعرات کودستخط کر دیا، جس کے بعد یہ قانون بن گیا ہے۔ اس نقشے میں کچھ ہندوستانی علاقوں کو شامل کیے جانے سے ہندوستان نے نیپال سرکار کے اس قدم پرناراضگی کا اظہار کیا ہے۔نیپال کے اس قدم نے ہندوستان کے ساتھ سرحدی تنازعہ کو اور گہرا کر دیا ہے، جس نے پہلے ہی اتراکھنڈ میں لیپولیکھ، کالاپانی اور لمپیادھورا پر نیپال کے دعوے کو خارج کر دیا ہے۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، نئی دہلی میں ذرائع کا کہنا ہے کہ جس طرح سے نیپال نے بات چیت کی گنجائش ہونے کے باوجود سازگار ماحول اور حالات بنانے کی کوشش نہیں کی، اس سے ہندوستان سرکارناراض ہے۔ہندوستان نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سرحدی معاملات پر بات چیت کرنے کی ہماری موجودہ سمجھ کی خلاف ورزی ہے۔
گزشتہ جمعرات کو نیپالی پارلیامنٹ کے ایوان بالایعنی
نیشنل اسمبلی نے آئین ترمیمی بل کو متفقہ طورپر منظوری دے دی تھی۔ گزشتہ13جون کو نیپالی پارلیامنٹ کے
ایوان زیریں نےاس کو منظوری دی تھی۔نئے نقشے میں لیپولیکھ، کالاپانی اور لمپیادھورا کو نیپال نے اپنے حصے میں دکھایا ہے۔
نیشنل اسمبلی میں اسپیکر کو چھوڑکر 58 میں سے 57 ممبروں نے بل کے حق میں رائے شماری کی۔ نیشنل اسمبلی کے اسپیکرگنیش پرساد تملسینا نے ایوان کی قرارداد کو منظوری دی۔یہ بل وزیر اعظم کےپی شرما اولی کو وعدے کے مطابق ہندوستان سے علاقوں کو دوبارہ حاصل کرنے کا آئینی میڈیٹ دیتا ہے۔
نیشنل اسمبلی میں اپوزیشن نیپالی کانگریس پارٹی کے رکن رادھےشیام ادھیکاری نے کہا، ‘ہمیں ان علاقوں کو ہمارے انتظامی کنٹرول میں رکھنا چاہیے۔’انہوں نے کہا، ‘ہمیں نیا نقشہ لانا پڑا کیونکہ ان علاقوں کے متنازعہ ہونے کے باوجود ہندوستان نے انہیں اپنے نقشے میں شامل کیا تھا اور یک طرفہ طریقے سے وہاں سڑک کی تعمیر کی تھی۔’
دراصل یہاں ہندوستان کے وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کے ذریعے مانسروور یاترا مارگ پر آٹھ مئی کو
دھارچولا لیپولیکھ سڑک کا افتتاح کیے جانے کا ذکر کیا گیا۔اس دوران نیپال کے سابق نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ نارائن کاجی شریشٹھ نے کہا، ‘ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ حقائق اورشواہد کی بنیاد پر بات چیت کے ذریعے مدعے کو سلجھایا جانا چاہیے۔ بات چیت سے بچنے سے صورتحال اور خراب ہوگی۔’
اولی نے اس معاملے پر ایوان میں ہوئی بحث کے دوران کچھ نہیں کہا لیکن بعد میں سالانہ بجٹ پر بحث کے دوران انہوں نے کہا، ‘کسی کا بھی آئینی ترمیمی بل کی مخالفت نہیں کرنا دکھاتا ہے کہ ہم قومی اتحاد کے مدعے پر ایک ساتھ کھڑے ہیں اور ہمیں تقسیم کرنے کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہوگی۔’
اس بل کے قانون بننے پر نیپال سرکار کے لیے نئے سرکاری نقشے کا استعمال کرنا اور نئے نقشے کو نیپال کے قومی نشان کے طور پر استعمال کرنالازمی ہو جائےگا۔اس بیچ نیپال کے وزارت خارجہ نے اشارہ دیاہے کہ وہ پچھلے سال نومبر سے بات چیت کی اپنی کوششوں کو ہندوستان کے سامنے صاف کرےگا۔
وزارت نے کہا کہ پچھلے سال جموں و کشمیر کی تقسیم کے ساتھ انہیں دو یونین ٹریٹری میں تبدیل کرنے کے بعد ہندوستان نے کالاپانی، لیپولیکھ اور لمپیادھورا کو اپنے نئے نقشے میں شامل کیا تھا۔وزارت سے وابستہ ذرائع نے کہا، ‘ہم نے دو بار تحریری طور پراپیل کی۔ ہندوستان نے کہا کہ وہ بات چیت کا خواہش مند ہے لیکن آج تک ہندوستان نے ہمیں سرکاری یا غیر سرکاری طور پر بات چیت کے لیے کوئی واضح ٹائم فریم نہیں دیا۔’
لداخ میں ہندوستان اور چین کے بیچ کشیدگی پر نیپال کا نظریہ پوچھنے پر ذرائع نے کہا کہ ہم غیر جانبدار رہیں گے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ دونوں فریق بات چیت کے ذریعے پرامن طریقےسے معاملات کو حل کریں۔بتا دیں کہ نیپال نے پچھلے مہینے ملک کا
ترمیم شدہ سیاسی اور انتظامی نقشہ جاری کرکے اسٹریٹجک طور پر اہم ان علاقوں پر اپنا دعویٰ بتایا تھا۔ ہندوستان نے بھی نومبر 2019 میں نیا نقشہ شائع کر کےان علاقوں کو اپنا علاقہ بتایا تھا۔
اس کے بعد نیپال کے
وزیر اعظم کےپی شرما اولی نے کہا تھا کہ لیپولیکھ، کالاپانی اور لمپیادھورا نیپال کے حصہ ہیں۔ انہوں نے سیاسی اور سفارتی کوششوں کےتوسط سے ان حصوں کو ہندوستان سے دوبارہ حاصل کرنے کی بات کہی تھی۔لیپولیکھ کالاپانی کے نزدیک سب سے مغربی پوائنٹ ہے جو ہندوستان اور نیپال کے بیچ ایک متنازعہ علاقہ ہے۔
ہندوستان اور نیپال دونوں کالاپانی کو اپنا علاقہ بتاتے ہیں۔ ہندوستان اسے اتراکھنڈ کے پتھوراگڑھ کا حصہ بتاتا ہے تو نیپال اسے دھارچولا ضلع کا حصہ بتاتا ہے۔