مہاراشٹر: لارنس بشنوئی گینگ نے لی این سی پی لیڈر بابا صدیقی کے قتل کی ذمہ داری

01:34 PM Oct 15, 2024 | دی وائر اسٹاف

باندرہ (ویسٹ) سے تین بار ایم ایل اے رہے بابا صدیقی نے حال ہی میں کانگریس چھوڑ کر نیشنل کانگریس پارٹی (اجیت پوار دھڑے) میں شمولیت اختیار کی تھی۔ واقعہ کے وقت وہ اپنے بیٹے باندرہ (ایسٹ) کے ایم ایل اے ذیشان کے دفترمیں تھے۔

بابا صدیق، تصویر: X / @BabaSiddique

نئی دہلی:  مہاراشٹر کے سابق وزیر اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) کے اجیت پوار دھڑے کے رکن بابا صدیقی کو سنیچر (12 اکتوبر) کی شام ممبئی کے باندرہ میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ گولی لگنے کے بعد انہیں لیلاوتی اسپتال لے جایا گیاتھا۔

باندرہ (ویسٹ) سے تین بار ایم ایل اے رہے صدیقی اپنے بیٹے باندرہ (ایسٹ) کے ایم ایل اے ذیشان کے دفتر میں تھے جب ان پر فائرنگ کی گئی۔

این سی پی کے ذرائع نے دی وائر کو بتایا کہ انہیں نزدیک  سے تین گولیاں ماری گئیں۔

لارنس بشنوئی گینگ نے اس قتل کی ذمہ داری لی ہے۔ گینگ کے ایک ممبر نے فیس بک پوسٹ میں کہا ، ‘جو بھی سلمان خان یا داؤد ابراہیم گینگ کی مدد کرے گا، وہ  اس کے لیے تیار رہے۔’

لارنس بشنوئی سدھو موسے والا کے قتل اور سلمان خان کے ممبئی واقع گھر پر فائرنگ کا مبینہ ماسٹر مائنڈ ہے۔

ابھی ایک ہفتہ قبل، این سی پی کے اجیت پوار دھڑے کے ایک اور لیڈر سچن کرمی کو ممبئی کے بائیکلہ میں چاقو مارکر قتل کر دیا گیا تھا۔

کانگریس کے ساتھ تقریباً پانچ دہائیاں گزارنے والے صدیقی آنجہانی اداکار اور کانگریس لیڈر سنیل دت کے قریبی ساتھیوں میں تھے۔ دت کی موت کے بعد، صدیقی نے سابق کانگریس ایم پی اور ان کی بیٹی پریہ دت کے ساتھ کام کرنا جاری رکھا تھا۔

تاہم، اس سال فروری میں صدیقی نے کانگریس چھوڑ کر این سی پی (اجیت پوار دھڑے) میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ بعد میں ان کے بیٹے ذیشان کو اگست میں کانگریس سے ہٹا دیا گیا تھا۔

کانگریس چھوڑتے وقت، صدیقی نے اپنے سوشل میڈیا پر لکھا تھا، ‘میں نے ایک نوجوان کے طور پر کانگریس پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی اور یہ 48 سال کا ایک خاص سفر رہا ہے۔ آج میں فوری اثر سے کانگریس پارٹی کی رکنیت سے استعفیٰ دیتا ہوں۔ ایسا بہت کچھ ہے جس کا میں اظہار کرنا چاہتا ہوں، لیکن جیسا کہ کہاجاتاہے کہ کچھ چیزیں ان کہی رہ جائیں تو بہتر ہے۔ میں ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو میرے سفر کا حصہ رہے ہیں۔’

کانگریس میں کئی لوگوں نے پارٹی چھوڑنے کے ان کے فیصلے کو ان کے خلاف زیر التوا مقدمات سے جوڑا تھا۔

سال 2017 اور 2018 کے درمیان انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے ان پر اور ان کی کمپنی پر 500 کروڑ روپے کی منی لانڈرنگ کا الزام لگایا تھا۔ ای ڈی نے ان کی کئی جائیدادوں پر چھاپے ماری کی تھی۔

صدیقی کے قتل پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے مہاراشٹر کے سابق وزیر داخلہ اور فی الحال این سی پی (شرد پوار دھڑے) کے ایم ایل اے انل دیشمکھ نے کہا کہ یہ واقعہ بہت ہی چونکا دینے والا ہے اور ریاست میں امن و امان کے حوالے سے سنگین سوال کھڑے کرتا ہے۔’

انہوں نے ایکس پر کہا ، ‘اگر مہاراشٹر میں برسراقتدار لیڈر محفوظ نہیں ہیں تو سوچیے عام لوگوں کی کیا حالت ہوگی۔’

شیو سینا کے راجیہ سبھا رکن سنجے راوت نے کہا، ‘مہاراشٹر میں امن و امان کی صورتحال اچھی رہی ہے۔ اسی لیے بڑی صنعتیں ممبئی میں آ ئی ہیں۔ بابا صدیقی کو ریاست کی طرف سے سیکورٹی فراہم کی گئی تھی، اس کے باوجود ان کا قتل کر دیا گیا۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ یہ وزیراعلیٰ کی ناکامی ہے… جس طرح  سے آپ (سی ایم) نے پولیس کا استعمال کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ  اب پولیس اور قانون کا کوئی خوف نہیں ہے۔ دن دہاڑے کسی بھی وقت قتل ہو رہے ہیں… اب تک ہم کہتے رہے ہیں کہ ریاستی وزیر داخلہ دیویندر فڈنویس پوری طرح سے ناکام ہیں۔ انہیں استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ لیکن اب گورنر کو مداخلت کرنی چاہیے اور فڈنویس کو عہدے سے ہٹا دینا چاہیے۔’

لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف راہل گاندھی نے ایکس  پر کہا ، بابا صدیقی کی ہلاکت حیران کن  اور افسوسناک ہے۔ اس مشکل وقت میں میری ہمدردی ان کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں۔  یہ ہولناک واقعہ مہاراشٹر میں امن و امان کی صورتحال کو اجاگر کرتا ہے۔ حکومت کو ذمہ داری قبول کرنی چاہیے اور انصاف ملنا چاہیے۔