جس کو ہم ’ایمرجنسی‘ کہتے ہیں اس زمانے میں گجرال نے اندرا گاندھی کے سامنے یہ تجویز پیش کی تھی کہ میڈیا کو آزادی دینی چاہیے اور اس سلسلے میں کچھ اقدامات ضروری ہیں ،انہو ں نے دستاویز بھی تیار کیے ،لیکن جب جے پی تحریک سامنے آئی تو اندرا پیچھے ہٹ گئیں ،گجرال کہتے ہیں؛’اقتدار کے قلعے کی فصیلوں پر جئے پرکاش نرائن کی تحریک کی یلغار شروع ہوگئی ۔مسز اندرا گاندھی نے محاصرے کی اس حالت میں یہ محسوس کیا کہ میڈیا ان کے لیے صحافتی ڈھال بن سکتی ہے ،اس طرح وہ میڈیا کو آزادی دینے کی بات سے پیچھے ہٹ گئیں ۔
جمہوری نظام ایک صحت مندنظریہ ہے،اور ان دنوں ہمیں اسی کے نام پرخود ساختہ ’نظریاتی ریاست ‘کا شہری بنایا جارہا ہے۔اس ہوشیاری اور تصادم کی وجہ سےبھی صحافت کی تنگ نظری ،تعصب پسندی یا یوں کہہ لیجیے کہ جانبداری پر بعض حلقوں میں خوب باتیں ہورہی ہیں ،لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بہت سی چیزوں کی طرح صحافت کی گردن بھی معاشرے کی مردہ انگلیوں میں پڑی پڑی نیلی ہو چکی ہے۔پریس اسی طرح معاشرے کا آئینہ ہے ،جس طرح معاشرہ فرد کی عیاریوں کا مرگھٹ بن چکا ہے۔یہاں بات آئیڈیل ازم کی نہیں ہے کہ اب اکثراحتجاج اور سوشل جسٹس کی لڑائی بھی سول سوسائٹی کے سیاسی مفاد سے الگ نہیں ،اکبر ؔ کے لفظوں میں کہیں تو ؛
کام وہ ہے جو ہو گورمنٹی
ان باتوں کا مطلب یہ نہیں کہ سوسائٹی پوری طرح سے ’سیاسی‘ ہو چکی ،لیکن یہ تو مان ہی لینا چاہیے کہ اب سوسائٹی بھی نظریاتی ریاست کی وکیل بن چکی ہے ۔اب پریس کی طرح ہی کوئی نہ کوئی سیاسی جماعتوں کی طرف داری کرتا ہوا مل جاتا ہے ۔کل ملا کر پریس آپ سے چائے خانے اور ٹرین کے اس فرد کی طرح سلوک کرنے لگا ہے جو ہر وقت سیاسی جھنڈا لے کر باور کرانا چاہتا ہے کہ بس یہی جھنڈا سوسائٹی کے مین گیٹ پر ہونا چاہیے ۔
ان حالات میں عدم اتفاق ہی عدم رواداری ہے،اس لیے تشدد بھی غلط نہیں ۔جی چاہے تو یوں کہہ لیجیے کہ پریس ہو یا یہ سیاسی آدمی اس کی’ خواہش ‘یہی ہے کہ آپ عقیدت مندوں کی طرح ان کی بات مان لیجیے ۔نہیں مانیں گے،اپنی الگ رائے رکھیں گے ،قلم کا صحیح استعمال کریں گے تو حالیہ واقعات سبق آموز ہیں ۔ان سب کو دھیان سے دیکھیے تو اندازہ ہو گا کہ پریس کیا سوسائٹی بھی آزاد نہیں ہے۔اس سیاسی سوجھ بوجھ کے طفیل ہی سوشل میڈیا پرسیاسی مسخروں کا جنم ہوا ہےاوران مسخروں نے ہماری ہنسی کو زندہ رکھا ہواہے۔
اگر آپ گالیوں سے بد مزہ نہیں ہوتے توہنسی کی اس محفل میں اندازہ ہوا ہوگا کہ نظریاتی ریاست کی پابندیوں میں جکڑی ہوئی صحافت ٗ نے ہمیں خوب انٹر ٹین کیا ہے ۔اب اچانک سے کوئی خبرافواہ ثابت ہوجاتی ہے۔جی فیک نیوز کی وبا نے ہمیں پروا ساکھی والے کلچر کا بھی شہری بنا دیا ہے ۔حالاں کہ یہ کلچر عورتوں سے مخصوص ہے،لیکن جو لوگ نہیں جانتے ،ان کے لیے عرض ہے کہ گاؤں گھرمیں اگر کسی کی بات جھوٹ لگتی ہے اور وہ یقین دلانا چاہتا ہےکہ اس کا کہا جھوٹ نہیں تو کچھ اور لوگوں سےتصدیق کی جاتی ہے ۔تصدیق کے اس عمل کو پروا ساکھی کہا جاتا ہے۔گویا اب ہمیں Gazetted Officerاورہندی میں کہیں تو راج پترت ادھیکاری کی بھی ضرورت ہے۔
نظریاتی ریاست کی مشکوک صحافت کے درمیان ایک ایسی صحافت بھی ہے ،جن پر پابندیا ں عائد کی جارہی ہیں؛یعنی جو گورمنٹی صحافت نہیں ہے ،ان پر حملے کیے جارہے ہیں ۔پچھلے دنوں راجستھان کا کالاقانون بھی اسی وجہ سے سرخی میں تھا ،اور وہاں کے سب سے بڑے اخبار ’راجستھان پتریکا‘ نے اپنا اداریہ لکھا تھا کہ جب تک کالا تب تک تالا۔اس ناگفتہ بہ صورت حال کو دیکھ کر بزرگ صحافیوں نے ایمرجنسی کو بھی یاد کیا اور کہا کہ اُن دنوں احتجاج کے طور پربعض اخبارات اپنے ادارتی صفحے کا کچھ حصہ خالی چھوڑ دیتے تھے ۔اس طرح کے قصے اور بھی ہوں گے ،ہاں قصے ،کیوں کہ اب احتجاج بھی رزمیہ داستان ہی ہیں۔اگر نہیں تو کیا کبھی اس سوسائٹی نے غور کیا ہے کہ حکومتیں اپنی غلط پالیسیوں کا اشتہار بھی پورے صفحے پر دیتی ہے اور ہمارے ہی پیسے سے ہمیں بتایا جاتا ہے کہ’نوٹ بندی ‘جیسی پالیسی ہماری بھول نہیں تھی ۔ان اشتہارات کو خبروں اور تجزیات سے ملا کر پڑھیے دونوں میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آئے گا۔آج کی صحافت یہی ہے ،گورمنٹی صحافت ۔
میں آپ سے یہاں اندر کمار گجرال کے بارے میں کچھ بات کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے ایمرجنسی کے سینسر کو یاد کرتے ہوئے کہا تھا کہ؛
اس دور میں اخبار پڑھنا بے معنی تھا۔ان کے بقول ‘آزادی فکر اور قلم کو ہر قسم کے جنون سے چاہے وہ مذہبی ہو یا سیاسی ،ہمیشہ خطرہ بنا رہتا ہے۔اس کے خلاف مورچہ آخری دن نہیں لیا جاسکتا۔جب کبھی پڑھنے والے شخصیت پرستی یا کسی طرح کی نظریاتی پرستی کو جمہور پرستی پر ترجیح دیں گے تو نتائج وہی ہوں گے جو ایمرجنسی کی مختصر سی ریہرسل نے دکھائے تھے ۔‘
ایمر جنسی کی ریہرسل چولا بدل کر ہم سے ہمارا نام پوچھ رہی ہے۔لیکن ہم مورچہ لینے کے موڈ میں نہیں ہیں ۔ہندوستان کے سابق وزیر اعظم اند رکمار گجرال نے ایک جگہ لکھاکہ؛’پابندیوں میں جکڑی صحافت آخر میں معاشرہ اور لوگوں کے رشتے ڈھیلے کر دیتی ہے ۔‘میں نے یہاں جان بوجھ کر گجرال صاحب کا ذکر کیا کہ وہ ہندوستان کے وزیر اعظم ہی نہیں تھے بلکہ اندراگاندھی کی حکومت میں ان کا تعلق اس منسٹری سے بھی تھا ،جو صحافت کے معاملوں کودیکھتی ہے۔ایمرجنسی کے زمانے میں ہی اندرا گاندھی نے انہیں اس منسٹری سے اس لیے برطرف کر دیا تھا کہ وہ پریس کی آزادی کی بات کر رہے تھے۔یہاں یہ بتا نا بھی دلچسپ ہے کہ انہوں نے جواہر لال نہرو کے حوالے سےنیشنل ہیرالڈ کے ایڈیٹر چل پتی راؤ کا بیان نقل کیا ہے کہ؛ان کے لیے (نہرو)آزادی صحافت جمہوری عمل کا ایک حصہ ہے۔وہ تنقید کو قبول کرتے تھے چاہے وہ کتنی ہی سخت اور ناقابل برداشت ہی کیوں نہ ہواور اسے صحافت کا جزو تصور کرتے تھے۔‘
اس بیان کو نقل کرتے ہوئےراؤ کے اس بیان کو بھی بریکٹ کیا کہ ؛آزادی کے قبل کے برسو ں میں جب میں سرکاری پالیسیوں پر مسلسل کھلے انداز میں تنقید کیا کرتا تھا تو وہ بعض اوقات الجھن میں مبتلا ہوجاتے تھے ،لیکن انھو ں نے مجھ سے ایک لفظ نہیں کہا کیوں کہ وہ میری آزادی کا بہت احترام کرتے تھے ۔انھوں نے اسے کبھی سلب اور ختم کرنے کی کوشش نہیں کی ۔بحیثیت وزیر اعظم ان کی کچھ مشکلات تھیں اور بحیثیت ایڈیٹر مجھ پر بھی ذمہ داریاں عائد تھیں ۔‘
ہم اگر مان بھی لیں کہ یہاں کہی گئی تمام باتیں درست نہیں ہیں ،تو بھی یہ کہیے کہ ذمہ داری کی باتیں اصولی طور پر صحیح ہیں ۔اس وقت ان باتوں کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے جب ہمیں یہ بھی علم ہو کہ اخبار کے مالکانہ حقوق کانگریس کے پاس ہیں ۔ان باتوں کی روشنی میں آج کے اخبار اورنظریاتی ریاست کے علمبرداروں کے ترجمان ’آرگنائزر‘کے شماروں کا موازنہ کیجیے تو یقین کرنا مشکل ہوگا کہ ہمارا پریس بالخصوص ٹی وی چینل کون سا اسکرپٹ پڑھتے ہیں۔ ہاں ضمیمہ کے طور پر وہ کچھ خبریں شائع ضرور کرتے ہیں ۔ان سے الگ اگر کوئی صحافی ’یونیورسٹی سیریز‘ کے تحت بنیادی موضوع پر مسلسل بات کر رہا ہے تو ہم اس کو سننے کی طرح نہیں سنتے ۔ہماری سماعت ہمیں غارت کر دے گی ،کیوں کہ سماعتوں کا رشتہ ان دنوں سیاسی ہوگیا ہے۔
اس سیاسی ہوتے سماج میں مجھے لگتا ہے کہ گجرال جیسوں کے مضامین کی سخت ضرورت ہے۔انہوں نے وقتاً فوقتاً پریس کو موضوع بنایا اور نہرو کے حوالے سے یہ بھی لکھا کہ؛ صاحب اقتدار افراد کو تنقید کے تابع ہونا چاہیے مگر تنقید تعمیری ہونی چاہیے۔‘
یہ ایک وزیر اعظم کا بیان ہے جس کو دوسرے وزیر اعظم نقل کر رہے ہیں ،یہاں سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ پردھان منتری ان باتوں کو سمجھتے ہیں؟میرے خیال میں سمجھتے ضرور ہیں ،لیکن ان کی ترجیحات کچھ اور ہیں ،اس لیے وہ پریس سے سیدھے مخاطب نہیں ہوتے ۔ابھی گزشتہ روز انہی کی پارٹی کے رکن پارلیامنٹ شروگھن سنہا نے ایک چینل کو بتایا کہ وزیر اعظم میڈیا سے ملتے ہیں ،لیکن بات نہیں کرتے ۔اس طرح آپ چاہیں تو بہ آسانی اعداد و شمار بھی حاصل کیے جاسکتے ہیں کہ وزیر اعظم کتنی بار میڈیا کے سامنے آئے ؟وہ ریڈیو پر آتے ہیں اور قوم کے نام خطاب کر کے چلے جاتے ہیں ، جلسہ جلوس میں شعلہ بیان مقرر کی طرح بولتے ہیں ،لیکن میڈیا سے بات نہیں کرتے ۔ان سب کے درمیان بھی ان کی پالیسیوں پر لکھا پڑھا جاتا ہے اور اچانک کسی دن سچ لکھنے والوں کو کیفرکردار تک پہنچا دیا جاتا ہے۔اس صورت میں میڈیا کی آزادی پر ان کی رائے شاید حوصلہ افزا نہیں ہوگی۔یہ اور طرح کی ایمرجنسی ہے،اس لیے ایک پریس ان کی نوکری کر رہا ہے اور دوسرا جمہوریت کو بچانے میں مصروف ہے۔
جس کو ہم ’ایمرجنسی‘ کہتے ہیں اس زمانے میں گجرال نے اندرا گاندھی کے سامنے یہ تجویز پیش کی تھی کہ میڈیا کو آزادی دینی چاہیے اور اس سلسلے میں کچھ اقدامات ضروری ہیں ،انہو ں نے دستاویز بھی تیار کیے ،لیکن جب جے پی تحریک سامنے آئی تو اندرا پیچھے ہٹ گئیں ،گجرال کہتے ہیں؛’اقتدار کے قلعے کی فصیلوں پر جئے پرکاش نرائن کی تحریک کی یلغار شروع ہوگئی ۔مسز اندرا گاندھی نے محاصرے کی اس حالت میں یہ محسوس کیا کہ میڈیا ان کے لیے صحافتی ڈھال بن سکتی ہے ،اس طرح وہ میڈیا کو آزادی دینے کی بات سے پیچھے ہٹ گئیں ۔میڈیاسے اور مجھ سے ان کی مایوسی بڑھ گئی ۔ان کے مشیروں کی برہمی اور عتاب کا سامنا کرنا پڑا۔‘اس کے بعد یہی ہونا تھا کہ ان سے منسٹری چھین لی گئی ،جیسے آج پارٹی کا کوئی سینئر اور تجربہ کار رہنما ملک کی اقتصادی پالیسی پر مضمون لکھ دیتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ نوکری ڈھونڈ رہے ہیں۔بہرحال گجرال کے لفظوں میں ؛وزیر اعظم نے مجھے بر طرف کرتے ہوئے کابینہ میں کہا تھا یہ وزیر تو Credibility کا خبطی ہے۔‘
دراصل آج میڈیا کی آزادی کی بات کرتے ہوئے ہم بہ آسانی بی جے پی کو لعن طعن کرتے ہیں ،لیکن کم وبیش تمام حکومتوں نے میڈیا کو اپنا بھونپو ہی بنایا ہے ۔اس ضمن گجرال کا بیان ہے کہ ؛بر سر اقتدار آنے کے بعد ہر سیاسی لیڈر یہی چاہتا ہے کہ الکٹرانک میڈیا جیسا اہم ترین ادارہ اس کے قابو میں رہے تاکہ وہ اسےاپنے حق میں عوامی رجحان سازی کے لیے استعمال کر سکے ۔اصل بات یہ ہے کہ دھڑلے سے پروپیگنڈہ کرنے کو صحیح اور درست اطلاعات کا بہتر متبادل سمجھا جاتا ہے۔‘
جب حکومت اور سیاسی جماعتیں پروپیگنڈہ کو ہی نصب العین سمجھ لے اور عوام بھی اس کے حق میں ہو تو میڈیا کی آزادی پر بات کرنا دراصل کچھ ناموں کا ورد کرنا ہے کہ یہ اپنے پیشہ سے کمٹ منٹ رکھتے ہیں اور شہریوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں ۔خود گجرال 1980کی بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ؛بوفورس اور رشوت کی رقم کے خفیہ لین دین کے معاملوں نے ماحول کو اتنا پر کیف بنا ڈالا کہ میڈیا کی خودمختاری کی بات کرنا ہی ممکن نہ رہا۔‘آج بھی میڈیا کی خود مختاری پر بات کرنا ممکن نہیں ہے ،لیکن یہ کہنا کسی قدر آسان ہے کہ میڈیا، راشٹرواد کا سبق بھارتیہ جنتا پارٹی سے پڑھ کر آئی ہے ۔ایک فالتو بیان پر عمارتوں اورشہیدوں کی خودساختہ تاریخ کا سیاسی پروپیگنڈہ ہی ان کا مقصود ہے ۔ہاں اصولی طور پر میڈیا کی خود مختاری پر بھی بات کی جاسکتی ہے۔گجرال نے بھی کچھ اصولی باتیں لکھی ہیں کہ ؛نظریا تی اعتبار سے خود مختاری ایک محدود بات ہے۔بات تو میڈیا کو سرکاری شکنجے سے آزادی کی ہونی چاہیے۔خبریں اور تبصرے میڈیا کے آزاد ہونے کے بعد ہی قابل اعتبار بنیں گے۔‘
آپ بہتر سمجھتے ہیں کہ گجرال صاحب نے جس کو سرکاری شکنجہ کہا ہے ،وہ کچھ میڈیا ہاؤس کے لیے شکنجہ نہیں ہے۔غور طلب ہے کہ یہ باتیں بہت پرانی نہیں ہے ،16مئی 1993کو گجرال نے یہ باتیں کہی تھیں ۔لیکن یہ سب اچانک نہیں ہوا،اس سلسلے میں انہوں نے بہت معرکے کی بات لکھی کہ ؛جب گاندھی جی کے سیاسی پیروکار وزیر بننے اور بنانے کے کھیل میں کود گئے تو نئی پیڑھی کی نظر میں گاندھی جی کی چھوڑی ہوئی وراثت اور خیالات کی اہمیت کم ہوگئی ……اور باتوں کے علاوہ جرنلزم اور سماجی نرمان کا آپسی رشتہ ڈھیلا پڑنے لگا ۔مجاہد اب پیشہ ور بننے لگے ،جیو ں جیوں دیش میں اقتصادی ترقی ہونے لگی اس کے ساتھ ساتھ اطلاعات و نشریات کے نظریات بھی بدلنے لگے۔‘
یہ اقتصادی ترقی کا کھیل اب کہیں آگے بڑھ کر نظریاتی ریاست کی تعمیر کے پروپیگنڈہ کو کھڑا کرنے میں ہمہ تن مصروف ہے۔اس ڈسکورس کی سیاسی وجہیں بھی موجود ہیں ،ان پر کبھی اور بات کی جائے گی ۔ابھی میڈیا کے اعتبار کی بات کر لیجیے تو گجرال نے بڑی اچھی مثال دی ہے کہ ؛امریکن میڈیا اس وقت باہر کے ملکوں میں قابل اعتبار بنا تھا جب اس نے ویت نام کی جنگ میں اپنی سرکار کی کمزوریوں اور کاگزاریوں پر ایک نکتہ چینی کی نظر ڈالی تھی ۔‘
یہاں اپنے ہی ملک میں نکتہ چینی کا مطلب کچھ اور ہوگیا ہے کہ آپ ان کے نظریاتی ریاست کے شہری نہیں ،لیکن کہا یہ جا رہا ہے کہ آپ ہندوستانی ہی نہیں ہیں ۔حال کے واقعات دیکھیے دیش دروہ سے نیچے کا مقدمہ تو بنتا ہی نہیں ہے۔ان حالات میں گجرال صاحب کی ہی بات یاد آتی ہے ،جو انہوں نے پریس کی اخلاقیات کے ضمن میں کہی کہ ؛اصل میں ہر یگ کا مہابھارت اپنا ہوتا ہے ۔اسے اپنا ہی میدان جنگ ڈھونڈنا پڑتا ہے اور اسی میں شہادت کے معیار بھی ۔‘
ہم اگر اپنے یگ کا مہابھارت دیکھ پارہے ہیں تو یقیناً یہ بھی جانتے ہوں گے کہ شہادت کے معیار کیا ہیں ۔اگر نہیں تو عدم اتفاق کے معنی کو لغت سے مٹادیجیے اور اس کی جگہ عدم رواداری لکھ دیجیے۔عدم رواداری کے الزام میں آپ دیش دروہی کہلائیں گے اور یہ لفظ مخصوص نظریاتی ریاست کے معنی ومفہوم کے ساتھ ادا ہوجائے گا۔ان حالات میں گجرال صاحب کے کہےیہ جملے بھی اپنی سماعتوں میں محفوظ کر لیجیے،اور ایسے صحافیوں کو تلاش کیجیے جو ان کے بقول ’آج کا مجاہد پترکار صرف وہ نہیں ہے جو صرف اسکینڈلس کھوج نکالتا ہے یا سماج کی کدورتوں کو فوکس میں لاتا ہے وہ بھی ہے جو سماجی ترقی کے کسی ایک مقصد کو مشن مان کر چلتا ہے اور سماجی سوچ پر اپنی چھاپ چھوڑتا ہے۔‘
یہ مضمون پہلی بار 16 نومبر 2017 کو شائع کیا گیا تھا۔