احمدآباد کے نریندر مودی اسٹیڈیم کی افتتاحی تقریب میں امت شاہ نے اس اسٹیڈیم کو دنیا کے جدید ترین اسٹیڈیم میں سےایک بتایا تھا۔لیکن، اس کی پول گزشتہ دنوں آئی پی ایل کے فائنل میچ کے دوران اس وقت کھل گئی ، جب بارش کے بعد میدان کو خشک کرنے کے لیے بالٹی اور اسفنج کا سہارا لیا گیا۔
مرکزی وزیر امت شاہ، آئی پی ایل فائنل میچ کے دوران اسفنج سے پچ کو خشک کرتا عملہ۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک/ٹوئٹر)
نئی دہلی: اسی کی دہائی میں گجرات کے احمد آباد کے موٹیرا میں بننے والے سردار پٹیل اسٹیڈیم کو 2015 میں منہدم کرکے دوبارہ بنانا شروع کیا گیا تھا۔ اور جب 24 فروری2021 کو گجرات کرکٹ ایسوسی ایشن (جی سی اے) کے اس نو تعمیر شدہ اسٹیڈیم کا افتتاح اس وقت کے صدر رام ناتھ کووند نے کیا تو اس کا نام بدل کر ‘نریندر مودی اسٹیڈیم’ رکھ دیا گیا تھا۔
اسٹیڈیم کے تعمیر نو کے بارے میں اطلاع بہم پہنچاتے ہوئے جی سی اے کی
ویب سائٹ پر لکھا گیا ہے، ‘اکتوبر 2015 میں، اس وقت کے جی سی اے کے صدر اور موجودہ وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی دور اندیش قیادت میں، گجرات کرکٹ ایسوسی ایشن نے اسٹیڈیم کے تعمیر نو اور اسے دنیا کا سب سے بڑا کرکٹ اسٹیڈیم بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس اسٹیڈیم کو جی سی اے نے وزیر اعظم
‘مودی کا خواب’ بتایا ہے۔
دنیا کے اس سب سے بڑے کرکٹ اسٹیڈیم کی افتتاحی تقریب کے دوران وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا تھا، ‘جب اسٹیڈیم بنانے کی بات آئی تو انہوں نے (مودی) ہمیں سب کے سامنے کہا تھا کہ چھوٹا مت سوچیے، گجرات میں جو بھی ہوگا دنیا کا سب سے بڑا ہوگا…
اس کے بعد شاہ کرکٹ اسٹیڈیم کے بارے میں جانکاری دیتے ہوئے کہتے ہیں۔… جی سی اے کی ٹیم نے اسے ہر پہلو سے مکمل کرنے کی کوشش کی ہے اور میں انہیں بتانا بھی چاہتا ہوں کہ آپ کی کوشش کامیاب رہی ہے۔ دنیا کے کسی بھی کرکٹ اسٹیڈیم میں بیک وقت 11 پچ نہیں ہیں۔ ایک ساتھ چار ڈرائنگ روم نہیں ہیں… ایک دن میں دو میچ بھی کرنے ہیں تو یہ اسٹیڈیم کر سکتا ہے۔
آگے وہ جو دعویٰ کرتے ہیں، حال ہی میں اسی پرسوال اٹھائے گئے ہیں – خاص طور پر انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) 2023 کے بارش سے متاثرہونے والے فائنل مقابلے کے بعد۔ امت شاہ نے تب اسٹیڈیم کی شان میں قصیدہ پڑھتے ہوئے
دعویٰ کیا تھا کہ، ‘اسٹیڈیم میں پوری طرح سے جدید ترین نکاسی آب کا نظام (ڈرینیج سسٹم)بھی بنایا گیا ہے۔ اگر بارش ہو جائے، چاہے کتنی ہی بارش ہو جائے، آدھے گھنٹے میں میچ کو ڈسٹرب کیے بغیر، بارش رکنے کے ساتھ ہی ہم آگے کا کھیل شروع کر سکتے ہیں۔
تاہم،آئی پی ایل–2023 کے فائنل مقابلے میں کچھ اور ہی دیکھنے کو ملا۔ شدید بارش کی وجہ سے 28 مئی کو ہونے والا میچ ریزرو ڈے یعنی اگلے دن 29 مئی کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔29 مئی کو مقررہ وقت پر مقابلہ شروع بھی ہوا، اور گجرات ٹائٹنز کی پہلی اننگز بارش کی کسی رکاوٹ کے بغیر ختم ہوگئی لیکن دوسری اننگز میں چنئی سپر کنگز کے بلے بازوں نے صرف 3 گیندیں کھیلی تھیں کہ تیز بارش شروع ہوگئی اور کھیل کو روکنا پڑا۔
بارش صبح 9.50 بجے شروع ہوئی اور آئی پی ایل کے آفیشل ٹوئٹر ہینڈل سے 10.26 بجےکیا گیا
ٹوئٹ بتاتا ہے کہ اس وقت تک بارش بند ہوچکی تھی اور میدا ن کو بارش سے بچانے کے لیے لگائے گئے گراؤنڈ کور بھی ہٹا دیے گئے تھے۔
ای ایس پی این کرک انفو کے مطابق، 10:07 پر، پچ/گراؤنڈ کو خشک کرنے والے سپر سوپرس بھی میدان پر آگئے تھے۔ یعنی تقریباً 15-20 منٹ کے بعد بارش تھم گئی تھی۔
امت شاہ کے دعوے کے مطابق تو بارش رکنے کے آدھے گھنٹے کے اندر ہی کھیل دوبارہ شروع ہو جانا چاہیے تھا، لیکن کھیل 30 مئی کو رات 12 بج کر 10 منٹ پر شروع ہوا۔ یعنی بارش رکنے کے تقریباً دو گھنٹے بعد۔
بارش کے آغاز اور کھیل کے آغاز کے درمیان گراؤنڈ پر بارش سے نمٹنے کے لیے جو انتظامات دیکھے گئے وہ دنیا کے سب سے بڑے اسٹیڈیم کے جدید ترین انتظامات کا پوری دنیا میں مذاق بنانے کے لیے کافی تھے۔
سب سے پہلے تو جیسے ہی بارش شروع ہوئی، درجنوں گراؤنڈ اسٹاف نے تیز ہوا اور بارش کا مقابلہ کرتے ہوئےتارپولین کے کور کو باؤنڈری لائن سے کھینچ کر پچ تک پہنچایا۔ جب تک بارش سے تربتر گراؤنڈ اسٹاف پچ تک پہنچ پاتا، پچ کا ایک بڑا حصہ کافی پانی جذب کر چکا تھا۔ جی سی اے حکام نے بھی اس بات کو تسلیم کیا کہ
تیز ہوا کی وجہ سے کور کو صحیح طریقے سے نہیں لگایا جا سکا۔
پھر، بارش رکنے کے بعداس حصے کو خشک کرنے کے لیےاسفنج اور پلاسٹک کی بالٹی کا سہارا لیا گیا۔
یہ سب دیکھ کر سوشل میڈیا پر بورڈ آف کنٹرول فار کرکٹ ان انڈیا (بی سی سی آئی) کو یہ کہہ کر نشانہ بنایا گیا کہ دنیا کے امیر ترین کرکٹ بورڈ کے پاس بارش سے نمٹنے کے لیےبھی انتظامات نہیں ہیں۔اس کے ساتھ ہی امت شاہ کے مذکورہ دعوے پر بھی لوگوں نے سوال اٹھائے۔
عام طور پر انگلینڈ کے گراؤنڈز پر استعمال ہونے والے
ہوور کور کی مثال بھی دی گئی جسے صرف دو لوگ کھینچ کر بہت کم وقت میں پچ تک لے جا سکتے ہیں اور نریندر مودی اسٹیڈیم جیسی صورتحال سے بچا جا سکتا ہے۔
امت شاہ کا دعویٰ ‘انتخابی جملہ’ تو نہیں!
امت شاہ نے کسی ‘انتخابی جملے’کے طور پر مذکورہ دعویٰ کر دیا ہو، ایسا بھی نہیں ہے کیونکہ جی سی اے کے جوائنٹ سکریٹری انل پٹیل نے بھی اسٹیڈیم کی تعمیر کے بعد یہی بات کہی تھی۔ انہوں نے کہا تھا، جدید ترین نکاسی آب کا نظام شدید بارش کی صورت میں میدان کو جلد خشک کرنے میں مدد کرے گا۔
پٹیل نے کہا تھا، ‘گھاس کے نیچے ریت کا استعمال کیا گیا ہے۔ یہ ایک جدید ترین نکاسی آب کے نظام کے ساتھ دیگرریگولر میدانوں کے مقابلے بارش کے پانی کو بہت تیزی سے نکال دے گا۔ میچ کے دوران 8 سینٹی میٹر بارش ہونے پربھی پانی بہت تیزی سے نکل جائے گا۔ اس سے بارش کی وجہ سے میچ ردہونے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے بتایا تھاکہ صرف گراؤنڈ کی دیکھ بھال کے لیے 2 کروڑ روپے کے سامان خریدے گئے ہیں۔
یہ الگ بات ہے کہ شاید ان سامانوں میں بارش سے نمٹنے کے سامان شامل نہیں رہے ہوں گے، اس لیے پچ کو خشک کرنے کے لیےاسفنج اور پینٹ کی پرانی بالٹیوں کی ‘جگاڑ تکنیک’ اختیار کی گئی۔
کھیل اور نوجوانوں کے امور کی وزارت نے بھی اسٹیڈیم کے افتتاح کے وقت
کہا تھا، ’63 ایکڑ پر پھیلے اسٹیڈیم میں چھ سرخ اور پانچ کالی مٹی کی گیارہ پچ تیار کی گئی ہیں۔ یہ پہلا اسٹیڈیم ہے جس میں مین اور پریکٹس پچ کے لیے دو رنگین مٹی استعمال کی گئی ہے۔ اگر بارش ہو جائے تو پچ کو صرف 30 منٹ میں خشک کیا جا سکتا ہے۔
اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ گراؤنڈ صرف ‘میچ کے دوران زیادہ سے زیادہ 8 سینٹی میٹر بارش’ کا پانی نکال سکتا ہے، تب بھی 29 مئی کو 15-20 منٹ کی بارش میں اتنا پانی گرنا ناممکن تھا، کیونکہ 8 سینٹی میٹر بارش تو 28 مئی کو بھی نہیں ہوئی تھی، جس دن آئی پی ایل کا فائنل مقابلہ نہیں کھیلا جا سکا تھا۔
محکمہ موسمیات کے مطابق،28 مئی کو احمد آباد میں شام 6 بجے سے رات 10 بجے کے درمیان یعنی چار گھنٹے میں3 انچ مطلب 7.6 سینٹی میٹر بارش ہوئی تھی۔
جدید ترین اسٹیڈیم میں بارش سے نمٹنے کے لیے قدیم ٹکنالوجی
یہ بات بالکل درست ہے کہ آجکل کرکٹ گراؤنڈ کی تعمیر میں نکاسی آب کے لیے جدید تکنیک کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ لیکن، ایسا نہیں ہے کہ نریندر مودی اسٹیڈیم واحد میدان ہے جہاں اس طرح کی ٹکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے، بنگلورو کے
ایم چناسوامی اسٹیڈیم میں بھی نکاسی آب کے لیے ایسا ہی نظام فراہم کیا گیا ہے۔
لیکن، میدان (آؤٹ فیلڈ) سے نکاسی آب کا نظام کا ہونا اور بارش کی وجہ سے پچ کا کھیلنے کے قابل نہ رہنا دو مختلف چیزیں ہیں۔ نریندر مودی اسٹیڈیم کے آؤٹ فیلڈ پر نکاسی آب کے نظام نے بھلے ہی اپنا کام بخوبی کیا ہو، لیکن جدید تکنیکی سہولیات کے دعووں کے بیچ پچ کو ڈھانپنے اور خشک کرنے کے لیے جدید آلات کا فقدان، اور ان کی جگہ پر روایتی تارپولین کےکوراستعمال کرنا یا پچ کو کھیلنے کے قابل بنانے کے لیے اسفنج کا سہارا لینا، تمام دعووں پر کئی سوال کھڑے کرتا ہے۔
سوال تو یہ بھی ہے کہ وزارت کےدعوے کے مطابق پچ 30 منٹ میں کیوں خشک نہیں ہوا؟
اگر ہوور کور کو چھوڑ بھی دیں تو دنیا کے دیگر ممالک میں بارش کی صورت میں کور پچ تک پہنچانے کے لیے کور لےجانے والی گاڑی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ہندوستان کے کئی اسٹیڈیم میں بھی یہ موجود ہیں۔ لیکن نریندر مودی اسٹیڈیم میں وہ بھی نہیں تھے، جبکہ اسٹیڈیم کے افتتاح کے وقت اس وقت کے مرکزی وزیر کھیل
کرن رجیجو یہ کہتے ہوئے نظر آئے تھے کہ ‘یہ دنیا کے جدید ترین اسٹیڈیم میں سے ایک ہے۔’
اگر ہم دنیا کی بات بھی نہ کریں تو ہوور کور بنانے والی برطانوی کمپنی
ا سٹورٹ کینوس کے مطابق،ہندوستان میں ہی پونے واقع مہاراشٹر کرکٹ ایسوسی ایشن کے اسٹیڈیم میں ان کے بنائے ہوور کورکا استعمال ہوتا ہے۔
’مودی کے خوابوں کا اسٹیڈیم‘ بناتے ہوئے دنیا بھر کے اسٹیڈیم سے موازنہ کرنے کے بجائے ہمارے ہی ملک کے کسی بھی اسٹیڈیم میں استعمال ہونے والی جدید ٹکنالوجی پر اچھی تحقیق کی جاتی تو اس طرح کے بلند و بانگ دعوے کرنے سے بچاجاسکتا تھا۔
یہ بھی واضح رہے کہ یہ پورا اسٹیڈیم امت شاہ اور ان کے بیٹے جئے شاہ (موجودہ بی سی سی آئی سکریٹری) کی نگرانی میں بنایا گیا تھا ،کیونکہ مودی کے جی سی اے صدر کا عہدہ چھوڑنے کے بعد امت شاہ ہی اس کے صدربنے تھےاور جئے شاہ سکریٹری۔اس لیے ملک بھر میں جس کو دنیا کا سب سے بڑا اور جدید ترین اسٹیڈیم بنا کر پیش کیا گیاتھا، وہاں ایسی بنیادی سہولیات کے فقدان کی بات شاید ہی ان سے چھپی ہو۔
یا پھر وزیر اعظم مودی کے ‘خوابوں کا اسٹیڈیم’ ایسا ہی تھا؟ چاند میں داغ کی طرح انہوں نے یہاں بھی کچھ داغ چھوڑ دیے ہوں گے، تاکہ نظر نہ لگے! یا ‘ملک کی ترقی کے وعدوں’ کے ساتھ ہی ‘کھیلوں کی ترقی کے دعوے’ کے ساتھ بھی کھلواڑ کیا جا رہا ہے ؟ لگتا تو ایسا ہی ہے۔
ریو اولمپکس میں15-20 تمغے جیتنے کے دعووں سے لے کر کھیلوں کے ذریعے ملک کو فٹ بنانے کے لیے ‘
فٹ انڈیا‘ مہم تک، اور تمغہ جیتنے والے پہلوانوں کو ملک کا فخر اور خواتین پہلوانوں کو ملک کی بیٹیاں کہنے کے باوجود،ان کی جانب سے
بی جے پی ایم پی کے خلاف لگائے گئے جنسی استحصال کے الزامات پر کوئی کارروائی نہ کر تے ہوئے
خاموشی اختیار کرنے تک، کھیلوں کو فروغ دینے کے دعووں کے ساتھ کھلواڑ ہی تو ہو رہا ہے۔
ویسے الزام تو برسات کوبھی دیا جا رہا ہے کہ احمد آباد میں کبھی اتنی بارش نہیں ہوتی اور کہا جا رہا ہے کہ ‘قدرت کے آگے تو کچھ کرنہیں سکتے۔’
ہاں سارا قصور قدرت کا ہی ہے۔کبھی قدرت گجرات کے احمد آباد میں 800 کروڑ کی لاگت سے بنائے گئے وزیر اعظم مودی کے’ڈریم اسٹیڈیم’ کے خلاف سازش کرتی ہے اور کبھی مدھیہ پردیش کے اُجین میں 800 کروڑ کی لاگت سے ان کے ذریعے افتتاح کیے گئے ‘
مہاکال لوک’ کے مجسموں کو توڑ پھوڑ کر اوندھے منھ گرا دیتی ہے۔
نریندر مودی اسٹیڈیم۔ (فوٹو بہ شکریہ: گجرات کرکٹ ایسوسی ایشن)
پہلے بھی بی سی سی آئی کے انتظامات پراٹھے ہیں سوال
ویسے، بی سی سی آئی کے انتظامات پر بھی تنقید ہونی چاہیے کیونکہ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ بین الاقوامی سطح کے میچ کے انعقاد میں گراؤنڈ کو خشک کرنے کے لیے اس طرح کے بوسیدہ طریقے استعمال کیے گئے ہوں۔ہندوستان اور سری لنکا کے درمیان 5 جنوری 2020 کو گوہاٹی میں ٹی ٹوئنٹی میچ کھیلا جانا تھا جو بارش کی وجہ سے رد کر دیا گیا تھا۔
اس میچ کے دوران بھی گراؤنڈ کوخشک کرنے کے لیے دنیا کے امیر ترین کرکٹ بورڈ کے زیر اہتمام ہونے والے ایونٹ میں بالوں کو خشک کرنے کے لیےاستعمال کیے جانے والے ہیئر ڈرائر اورکلاتھ آئرن (پریس) سے میدان کو
سکھایا جا رہا تھا۔ اس وقت معروف کمنٹیٹر ہرشا بھوگلے نے
ٹوئٹر پر لکھا تھا، ‘امید ہے کہ ایسا دوبارہ نہیں ہوگا’۔
یہاں یہ بتانا مناسب ہوگا کہ 5 جنوری2020 کی انہی تصاویر کو سوشل میڈیا پر نریندر مودی اسٹیڈیم کی تصویریں بتاکر شیئر کیا جارہا ہے۔
تاہم، نریندر مودی اسٹیڈیم کے افتتاح کے وقت اس کی شان میں قصیدہ پڑھتے ہوئے امت شاہ نے کہا تھا،’اسٹیڈیم میں جس طرح کا ہائی ٹیک میڈیا روم بنایا گیا ہے، مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں ہے کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا اور سب سے ہائی ٹیک میڈیا روم ہےجویہاں کھیلے جانے والے ہر کھیل کو دنیا تک پہنچانے کا کام کرے گا۔
کم از کم امت شاہ نے یہ بات تو بالکل درست ہی کہا تھا، تبھی تو اسفنج سے میدان کو خشک کرنے کی جو تصویریں چھپائی جانی چاہیے تھیں، وہ منظر عام پر آگئیں۔