گزشتہ دنوں آئی آئی ٹی روڑکی کے ایک پروگرام میں ڈسلیکسیا کو لےکر وزیر اعظم نریندر مودی کی ہنسی قومی غصے کا سبب بنی۔
بہتر ہے کہ جب کوئی بات کرو تب ہنسو
تاکہ کسی بات کا کوئی مطلب نہ رہے
اور ایسے موقعوں پر ہنسو
جو کہ اناوریہ ہوں
جیسے غریب پر کسی طاقتور کی مار
جہاں کوئی کچھ کر نہیں سکتا
اس غریب کے سوائے
اور وہ بھی اکثر ہنستا ہے
رگھوویر سہائے کی نظم ‘ ہنسو ہنسو جلدی ہنسو ‘ سے
ہنسی کی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک قسم کی ہنسی میں ہم خود پر ہنستے ہیں۔ اپنی بیوقوفی، کمزوریوں پر قہقہہ لگاتے ہیں۔ ایسی نرمل ہنسی سے انسان نفرت، حسد، تکبر، تشدد اور حسد سے پرے ہو جاتا ہے۔کارلائل کہتے ہیں، جو اچھی طرح دل کھولکر ایک بار بھی ہنس چکا ہے، وہ کبھی ایسا بد اعمال نہیں ہو سکتا، جو کبھی سدھر ہی نہ سکے۔دوسری قسم کی ہنسی ہوتی ہے جب انسان دنیاکے گھٹیاپن اور زندگی کی لمحاتی کیفیت پر ہنستا ہے، جس کو وجودیاتی ہنسی کہا جاتا ہے۔
تیسری قسم کی ہنسی ہوتی ہے جب ہم دوسروں پر ہنستے ہیں۔ یہ ہنسنے کا سب سے گھٹیا درجہ مانا جاتا ہے جب، ہم دوسرے کی بیوقوفی یا کمزوری کو اپنا نشانہ بناتے ہیں۔ گہرائی سے دیکھیں تو ایسی ہنسی میں تھوڑا تشدد شامل ہوتا ہے، انتقام کا جذبہ بھی ہوتا ہے۔آئی آئی ٹی روڑکی کے ایک پروگرام میں وزیر اعظم نریندر مودی کی ایک ایسی ہی ہنسی قومی غصے کا سبب بنی ہے، جب ڈسلیکسیا/پڑھنے کی اہلیت میں کمی/ لفظیاتی مغالطہ-حروف اور جملوں کی ترتیب اور آوازوں سے ان کی موزونیت میں معذوری یا مشکل سے ہونے والا ایک ڈس آرڈر، جس سے دنیا کے تمام بچے متاثر ہوتے ہیں-کو دور کرنے کو لےکر کسی طالبہ کے ذریعے لئے گئے پروجیکٹ کے بارے میں بات چیت کے دوران اس طالبہ کی بات کو بیچ میں کاٹتے ہوئے انہوں نے پوچھا تھا کہ کیا اس پروجیکٹ سے 40سے50 سال کے بچوں کی بھی مدد ہو سکتی ہے۔
اس کے بعد وہ ہنس دیے تھے اور جب طالبہ نے کہا کہ ‘ہاں ‘تو وزیر اعظم نے کہا، پھر ایسے بچے کی ماں بھی بہت خوش ہوگی۔ ‘ڈسلیکسیا کو لےکر ان کی اس ہنسی کو کانگریس صدر راہل گاندھی اور ان کی ماں سونیا گاندھی پر ان کے بلاواسطہ تبصرہ کے طور پر لیا گیا تھا۔یہ تو واضح ہی تھا کہ ٹی وی پر ‘لائیو’چل رہے اس پروگرام میں وزیر اعظم مودی کے اس رویے کی بڑے پیمانے پر مذمت ہوئی، نہ صرف میڈیا کے ایک حصے میں وزیر اعظم کی’غیر حساسیت’ کو نشانہ بنایا گیا بلکہ اپوزیشن پارٹیوں نے بھی ان سے اس رویے کے لئے معافی مانگنے کے لئے کہا۔
‘ دی وائر ‘پر اپنے پروگرام میں صحافی عارفہ خانم شیروانی نے اس بات کے بھی ثبوت پیش کئے کہ کس طرح 2014 کے انتخابات کی تیاری کے دوران بھی عوام کو خطاب کرتے ہوئے خاص طورپر معذور لوگوں کے متعلق توہین آمیز الفاظ کا استعمال انہوں نے کیا تھا۔اب جیسا کہ عالم ہے اپنے عہدے کے وقار کو ایک طرف رکھتے ہوئے وزیر اعظم کے اس رویے کے باوجود نہ ان کی طرف سے اس معاملے میں ابھی تک افسوس کا اظہار کیا گیا ہے اور نہ ہی ان کے پیروکاروں نے اس کی سنجیدگی کو سمجھا ہے ۔
جیسا کہ ڈسلیکسیا سے متاثرکارکن بتاتے ہیں کہ مبینہ طور پر اپنے سیاسی حریف پر گھٹیا تبصرہ والی اس حرکت کی وجہ سے ملک کے ان کروڑوں بچوں، والدین، اساتذہ اور تھیرایپسٹوں کی جدو جہد کئی سال پیچھے چلی گئی ہے۔یقینی طور پر آئین کی حلف لے کر اپنے عہدے پر بیٹھے کسی آدمی کے ذریعے-ایسا کوئی بھی رویہ بےحد قابل مذمت ہے اور خاص طورپر کسی معذور کا ایسا بھدا مذاق 2016 میں بنے Rights of Persons with Disabilities Act کی دفعہ 92 اے کی صاف صاف خلاف ورزی بھی ہے۔
اس ایکٹ کے مطابق، جو کوئی شعوری طور پر خاص طورپر کسی معذور کو عوامی طور پر ذلیل کرےگا یا ڈرائےگا تو اس کو کم سے کم چھے مہینے کی سزا ہو سکتی ہے جس کو پانچ سال اور جرمانے تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ ‘معاملہ محض یہیں پر نہیں رکا بالخصوص معذور لوگوں کے حقوق کے لئے لمبے وقت سے مسلسل جدوجہد کرنے والے ایک قومی منچ کی طرف سے اس رویے کے لئے وزیر اعظم سے معافی کی مانگ کرتے ہوئے یہ بھی کہا گیا کہ وزیر اعظم کا یہ رویہ ایک طرح سے ڈسلیکسیا سے متاثر لوگوں کا مذاق اڑانے جیسا تھا اور چونکہ اس واقعہ نے انہی کی حکومت کے ذریعے بنائے قانون کی خلاف ورزی کی ہے ، اس لیے اس کو لےکر سخت پیغام دئے جانے کی ضرورت ہے۔
مذکورہ قومی منچ ‘نیشنل پلیٹ فارم فار رائٹس آف ڈس ایبلڈ’ کی طرف سے کہا گیا کہ اس نے اپنی ریاستی اکائیوں کو حکم دیا ہے کہ وہ آزادانہ طورپر معذور لوگوں کے لئے مسلسل جدوجہد کرنے والی دیگر تنظیموں کی طرف سے مظاہرہ کریں، تاکہ کسی بھی بڑے عہدے پر بیٹھا آدمی ایسا کوئی بھی عمل آئندہ نہ کرے۔
برٹش ڈسلیکسیا تنظیم کی نائب صدر اینجیلا فاسیٹ نے کبھی بتایا تھا، ہندوستان میں تعلیم اور اکادمک پرفارمنس گھر والوں کے لئے بڑی بات ہوتی ہے، ایسے پس منظر میں اگر ڈسلیکسیا کے بارے میں ماں باپ سمجھ نہیں سکے یا اساتذہ کو بھی نشان زد کرنے کا موقع نہیں ملا تو وہ بچےکے لئے بےحد تکلیف دہ ہوتا ہے۔ لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ بچہ محنت نہیں کر رہا ہے۔ ‘
المیہ یہی ہے کہ ہندوستان میں سیکھنے میں ناکامی یا پریشانی کو بھی دماغی بیماری کے دائرے میں ڈالا جاتا ہے-جو اپنے آپ میں بالکل غلط ہے-جو ایک طرح سے اس مسئلے پر رسوائی کو بڑھاوا دیتا ہے۔یاد رہے ڈسلیکسیا-جس کے بارے میں ہم لمبے وقت تک ناواقف رہے ہیں اور جس کو دور کرنے کے لئے کئے جا رہے پروجیکٹ نے مودی کو ہنسنے کا ایک بہانہ دے دیا-دراصل سیکھنے میں پریشانی کی عام دقت ہے جو پڑھنے، لکھنے اور اسپیلنگ لکھنے میں رکاوٹ پہنچاتی ہے۔
غور طلب ہے کہ سیکھنے کی اس مخصوص مشکل سے کسی کی عقل/قابلیت پر کوئی اثر نہیں ہوتا-کے بارے میں خود حکومت ہند کی طرف سے اشارہ کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں 5 سے 20 فیصد بچے اس سے متاثر ہوتے ہیں، جبکہ ہندوستان میں یہ فیصد تقریباً 15 ہے اور اگر ہم سال 2013 میں تسلیم شدہ اسکولوں میں داخلہ لئے تقریباً 22 کروڑ 90 لاکھ طالب علموں کی تعداد کو دیکھیں تو اکیلے ہندوستان میں ایسے بچوں کی تعداد ساڑھے تین کروڑ تک پہنچتی ہے۔
ابھی زیادہ وقت نہیں ہوا ہے جب ایسی کسی بات کے لیے عوام میں بیداری آئی ہے۔ المیہ ہی ہے کہ اس حالت کی وسعت کے باوجود ہندوستان میں اس کو لےکر بیداری لانے کا سہرا ایک طرح سے بالی ووڈ کی ایک فلم ‘ تارے زمین پر ‘ کو جاتا ہے۔دھیان رہے کہ موجودہ حکومت کی تشکیل کے محض ایک سال بعد ہی سائنس اور ٹکنالوجی کے وزیر ڈاکٹر ہرش وردھن نے ایک عوامی پروگرام میں ڈسلیکسیا کے لئےتشخیص کا آلہ/ایسسمینٹ ٹولس اور سیکھنے کے اس مخصوص ڈس آرڈر کے بارے میں ایک کتاب کا رسم اجرا بھی کیا تھا۔
اسی بہانے دہلی ہائی کورٹ (5 ستمبر 2012) کے اس فیصلے کا بھی ذکر ہوا تھا جس نے تمام سرکاری،نجی اور پبلک اسکولوں کو یہ ہدایت دی تھی کہ وہ مختلف قسم کے سیکھنے کی پریشانیوں سے جوجھ رہے بچوں کی تعلیم کو آسان بنانے کے لئے اپنے آپ کو آلات سے، خاص اساتذہ سے لیس کرے۔آخر میں، ڈسلیکسیا کو لےکر ذمہ دار عہدے پر بیٹھے لوگوں کا ایسا رویہ پورے سماج کی معذوریت کے سوال کے متعلق بےرخی بھرے رخ سے بھی سمجھا جا سکتا ہے۔
مثال کے طور پر اپنے ایک اہم دستاویز’انڈرایسٹمیٹنگ ڈس ایبلٹی’میں جناب ویویک دیبرائے-جو’نیتی آیوگ’کے ممبر ہیں-نے اسی بات کی تائید کرتے ہوئے لکھا کہ ‘معذور لوگوں کی ہم نہ صحیح سے تشریح کرپا رہے ہیں اور نہ اس سچائی کو صحیح سے قبول کر رہے ہیں۔ ‘جسمانی معذوریت کو ناپنے میں برتی جا رہی ایک قسم کی’مطلق العنانیت’پر گفتگو کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ سال 1872 سے 1931 کے درمیان مردم شماری کے دوران معذوریت کو لےکر محض ایک سوال پوچھا گیا، 1941 سے 1971 کے درمیان ایسا کوئی سوال نہیں پوچھا گیا، جس سوال کو 1981 میں پوچھا گیا، اس کو 1991 میں پھر ہٹا دیا گیا۔
ان کے مطابق نشان زد کرنے والی بات ہے کہ معذوریت کو لےکر 2001 اور 2011 کے اعداد و شمار کا موازنہ بھی ممکن نہیں ہے کیونکہ معذوریت کی تعریف ایک جیسی نہیں ہے کیونکہ2001 میں پانچ قسم کی معذوریت کو لےکر سوال پوچھے گئے جبکہ 2011 میں آٹھ قسم کی معذوریت کو لےکر۔چاہے روزگار میں ان کے فیصد کی غیر-جانکاری کا معاملہ ہو یا ان کی اصل تعداد کو لےکر ہماری واقفیت، یا ان کو مذاق کے مرکز میں رکھنا ہو، یہ سوال اٹھنا فطری ہے کہ ایسا کیوں ہے۔ اس کی کئی سطح پر وضاحت ممکن ہے۔
دراصل جب تک معذوریت کو طبی نگاہوں سے دیکھا جاتا رہےگا، جسم کی خاص حالت کو ‘ابنارمل’کہا جاتا رہےگا، تب تک اسی قسم کی قیاس آرائی تک ہم پہنچیںگے۔اس تناظر میں خاص چیلنج والے افراد کے سوال پر 1978 میں شائع اپنی مشہور کتاب’ہینڈی کیپنگ امریکہ’میں معذوروں کے حقوق کے لئے جدوجہد کرنےوالے فرینک بووے جو بات کہتے ہیں، وہ غور طلب ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اصلی مدعا معذوریت کے متعلق پھر چاہے وہ پیدائشی ہو یا منتقلی-یہ ایک سماجی رد عمل کا ہے۔ اگر کوئی کمیونٹی طبعی، آرکیٹیکچرل، آمدورفت سے متعلق اور دیگر رکاوٹوں کو بنائے رکھتا ہے تو وہ سماج ان پریشانیوں کی تعمیر کر رہا ہے جو خاص طورپر معذور لوگوں کو پریشان کرتے ہیں۔دوسری طرف، اگر کوئی کمیونٹی ان رکاوٹوں کو ہٹاتی ہے تو معذور لوگ زیادہ بلند سطح پر کام کر سکتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں کہیں تو معذوریت سماجی طور پر تعمیر ہوتی ہے۔
اس گہرے احساس کے بعد کہیں یا دیگر وجہوں سے کہیں زیادہ تر ترقی یافتہ ممالک میں معذوریت کو ناپنے کا پیمانہ’سماجی وجہوں ‘ کی طرف بڑھا ہے، جس میں ان ادارہ جاتی اور سماجی نظام کو نشان زد کیا جاتا ہے، جو ایک طرح سے عام زندگی جینے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
(مضمون نگار سماجی کارکن اور مفکر ہیں۔)