پبلک ڈومین میں موجود تمام جانکاریاں ، یہ اشارہ کرتی ہیں کہ وزیر اعظم کے تشہیری نظام کا حصہ نمو ٹی وی،اپنے سگنل اپ لنک اور ڈاؤن لنک کرنے کے لئے این ایس ایس-6 سیٹیلائٹ کا استعمال کر رہا ہے، جبکہ اس کے پاس اس کا لائسنس نہیں ہے۔
ملک میں عام انتخاب کی ساری سرگرمی اور تشہیر کے درمیان اچانک نمو ٹی وی کا تنازعہ کھڑا ہو گیا۔ 24 گھنٹے وزیر اعظم نریندر مودی کے پروگرام، ان کی ریلیوں، سرکاری اسکیموں اور انتخابی تشہیر کو نشر کرنے والے اس نامعلوم ذرائع والے ٹی وی پلیٹ فارم کو لےکر اپوزیشن پارٹیوں نے مخالفت شروع کی اور کانگریس کے ساتھ عام آدمی پارٹی، الیکشن کمیشن جا پہنچے۔اپوزیشن کا کہنا تھا کہ اس چینل کے ملک کے تمام اہم ڈی ٹی ایچ پلیٹ فارمس پر نشر ہونے سے ضابطہ اخلاق اور قانون کی کھلے عام خلاف ورزی ہو رہی ہے۔اس پر سب سے پہلے ٹاٹا اسکائی کا بیان آیا۔ اپنے ایک ملازم کے ٹوئٹر پر دئے
جواب کی تردید کرتے ہوئے، جس میں نمو ٹی وی کو ایک نیوز اور کرنٹ افیئر چینل کہا گیا تھا۔
ٹاٹا اسکائی کے سی ای او ہرت ناگپال نے کہا، نمو ٹی وی ہندی نیوز سروس نہیں ہے بلکہ انٹرنیٹ مبنی سروس پرووائیڈر ہے۔ اگر ٹاٹا اسکائی کی طرف سے اس کو نیوز سروس بتاکر ٹوئٹ کیا گیا ہے تو یہ ایک غلطی ہے۔چونکہ یہ ایک خاص سروس ہے، اس لئے اس کو لائسنس کی ضرورت نہیں ہے۔ہم نے اپنی جانچ کی شروعات وزارت اطلاعات و نشریات کی ویب سائٹ سے کی تھی، جہاں ان سبھی سیٹیلائٹ چینلس کی پوری فہرست موجود ہوتی ہے، جن کو حکومت سے نشریات کا لائسنس حاصل ہوا ہوتا ہے۔
900 سے زیادہ لائسنس ہولڈر چینلس کی لسٹ میں نمو ٹی وی کا نام نہیں تھا۔
یعنی کہ تکنیکی طور پر اس نام کے کسی چینل کو کوئی لائسنس نہیں ملا تھا۔ اس چینل کے بارے میں یہ جانکاری پہلے سے تھی کہ 2012 میں بھی اس طرح کا ایک پلیٹ فارم لانے کی کوشش ہوئی تھی۔اس بیچ باقی ڈی ٹی ایچ پلیٹ فارمس کے علاوہ وزارت اطلاعات و نشریات اور دوردرشن کا رخ بھی یہی رہا کہ یہ ایک’اسپیشل سروس پلیٹ فارم ‘ہے، جس کو بنا کسی اجازت کے نشر کیا جا سکتا ہے۔ہندوستانی نشریات خدمات قوانین کے مطابق، وزارت اطلاعات و نشریات سے
لائسنس حاصل کئے بنا کوئی چینل سیٹلائٹ کے ذریعے نشر نہیں کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے، جس کے لئے سنگین اور گہرے بیک گراؤنڈ چیک کے علاوہ تمام طرح کی سکیورٹی اور اقتصادی این او سی کلیرنس چاہیے ہوتے ہیں۔
اس بنیاد پر پہلے بھی کئی چینلس پر
کارروائی ہو چکی ہے۔ حالانکہ مقامی کیبل آپریٹرس کے ذریعے کیبل(تاروں)کے ذریعے چلائے جا رہے تمام مقامی چینلس کو لےکر حکومت کا رویہ تھوڑا فیاض رہا ہے، لیکن سیٹلائٹ سے بنا سرکاری لائسنس کے کسی چینل کی نشریات نہیں ہو سکتی ہے۔ایسے میں ہم یہ جاننا چاہتے تھے کہ کیا کئے جا رہے دعووں کے مطابق، نمو ٹی وی کوئی سیٹلائٹ براڈکاسٹ نہیں ہے یا پھر معاملے میں کوئی ایسا پردہ ہے، جس کو ہم ہٹا سکتے ہیں۔
لنگسیٹ (LyngSat) اور فلائی سیٹ (FlySat) ویب سائٹس
براڈکاسٹ میڈیا میں ٹیکنیشینس، دنیا بھرکے چینلس کی لسٹنگ دیکھنے، ان کے ڈیٹا بیس میں جاکر ان کی فریکوینسی، سیٹلائٹ،سیٹلائٹ پوزیشننگ اور ڈاؤن لنکنگ انفو جاننے کے لئے سب سے زیادہ بھروسہ کرتے ہیں،
www.lyngsat.com پر، جس پر دنیا بھرکے کمیونی کیشن سیٹیلائٹس کا یہ سارا ڈیٹا موجود رہتا ہے اور لگاتار اپ ڈیٹ ہوتا رہتا ہے۔
ہم نے لنگسیٹ پر نمو ٹی وی سرچ کیا اور ہمیں وہاں پر نمو ٹی وی ملا۔ صرف یہی نہیں، اس ویب سائٹ پر نمو ٹی وی کی پہلی بار لسٹنگ/لانچنگ کی تاریخ بھی تھی، جو تھی
30 مارچ، 2019۔ اس کے ساتھ ہی،یہاں پر نمو ٹی وی کی فریکوینسی بیم اور بیکن بھی دیا گیا تھا، جو کہ یہ بتاتا ہے کہ چینل سیٹلائٹ سے کس فریکوینسی پر نشر ہو رہا ہے۔لنگسیٹ پر دستیاب جانکاری کے مطابق
نمو ٹی وی ایس ای ایس(SES) نام کی سیٹلائٹ آپریٹر کے این ایس ایس (NSS-6) نام کے سیٹیلائٹ پر نشر ہو رہا ہے۔ اس کی فریکوینسی بیکن/بیم-11037/48-56 ہے اور یہی پر اس کی باقی تکنیکی جانکاری بھی ہے، جس کے ذریعے اس کو ڈاؤن لنک کیا جاتا ہے۔لیکن ہمیں حیرانی تب ہوئی، جب ہم نے دیکھا کہ نمو ٹی وی اور ڈش ٹی وی (Dish TV) پیکیج کی فریکوینسی ایک تھی، جو کہ بنا ڈش ٹی وی کی جانکاری کے ممکن نہیں تھا۔ یعنی کہ جو وضاحت ٹاٹا اسکائی نے دی، وہ ڈش ٹی وی سے مانگی جانی چاہیے تھی۔
ساتھ ہی کئی سوال بھی اٹھے کہ کیا ڈش ٹی وی کی فریکوینسی پر ہی نشر ہونے کا مطلب ایک ہی پلیٹ فارم یا براڈکاسٹ سے نشر ہونا ہے؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ چینل دراصل ڈش ٹی وی کے بکے کا حصہ ہے؟اگر یہ ڈش ٹی وی کے بکے کا حصہ ہے، تو پھر اس کو الگ رو میں کیوں درج کیا گیا ہے؟ کیا ڈش ٹی وی اور حکومت دونوں کی جانکاری کے بغیر نشریات ہو سکتی ہے؟اس بابت ہم نے ڈش ٹی وی اور لنگسیٹ دونوں کو ای میل کیا، لیکن اسٹوری لکھے جانے تک ان کا کوئی جواب ہمارے پاس نہیں آیا تھا۔
حالانکہ وزارت اطلاعات و نشریات اور ٹاٹا اسکائی دونوں ہی یہ مسترد کرچکے تھے کہ یہ سیٹیلائٹ چینل ہے، پر لنگسیٹ پر یہ چینل درج تھا، سیٹیلائٹ کے نام کے ساتھ۔ NSS 6، لکزم برگ واقع دنیا کی لیڈنگ کمپنی ایس ای ایس ورلڈ اسکائز (SES World Skies) کے ذریعے آپریٹیڈ کمیونی کیشن سیٹیلائٹ ہے۔ لیکن ابھی بھی ہمیں ایک بار دوبارہ یہ جانچنا تھا کہ واقعی سیٹیلائٹ نشریات کی لنگسیٹ کی جانکاری صحیح ہے یا نہیں۔
فلائی سیٹ سے اور جانکاری
لنگسیٹ سے حاصل جانکاری کی ایک اور بار تصدیق کے لئے ہم نے کراس چیک کرنے کے لئے ایک اور سیٹلائٹ سرچ پورٹل
فلائی سیٹ (
https://flysat.com) پر بھی نمو ٹی وی کو سرچ کیا اور وہاں بھی یہ اسی فریکوینسی اور ڈیٹیلس کے ساتھ ملا۔ لیکن یہاں ہمیں ایک اور چیز ملی۔
یہاں پر نمو ٹی وی کے ساتھ، اس کی ویب سائٹ کا لنک بھی دیا ہوا تھا۔ فلائی سیٹ پر درج نمو ٹی وی کی
ویب سائٹ کے لنک کو کلک کرنے پر
www.narendramodi.in پر جا پہنچے۔یہی ویب سائٹ وزیر اعظم مودی کی سرکاری نجی ویب سائٹ ہے، جو نمو ایپ بھی آپریٹ کرتی ہے لیکن ہم نے اس بابت لنگ سیٹ اور فلائی سیٹ دونوں کو ہی ای میل کیا، جس میں سے یہ خبر لکھے جانے تک فلائی سیٹ کا جواب ہمارے پاس آ چکا تھا۔
فلائی سیٹ کے مطابق ان کے پاس کراؤڈسورسنگ سے یہ ڈیٹا آتا ہے۔ یہ ڈیٹا دنیا بھر میں پھیلے شوقیہ لیکن بےحد ہوشیار سیٹیلائٹ ٹریکنگ کرنے والے لوگ بھیجتے ہیں، جن میں زیادہ تر ٹکنالوجی پروفیشنلس ہیں اور شوقیہ دنیا بھرکے سیٹیلائٹ براڈکاسٹ پر الگ الگ ٹولس سے نظر رکھتے ہیں۔
ہم نے فلائی سیٹ سے پوچھا تھا،
فلائی سیٹ پر نمو ٹی وی کا ڈیٹا کس نے مہیا کروایا ہے اور آپ یہ ڈیٹا کیسے اکٹھا کرتے ہیں؟
https://www.flysat.com/95e.php فلائی سیٹ ڈیٹا کہتا ہے کہ نمو ٹی وی این ایس ایس-6 سیٹیلائٹ کے ذریعے نشر ہو رہا ہے اور اس کی فریکوینسی 11037 H ہے۔
نمو ٹی وی کا پیج کہتا ہے کہ یہ چینل ڈش ٹی وی انڈیا کی فریکوینسی سے براڈکاسٹ ہو رہا ہے۔ کیا یہ صحیح ہے؟ کیا آپ اس جانکاری کو تصدیق کرنے کے لئے کسی طرح کا کراس وری فیکیشن کر سکتے ہیں؟جواب میں فلائی سیٹ نے اپنے ڈیٹا کے اصلی ہونے کا دعویٰ کیا ہے، جس کی جانکاری آپ تصویر میں ای میل کے جواب میں دیکھ سکتے ہیں۔
حالانکہ ہم ہندوستانی براڈکاسٹ ایکسپرٹس کے رابطے میں بھی ہیں، جس سے ہم فلائی سیٹ کے ذریعے بھیجی گئی تصویروں(باکس میں دیکھیں)کو تفتیش کر سکیں۔ لیکن فلائی سیٹ نے یہ تصدیق کی کہ نمو ٹی وی کو سیٹیلائٹ سگنلس رسیو کرنے والی ڈش کے ذریعے دنیا میں کہیں بھی، کےیو (Ku) بینڈ پر دیکھا جا سکتا ہے۔یہ ڈی ٹی ایچ سروس پرووائیڈرس کے ذریعے دستیاب کرائی گئی اسپیشل سروس کی تعریف سے کہیں اور کسی طرح میل نہیں کھاتا ہے۔ اس سے ایک بڑا سوال کھڑا ہوتا ہے کہ آخر نمو ٹی وی کے مالکوں نے کیسے وہ کر دکھایا، جو آج تک ملک کے بڑے سے بڑا میڈیا ہاؤس نہیں کر سکا۔ بنا براڈکاسٹ لائسنس حاصل کئے، سیٹیلائٹ کے ذریعے دنیا بھر میں اپنی فیڈ دستیاب کرا دینا؟
لیکن مسئلہ کی جڑ یہ ہے کہ کوئی بھی آگے آکر یہ نہیں بتا رہا ہے کہ وہ یا کوئی اور نمو ٹی وی کا مالکانہ حق رکھتا ہے، کیونکہ یہ تو ممکن نہیں کہ یہ چینل، اس طرح سے، بنا کسی شخص یا تنظیم کی ملکیت کے چل رہا ہو۔بنیادی طور پر نمو ٹی وی، 2012 میں گجرات واقع نیو ہوپ انفوٹین منٹ پرائیویٹ لمیٹڈ نام کی کمپنی نے شروع کیا تھا، جس کے
پرموٹر سجئے مہتہ کے مطابق، اب ان کا نمو ٹی وی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔حالانکہ یہ انکار کرنا اب مشکل لگ رہا ہے کہ نمو ٹی وی کے نئے رنگ روپ میں پھر سے ظاہر ہونے والا ایڈیشن کا کنٹینٹ سیٹیلائٹ کے ذریعے ہی اپ لنک اور ڈاؤن لنک ہو رہا ہے اور یہ وزیر اعظم مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کو ہی وقف ہے۔
فلائی سیٹ کے ای میل سے یہ تصدیق نہیں ہو سکتی ہے کہ نمو ٹی وی کے فلائی سیٹ ڈیٹا میں وزیر اعظم کی سرکاری ویب سائٹ کے لنک کا ہونے کو کسی طرح بی جے پی یا وزیر اعظم سے جوڑا جا سکتا ہے لیکن یوٹیوب پر ایک انی میٹیڈ ویڈیو کی دکھتی ہے، جو چیزیں کافی حد تک صاف کر دیتی ہیں۔ اس ویڈیو میں نمو ایپ پر نمو ٹی وی دیکھنے کی بات کی جاتی ہے، جو کہ وزیر اعظم کا سرکاری اپلی کیشن ہے۔
اگر نمو ٹی وی سیٹلائٹ چینل نہیں ہے، تو بھی
یہی نہیں، اگر نمو ٹی وی کوئی سیٹیلائٹ چینل نہیں ہے اور محض ایک ویڈیو کنٹینٹ پلیٹ فارم ہے، جو اشتہار نشر کر رہا ہے، توبھی اس پر 11 جنوری، 2019 کا حکم نافذ ہوتا ہے، جو ‘ غیرخبریہ اور کرنٹ افیئرس کے ایونٹس کی لائیو کوریج کی عارضی اپ لنکنگ کے لئے آئی درخواستوں’کے بارے میں ہے۔
یہ حکم کہتا ہے،’صرف وہی چینل مالک/ٹیلی پورٹ آپریٹرس ہی لائیو ایونٹس کی مستقل اپ لنکنگ کے لئے درخواست کر سکتے ہیں، جن کو وزارت اطلاعات و نشریات نے اس کی اجازت دی ہے اس کے علاوہ کسی بھی ادارہ یا آدمی کو لائیو ایونٹس کی عارضی اپ لنکنگ کی اجازت نہیں ملےگی۔ ‘اگر ہم یہ بھی مان لیں کہ وزارت اطلاعات و نشریات کا یہ کہنا کہ نمو ٹی وی ایک اشتہاری چینل ہے، نہ کہ نیوز چینل، توبھی یہ واضح نہیں ہے کہ اس کو اپ لنکنگ پرمیشن کے بغیر کیسے نشر کیا جا رہا ہے۔ جبکہ وزارت کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کے پاس اس بارے میں کوئی جانکاری بھی نہیں ہے۔ یعنی کہ کسی آپریٹر یا چینل کو ایسی کوئی اجازت نہیں دی گئی ہے۔
دراصل گزشتہ سال نومبر میں ہی
وزارت نے ایک حکم جاری کرکے، اتفاقاً
نیوز اور کرنٹ افیئرس کو بھی اس طرح واضح کیا تھا،’وزارت کے اصول و ضوابط کے لئے، ایک اخبار اور کرنٹ افیئرس شو کا مطلب ایک ایسے چینل سے ہے، جس کے پروگراموں کے کنٹینٹ میں اخبار یا کرنٹ افیئرس کا کوئی بھی جزو ہو۔ ‘یہ حکم وزارت اطلاعات و نشریات سے جاری ہوا اور اس پر انڈر سکریٹری وجےکوشک کے دستخط ہیں۔
ڈی ڈی ڈی ٹی ایچ پر نمو ٹی وی اور سوالوں کی کمی
اسی بیچ سرکاری چینل، دوردرشن کے
ڈی ٹی ایچ پلیٹ فارم پر بھی فری ٹو ایئر نمو ٹی وی دیکھا جا سکتا ہے اور حکومت یا دوردرشن یہ جواب دے دیتے ہیں کہ اس طرح کے پلیٹ فارم کو کسی لائسنس کی ضرورت نہیں لیکن یہ نہیں بتاتے یا اس سے انجان بنے رہتے ہیں کہ اس پلیٹ فارم کو چلا کون رہا ہے؟ یہی نہیں الیکشن کمیشن بھی یہ نہیں جاننا چاہتا ہے کہ اس پلیٹ فارم کے پیچھے کون ہے۔ یہ ایک ضروری سوال ہے، جو سوالوں کی کمی سے پیدا ہوتا ہے۔اب تک، میڈیا انڈسٹری کو لگتا تھا کہ کچھ ‘اسپیشل سروس ‘کے پینچ اس لئے ڈھیلے چھوڑے گئے تھے کہ ڈی ٹی ایچ آپریٹر اس کو تجارتی مقاصد کے لئے استعمال کر سکیں۔ حالانکہ ابھی تک کسی دیگر ڈی ٹی ایچ آپریٹر سے تجارتی مقابلہ کے لئے اس طرح کے تھرڈ پارٹی کنٹینٹ کا استعمال کرنے کا کوئی واقعہ نہیں ہے، کیونکہ اس کو لےکر بھی سخت ہدایات ہیں۔
لیکن اگر حکومت کا یہ کہنا ہے کہ
نمو ٹی وی جیسی پیڈ نیوز اور کرنٹ افیئرس سروس، ڈی ٹی ایچ آپریٹرس کو ادائیگی کرکے، لوگوں کے گھروں میں پہنچائی جا سکتی ہے، تو آخر اسی بنیاد پر کسی نیوز چینل کوبغیر براڈکاسٹ لائسنسنگ کی کارروائی مشکل کئے، پیڈ نیوز کنٹینٹ نشر کرنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟نمو ٹی وی کے پیڈ اشتہار پلیٹ فارم ہونے کی منظوری کے بعد-جیسا کہ ڈی ٹی ایچ پلیٹ فارمس نے مانا ہے-وزارت اطلاعات و نشریات کے اس نظریے کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی، سیدھے طور پر ‘
عوامی نمائندگی ایکٹ کے سیکشن 126 ‘ کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔
یہ ایکٹ ہندوستان میں انتخابی عمل کا سب سے بنیادی قانون ہے۔ اس کے مطابق اگر یہ پلیٹ فارم 9 اپریل، 2019 کی شام کے بعد تک متحرک رہتا ہے، تو یہ غیر قانونی ہے۔ قانون، آپ ووٹنگ مکمل ہونے کے 48 گھنٹے سے پہلے سے کسی بھی طرح کے
الکٹرانک میڈیا کا استعمال انتخابی تشہیر کے لئے نہیں کر سکتے ہیں اور پہلے مرحلے کی رائے دہندگی 11 اپریل کو ہے۔اس بارے میں حزب مخالف پارٹیاں پہلے ہی الیکشن کمیشن میں شکایت درج کرا چکی ہے، تو کمیشن کو پہلے سے نمو ٹی وی کے بارے میں پتہ ہے۔ ایسے میں یہ قانون کی خلاف ورزی کمیشن کی جانکاری کے بغیر نہیں ہوگا۔
اس پر سارے سوالوں کے جواب سامنے ہونے چاہیے۔ الیکشن کمیشن سے حکومت تک کو اس معاملے پر سنجیدہ ہونا چاہیے کیونکہ اگر یہ جھوٹ ہے تو کمیشن، حکومت اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے لئے یہ ملک کے آئین اور ان کے اپنے وقار کا سوال ہونا چاہیے۔ساتھ ہی یہ نجی ڈی ٹی ایچ آپریٹرس کے لئے بھی بھروسے کا سوال ہونا چاہیے۔ اگر یہ ڈیٹا سچ ہے، تو یہ اور سنگین صور ت حال ہے اور الیکشن کمیشن ہی نہیں، ایک شہری کے طور پر آپ کو بھی جمہوریت کے مستقبل کے بارے میں سوچنا ہوگا۔
(مضمون نگار جلدہی آنے والے ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارم ٹرتھ اینڈ ڈیئر کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔)