سہ روزہ کنڑ ساہتیہ سمیلن جمعہ کو وزیر اعلیٰ بسوراج بومئی کے آبائی ضلع ہاویری میں شروع ہوا۔ کنڑ ساہتیہ پریشد نے جب کنونشن میں حصہ لینے والے ادیبوں اور شاعروں کے ناموں کا اعلان کیا تو کچھ ادیبوں نے مسلم ادیبوں کو فہرست سے باہر رکھنے پر اعتراض کیا اور خود اس ادبی کانفرنس کا حصہ بننے سے انکار کردیا۔
نئی دہلی: کنڑ ادیبوں کے ایک طبقے نے الزام لگایا ہے کہ کرناٹک کے ہاویری میں کنڑ ساہتیہ سمیلن میں مسلم ادیبوں اور شاعروں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
کنڑ ساہتیہ پریشد نے جب کانفرنس میں حصہ لینے والے ادیبوں اور شاعروں کے ناموں کا اعلان کیا تو کچھ قلمکارو ں نے مسلمان ادیبوں کو فہرست سے باہر رکھنے پر شدیداعتراض کیا۔ انہوں نے دسمبر 2022 میں اخبار کو بتایا کہ ریاست میں سینکڑوں مسلمان کنڑ ادیب ہیں، حالانکہ کانفرنس کے لیے چند ہی لوگوں کے نام پر غور کیا گیا ہے۔
نیوانڈین ایکسپریس کے مطابق، کچھ سینئر کنڑ ادیبوں نے اخبار کو بتایا کہ وہ مسلم ادیبوں کو نظر انداز کرنے کے خلاف8 جنوری کو بنگلورو واقع کے آر سرکل کے ایلومنائی ہال میں ایک متبادل لٹریچر فیسٹیول ‘جن ساہتیہ سمیلن’ کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔
تاہم آرگنائزنگ کمیٹی کے ایک رکن نے اخبار کو بتایا،’چھ مسلم ادیب اور شاعر ہاویری کانفرنس کا حصہ ہیں۔ کنڑ کے اس بڑے پروگرام کے دوران تنازعہ کھڑا کرنا کچھ لوگوں کی عادت بن گئی ہے۔
سہ روزہ ادبی کانفرنس جمعہ (6 جنوری) کو چیف منسٹر بسوراج بومئی کے آبائی ضلع ہاویری میں شروع ہوئی۔
نیوز منٹ کی رپورٹ کے مطابق، اس کانفرنس کو کرناٹک حکومت کی طرف سے مالی امداد فراہم کی جاتی ہے اور ادبی اجلاس سمیت اس کی سرگرمیوں کو ٹیکس دہندگان کے پیسے سے فنڈ کیا جاتا ہے۔
دی ہندو کے مطابق، کچھ مصنفین نے الزام لگایا ہے کہ انتخابی عمل کے اہم اجلاس سے خواتین مصنفین اور مسلمانوں کو بھی باہر رکھا گیا ہے۔ وہ احتجاج کے طور پر اس پروگرام میں شرکت نہیں کر رہے ہیں۔
اخبار نے اطلاع دی ہے کہ ایچ آر سجاتا، جو کانفرنس میں ایک شعری نشست کی صدارت کرنے والی تھیں، نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس تقریب میں شرکت نہیں کریں گی۔ اپنے خط میں انہوں نے کہا کہ وہ دیکھ سکتی ہیں کہ ‘مسلم مصنفین کو جان بوجھ کر پینل سے باہر رکھا گیا ہے’۔
اخبار کے مطابق انہوں نے یہ اعلان مختلف ادبی نشستوں کی تفصیلات شائع ہونے کے فوراً بعد کیا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ چند پاشا این ایس، جو پینل کے چند مسلم مصنفین میں شامل تھے، نے بھی اس ادبی کانفرنس کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پریشد مصنفین کے ساتھ مذہب، ذات پات اور جنس کی بنیاد پر امتیازی سلوک کر رہی ہے، وہ بھی ہاویری میں، جسے ششونالا شریف اور کنک داس کی سرزمین کہا جاتا ہے۔
ایک اور شاعر رمیش ارولی نے بھی کانفرنس سے دور رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔
کنڑ کے اسکالر اور پروفیسر، پروشوتم بلیمالے نے فیس بک پر لکھا ہےکہ اس تقریب سے مسلمان مصنفین کو باہر رکھناکوئی حادثہ نہیں ہے، بلکہ اس بات کی عکاسی ہے کہ کس طرح کچھ ادیبوں کو تاریخی طور پر ادبی کنونشن سے باہر رکھا جا رہا ہے۔
انہوں نے کنڑ ادب میں قابل ذکر مسلم مصنفین کی فہرست بھی شائع کی اور انہیں اس تقریب میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
(اس رپورٹ کوانگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)