سالہا سال گزر گئے، لیکن متاثرین کی یادوں میں وہ سانحہ ابھی بھی موجود ہے۔ 6 دسمبر 1992 کے بعد ملک کے کئی حصوں میں بھڑک اٹھے فسادات کے دیگرمتاثرین کی طرح، انصاف پانے کی ان کی امیدیں بھی موہوم پڑ گئی ہیں۔
Photo Credit : Sudharak Olwe
عدالت سے روانگی کی تیاری کرتے غلام محمد فاروق شیخ نے 500روپے اپنی جیب میں رکھے۔ ان کے دوسرے ہاتھ میں چمکیلے ہرے رنگ کی پلاسٹک کی تھیلی ہے، جس پر سنہری رنگ کے ڈاٹس بنے ہیں۔ سرکاری وکیل رتناولی پاٹل کو وہ مطلع کرتے ہیں کہ 16 دسمبر کو ہونے والی اگلی شنوائی میں وہ شاید نہ آ پائیں، کیونکہ انہیں ایک شادی میں شرکت کرنے امبے جوگئی جانا ہے۔ جنوری 1993 میں ہوئے دنگوں کے بدنام زمانہ سلیمان عثمان بیکری کیس، جس پر گنتی کے صحافیوں اور متعلقہ پارٹیوں کا سرسری سا دھیان ہے، اس میں وہ تیسری بار گواہی دینے آئے تھے۔ 68 سالہ شیخ بتاتے ہیں کہ انہیں دل کا عارضہ ہے اور پرانی بلڈنگ میں واقع عدالت کی تیسری منزل تک پہنچنے میں انہیں دقت ہوتی ہے۔
سردی سےحفاظت کے لیے بھی انہیں چھوٹی گولیاں لینی پڑتی ہیں۔ انہیں انتظار ہے کہ 26 نومبرکو عدالت ملتوی کرنے کے متعلق ملزمین کی درخواست پر جج صاحب کوئی فیصلہ لیں۔ عدالت ملتوی ہونے کی صورت میں جج صاحب نے 1500 روپے کی رقم طے کر رکھی ہے، اس معاملے میں اس کے علاوہ اور کوئی چھو ٹ نہیں ہے، سو وہ اور دو دیگر گواہان کو ان کے سفر کےاخراجات حاصل ہو ہی جاتے ہیں۔ یہ دو دوسرے گواہان پولیس والے ہیں۔
اس معاملے کے سات ملزمین پولیس اہلکار ہیں، اس دن ان ملزمین کا وکیل شری کانت شیواڈے غیر حاضر تھا۔ اس سے پہلے گواہان کو مختلف وجوہات سے واپس لوٹایا جاتا رہا؛ ایک کو اس لیے کہ وہ دیر سے عدالت پہنچا تھا، ایک بار ملزم پولیس اہلکار بیمار پڑ گیا اور وہ عدالت نہ آ سکا، ایک گواہ جس کے بیان ہونے تھے، اس کےوالد فائرنگ کے دوران فوت ہو گئے۔ ہر بار ہونے والی اس طرح کی دیر سے برہم ایڈیشنل سیشن جج یو ایم پڈواڈ نے جب سخت آرڈر جاری کیے، تب کیس میں کچھ پیش رفت نظر آنے لگی۔جنوبی ممبئی کی ایک مشہور بیکری اور اس کے قریب موجود مدرسے میں ہوئے اس لرزہ خیزواقعہ کو 27 سال ہونے کوآئے۔ 1992-93 کے ممبئی فسادات کی جانچ کرنے والے جسٹس سری کرشنا کمیشن کی رپورٹ میں اس واقعے کی تفصیلات درج ہیں۔
اس کے باوجود کیس کی اذیت ناک طوالت کو اور طول دیا جا رہا ہے، جس میں بری کیے جانے والے ملزمین کی تعدادسزا پانے والوں سے زیادہ ہے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ انصاف کی امید پالے متاثرین کو ابھی اور انتظار کرنا ہے۔ اب تک اس معاملے میں پانچ گواہان کے بیانات ہو چکے ہیں، جس کے موقعے کا پنچ نامہ سنہ 2001 میں بنایا گیا تھا۔ مقدمے کا پہلا چشم دید گواہ بھی اپنے بیان سے منحرف ہو چکا ہے۔ دیگر ثبوتوں کا یہ عالم ہے کہ پولیس کنٹرول روم سےمتعلق وائرلیس سیٹس کی رکارڈنگ کے پرانے ٹیپ سننے کے لیے ٹیپ رکارڈر میسر نہیں تھے، جس سے انہیں سننے میں پریشانی آتی رہی۔ کنٹرول روم کی لاگ بکس تب تک پیش نہیں کی گئیں، جب تک کہ جج نے ایک وارننگ آرڈر جاری نہ کی۔ اب سالوں بیت جانے کے بعدگواہان کے لیے اس وقت کے واقعات کو یاد کرنا مشکل ہو گیا ہے۔
اسی طرح وائرلیس آپریٹرس کو بھی تب نوٹ کیے گئے پیغامات پڑھنے میں دقت آ رہی ہے۔ عدالت میں پیش کیے گئے پہلے گواہ محمد فاروق محمد فاضل نےبتایا کہ وہ جوتے چپل بیچتا تھا۔ یہ واحد بات تھی جو اس نے قبول کی۔ یکم جون 2001کو جب پولیس اس کے پاس پہنچی اور اس سے پنچ نامے پر دستخط کرنے کو کہا، تو اسے پتہ نہیں تھا کہ اس میں کیا لکھا ہوا ہے۔ اسے تو یہ بھی علم نہیں تھا کہ سنہ 1993 میں بیکری میں ہوا کیا تھا۔ اپنے بیانات میں اس نے ہر بات سے انکار کر دیا۔ ایک اورگواہ دلیپ وامن راو نکلے اب 64 سال کا ہوگیا ہے۔ یہ ریٹائرڈ وائرلیس آپریٹر، واقعے والے دن کنٹرول روم میں ڈیوٹی پر تھا اوراس نے لاگ بک [عدالت میں اصل پیش کی گئی] کے اندراجات کو پہچان لیا۔ ان پیغامات کی روشنائی دھندلی پڑ چکی ہے اور نکلے کے مطابق ان میں سے 100 سے 150 مطابق معمول کےمطابق والے تھے۔
اس وقت کنٹرول روم میں آٹھ یا نو وائرلیس سیٹس موجود تھے۔ فسادات کے دوران پائیدھونی اور ڈونگری میں وقتی طور پر اضافی وائر لیس سیٹس کا انتظام کیاگیا تھا۔ اس وقت کئی علاقوں سے پولیس پر فائرنگ کیے جانے کے پیغامات تھے۔ نکلے اوردیگر وائرلیس آپریٹرس نے اس ہنگامی صورتحال میں پیغامات کی بہتات قبول کی۔ 9 جنوری 1993 کو سلیمان عثمان بیکری میں فائرنگ کا واقعہ ہوا۔ بابری مسجد مسمار کیے جانے کے بعد دسمبر 1992 سے جاری دنگوں میں کم از کم 500لوگ مارے جا چکے تھے اور تشدد کا دور جاری تھا۔ دسمبر اواخر میں سر پر بوجھ ڈھونےوالے ایک شخص کا پائیدھونی میں قتل کر دیا گیا۔ جنوری میں ایسے چار قتل اور ہو گئے۔انہیں شیو سینا نے فرقہ وارانہ رنگ دے دیا۔ اس سے دنگے اور بھڑک اٹھے۔ 9 جنوری کی صبح ایسی رپورٹس آئیں کہ سلیمان عثمان بیکری والے علاقے میں پرائیویٹ فائرنگ ہوئی ہے۔
تب پولیس کے جوائنٹ کمشنر [کرائم] رام دیو تیاگی کی قیادت میں ایک پولیس ٹیم وہاں پہنچی۔ پوری طرح مسلح اسپیشل آپریشن اسکواڈ [ایس او ایس]کے جوان بیکری میں گھسے اور فائرنگ کھول دی۔ اس میں نو لوگوں کی موت ہو گئی۔ سری کرشنا کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ “ثبوتوں کا اچھی طرح جائزہ لینے کے بعد کمیشن اس نتیجےپر پہنچا ہے کہ پولیس کی کہانی قابل اعتبار نہیں ہے۔” تیاگی نے اپنے بیان میں بیکری میں گھسنے اور فائرنگ کے آرڈردینے کا انکار کیا۔ معاملے میں مہاراشٹر سرکار کی اسپیشل ٹاسک فورس [ایس آئی ٹی]نے 18 پولیس اہلکاروں کے خلاف کیس درج کرایا، لیکن ٹرائل کورٹ میں تیاگی سمیت 9لوگ سنہ 2003 میں بری ہو گئے۔ اس وقت کے سرکاری وکیل نے کہا کہ عدالت کے اس فیصلےکو چیلنج کرنے کے لیے مطلوبہ ثبوت موجود نہیں ہیں۔ باقی بچے پولیس اہلکاروں کےخلاف ٹرائل کورٹ نے کارروائی کرنے کے احکامات دیے۔
جن میں سے سات [دو فوت ہو چکے ہیں]سیشن کورٹ میں مقدمے کا سامنا کر رہے ہیں۔ متاثرین میں سے ایک نورالہدیٰ مقبول احمد بیکری کے ساتھ لگےمدرسے میں مدرس تھے۔ انہوں نے تیاگی و دیگر ملزمان کے ڈسچارج کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا کہ بیکری میں کی گئی فائرنگ غیر ضروری تھی، لیکن ان پولیس اہلکاروں کے خلاف ثبوت ناکافی تھے۔ نورالہدیٰ سپریم کورٹ تک گئے، وہاں بھی 2011 میں ہائی کورٹ کا فیصلہ ہی برقرار رہا۔2012 میں مایوسی کے عالم میں ان کی موت ہو گئی۔نورالہدیٰ کا جوان بیٹا عبدالصمد موبائل ٹھیک کرنے کی دکان چلاتا ہے۔ اسے بس اتنا یادہے کہ سلیمان عثمان بیکری سانحے میں اس کے والد کا پیر زخمی ہو گیا تھا۔ یہ زخم تاعمر ہرا رہا۔ جہاں تک بیکری مالک محمد عبدالستار کا سوال ہے، اس فائرنگ میں ان کے پانچ ورکرس مارے گئے۔ اس سانحے کی باتوں کو وہ اب نظر انداز کرتے ہیں۔
ان کےکئی ورکرس کو دنگوں کا ملزم بنایا گیا، حالانکہ وہ بعد میں چھوڑ دیے گئے۔عبدالستار نے دو سالوں میں اپنا بزنس پھر جما لیا۔ ایک بے حد مصروف شاہراہ کےکنارے واقع اپنی بیکری میں شام کو وہ دوستوں کے ساتھ اکثر گپ شپ کرتے نظر آتے ہیں۔سالہا سال گزر گئے، لیکن متاثرین کی یادوں میں وہ سانحہ ابھی بھی موجود ہے۔ 6 دسمبر 1992 کے بعد ملک کے کئی حصوں میں بھڑک اٹھے فسادات کے دیگرمتاثرین کی طرح، انصاف پانے کی ان کی امیدیں بھی موہوم پڑ گئی ہیں۔ اس بیچ عدالت میں کیس چل رہا ہے۔ 16 دسمبر اگلی تاریخ ہے، جب کچھ گواہان اور پیش ہوں گے۔
(مینا مینن سینئر صحافی اور Riots and after in Mumbai کی مصنفہ ہیں۔ انگریزی سے ترجمہ: جاوید عالم)