خصوصی رپورٹ : راجستھان کے کئی شہروں اور قصبوں میں کچھ مظاہرے 8 سے 10سالوں سے چل رہے ہیں۔ اس بیچ بی جے پی اور کانگریس کی حکومتیں آئیں اور گئیں، لیکن کسی حکومت نے ان لوگوں کی شکایتوں کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔
راجستھان کے جئے پور میٹل اینڈ الکٹرکلس کمپنی کے ملازم 13 سال سے زیادہ عرصے سے مظاہرہ کر رہے ہیں۔ (فوٹو : مادھو شرما)
جئے پور : ملک میں انتخاب ہو رہے ہیں۔ ہرطرف جمہوریت، شہری حقوق، آئین کے تحفظ اور ترقی جیسے لفظ کئی طرح کے نعروں کے ساتھ ہر روز سنائی دے رہے ہیں، لیکن دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ان الفاظ کو صحیح معنوں میں زمین پر اتارنے میں تقریباً ناکام ہی رہی ہے۔صحت مند جمہوریت میں آئینی حق کے طور پر ملک کے شہریوں کو ملے پُر امن طریقے سے مخالفت، دھرنے اور مظاہرے کے ساتھ انہی شہریوں کے ذریعے چنی گئی حکومتوں کا رویہ کیسا رہا ہے، یہ راجستھان میں پچھلے کچھ سالوں سے چل رہے دھرنا پر سرکاری بے حسی سے پتہ چلتا ہے۔
ریاست میں جئے پور میٹل اینڈ الکٹرکلس لمیٹڈ کے مزدور، نول گڑھ میں سیمنٹ فیکٹری کے لئے حصول اراضی کے خلاف کسانوں کا دھرنا، چتوڑ گڑھ میں افیون کسانوں کی افیون کے پٹےبڑھانے کی، نیم کاتھانا میں حصول اراضی اور غیر قانونی کھدائی کے خلاف سالوں سے مقامی لوگ دھرنا پر بیٹھے ہیں۔اس کے علاوہ کئی قصبوں اور گاؤں میں چھوٹے-چھوٹے دھرنے-مظاہرے چل رہے ہیں، لیکن سرکاری نمائندوں اور چنے ہوئے عوامی نمائندوں نے ہمیشہ جمہوریت میں حکومتوں کی مخالفت کے لئے شہریوں کو ملے اس غیرمتشدد ہتھیار کو نظرانداز ہی کیا ہے۔
13 سال سے لگاتار چل رہا جئے پور میٹل مزدوروں کا دھرنا
5048 دن محض ایک تعداد نہیں ہے۔ 13 سال سے زیادہ کے عرصے میں 1500 سے زیادہ مزدوروں کی امیدیں، جدو جہد، انصاف اور جمہوریت کے تئیں اعتماد اور عقیدہ بھی چھپا ہوا ہے۔جئے پور میں چلنے والی میٹل کمپنی کے سیکڑوں مزدور لگاتار13 سال سے اپنی بقایا تنخواہ-بھتہ اور انصاف کی مانگ کو لےکر دھرنا پر بیٹھے ہیں۔ حالانکہ ان کی جدو جہد گزشتہ19 سال سے جاری ہے۔جئے پور میٹل کو ستمبر 2000 میں کسی پیشگی اطلاع کے بغیر اچانک بند کر دیا گیا۔ یہاں کام کرنے والے 1558 مزدوروں کو نہ تنخواہ دی گئی اور نہ ہی ان کے بھتوں کی ادائیگی کی گئی۔
آج ان مزدوروں میں سے 350 سے زیادہ کی غریبی اور جدو جہد سے جوجھتے ہوئے موت ہو چکی ہے۔ وہیں، 550 سے زیادہ مزدور سبکدوشی کی عمر تک پہنچ گئے ہیں۔ 12 مزدوروں نے مفلسی کی وجہ سے خودکشی کر لی تو چار مزدوروں نے گرہستی نہ چلا پانے کی شرم سے گھر ہی چھوڑ دیا۔مزدوروں کا الزام ہے کہ کارخانے کی آدھی سے زیادہ زمین کو سرکاری افسروں نے سستی شرحوں پر بیچ دیا جس پر ایک رہائشی احاطہ بنایا جا چکا ہے، لیکن اس پیسے سے کارخانے کو چالو نہیں کیا گیا۔
جئے پور میٹل اینڈ الکٹرکلس مزدور یونین کے جنرل سکریٹری کنہیا لال شرما کہتے ہیں،’پچھلے 19 سال سے ہم مزدور کمپنی کو بند کرنے کی مخالفت کر رہے ہیں اور گزشتہ 13 سال سے تو لگاتار کمپنی کے گیٹ کے سامنے دھرنا پر بیٹھے ہیں۔ سامنے کی سڑک سے راجستھان کے کتنے ہی وزیر اور وزیراعلیٰ ہزاروں بار گزر چکے ہیں، لیکن ہم مزدوروں کی طرف کسی نے جھانککر بھی نہیں دیکھا۔ پیسوں کی کمی کی وجہ سے کتنے ہی مزدوروں کی ذہنی حالت خراب ہو گئی۔ ‘کنہیا آگے بتاتے ہیں،’ہر روز ہم کچھ مزدور صبح نو بجے دھرنا پر آ جاتے ہیں اور شام 5 بجے تک یہی بیٹھے رہتے ہیں۔ یہ ہمارا عدلیہ اور جمہوریت میں عقیدہ ہے کہ ہم غیرمتشدد طریقے سے اپنی مخالفت درج کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ میں چل رہے مقدمہ کے فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں۔ ‘
مارچ مہینے میں دھرنا کے 5000 دن پورے ہونے پر مزدوروں کی جماعت راجستھان کے نقل وحمل وزیر پرتاپ سنگھ کھاچریاواس سے ملا اور مانگ کی کہ سپریم کورٹ کے حکم کے تحت قومی کمپنی لا ٹریبونل کے نمائندے کو سماعت کے لئے اس معاملے کو سونپا جائے اور ساتھ ہی کارخانے کو پھر سے شروع کیا جائے۔کنہیا لال شرما بتاتے ہیں،’2005 میں مقامی میڈیا میں خبریں شائع ہونے کے بعد ہم مزدوروں کو آخری بار 11 مہینے کی تنخواہ ملی تھی۔ اس کے بعد کارخانے کو پھر سے چلانے کے لئے ایک پرائیویٹ کمپنی سے حکومت نے قرار بھی کیا لیکن کچھ نہیں ہوا۔ جب کارخانہ بند ہو رہا تھا تب اس وقت کے وزیراعلیٰ بھیروں سنگھ شیکھاوت نے کارخانے کو چلانے کے لئے 20 کروڑ روپے جاری کئے تھے لیکن وہ رقم آج تک جاری ہی نہیں ہو پائی ہے۔ ‘
واضح ہوکہ جئے پور میٹل کارخانہ 56000 مربع گز زمین پر بنا ہے اور زمین کی موجودہ قیمت تقریباً 300 کروڑ روپے ہے۔ مزدوروں کا کہنا ہے کہ کارخانے کے پاس اتنی جائیداد ہے کہ اس کو پھر سے چالو کیا جا سکتا ہے۔ اگر حکومت اس کو پھر سے چالو نہیں کروانا چاہتی تو پہلے سے کام کر رہے مزدوروں کی محنت کی تنخواہ اور بھتوں کی ادائیگی کر دی جائے۔راجستھان کے سینئر صحافی جتیندر سنگھ شیکھاوت کہتے ہیں،’کارخانہ بند ہونے کے بعد ان مزدوروں کی حالت بےحد خراب ہو گئی۔ ان کے پاس علاج کے لئے پیسے نہیں تھے، لڑکیوں کی شادی نہیں ہو رہی تھی، اسکولوں میں پڑھ رہے ان کے بچوں کی پڑھائی بند ہو گئی۔ تب میں نے 2005 میں’روز قبر تک آتی ہیں زندہ لاشیں’ کے عنوان سے خبر شائع کی اور پوری سیریز چلائی۔ اس کے بعد ان کو 11 کروڑ روپے تنخواہ کے ملے۔ آج بھی یہ لوگ دھرنا پر بیٹھے ہیں۔ رہنماؤں نے ان مزدوروں کا خوب فائدہ تو اٹھایا لیکن ان کے لئے کچھ نہیں کیا۔ ‘
نول گڑھ میں حصول اراضی کے خلاف کسانوں کا ساڑھے آٹھ سال سے دھرنا
راجستھان کے جھنجھنوں ضلعے کے نول گڑھ میں سیمنٹ کارخانہ کے لئے زمین کے حصول کی مخالفت میں 18 گاؤں کے لوگ پچھلے 3160 دنوں یعنی 8 سال 8 مہینوں سے دھرنا دے رہے ہیں۔ 2007 میں نول گڑھ کے 18 گاؤں کی 72000 بیگھہ زمین کو تین سیمنٹ فیکٹریاں شری سیمنٹ، الٹراٹیک سیمنٹ اور انڈیا سیمنٹ لمیٹڈ کے لئے حصول کرنے کی نوٹس کسانوں کو ملا۔ ان گاؤں کے 50 ہزار سے زیادہ کسانوں کی اُپجاؤ زمینیں جا رہی ہیں۔
راجستھان کے جھنجھنوں ضلعے کے نول گڑھ میں سیمنٹ فیکٹری کے لئے زمین کے حصول کی مخالفت میں 18 گاؤں کے لوگ 8 سال سے زیادہ وقت سے دھرنا دے رہے ہیں۔ (فوٹو : مادھو شرما)
بھومی ادھی گرہن ورودھی کسان سنگھرش سمیتی کے بینر تلے دئے جا رہے اس دھرنا کے کنوینر کیپٹن دیپ سنگھ شیکھاوت کہتے ہیں،’یہاں تین سیمنٹ کارخانہ کے لئے زمین کا حصول کیا جانا تھا۔ کسانوں کی مخالفت کی وجہ سے ایک کمپنی تو واپس چلی گئی لیکن باقی دو کمپنیاں سستی شرح پر زمینیں لے رہی ہیں۔ علاقے میں زمینیں لینے کے لئے کمپنیوں نے شروعات میں 1.90 لاکھ روپے فی بیگھہ کا معاوضہ دیا تھا لیکن اب پریشانی آنے پر اس کو بڑھاکر 8.35 لاکھ روپے فی بیگھہ کر دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی الٹراٹیک جیسی کمپنی نے زمین کی مانگ 45 ہزار بیگھہ سے گھٹاکر 4 ہزار بیگھہ کر دی ہے۔ ‘
شیکھاوت بتاتے ہیں،’ہم نے کسانوں کو بیدار کرنے اور زمین کے حصول کے خلاف دھرنا شروع کیا تھا۔ کمپنیوں کے پینتروں سے تنگ آکر تقریباً45 فیصدی کسانوں نے اپنی زمینیں بیچ بھی دی ہیں۔ ہم دھرنے کے ذریعے بتانا چاہتے ہیں کہ جمہوریت میں شہری اگر کوئی جائز مانگ کو لےکر بیٹھتے ہیں تو انتظامیہ، عوامی نمائندوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کو سنیں۔گزشتہ ساڑھے آٹھ سال میں کانگریس و بی جے پی دونوں حکومتوں نے نہ تو کھلکر ہماری حمایت کی اور نہ ہی سیمنٹ کارخانہ کی مخالفت کی ہے۔ ہمارے دھرنا سے یہ ثابت ہو گیا کہ اس ملک میں شہریوں کو دیکھنے او رسننے والا کوئی نہیں ہے۔ ‘حالانکہ حکومت نے دسمبر 2018 میں الٹراٹیک کمپنی کو دی جا رہی 989 ہیکٹیئر زمین میں سے 555 ہیکٹیئر کسانوں کو واپس لوٹانے کا حکم جاری کیا ہے۔
سیکر میں کریسنگ یونٹ کی مخالفت میں چھ سال سے عام لوگوں کا دھرنا
سیکر ضلعے کے نیمکاتھانہ کے مہوا اور بھرالا گاؤں میں کریسنگ یونٹ لگانے کی مخالفت میں کسان اور عام شہری چھ سال سے بھی زیادہ وقت سے جدو جہد کر رہے ہیں۔ان دونوں گاؤں کی قریب 2400 بیگھہ زراعتی زمین کا حصول کر کے حکومت نے کریسنگ یونٹس لگانے کی اجازت دے دی۔ کسانوں نے اس کی مخالفت کی اور 2013 سے دونوں گاؤں کے قریب چار ہزار لوگ اس کے خلاف جدو جہد کر رہے ہیں۔
راجستھان کے سیکر ضلعے کے نیمکاتھانہ کے متھوا اور بھرالا گاؤں میں کریسنگ یونٹ لگانے کی مخالفت میں کسان اور لوگ چھ سال سے بھی زیادہ وقت سے جدو جہد کر رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)
اسی طرح نیمکاتھانہ تحصیل کے ٹوڈا گاؤں میں گوچر زمین پر کھدائی پٹے جاری کرنے کے خلاف 1304 دن سے دھرنا پر بیٹھکر مخالفت کر رہے ہیں۔ٹرین کے رد ہونے کے اعداد و شمار میں اضافہ، پانچ سال میں ہر دن صرف 1.75 کلومیٹر نئے ٹریک بچھائے گئےدھرنا کنوینر ہری سنگھ کے مطابق چراگاہ کی زمین پر انتظامیہ نے اصولوں کے خلاف جاکر پانچ کھدائی پٹے جاری کر دئے جبکہ گوچر زمین پر اس طرح کی سرگرمیاں نہیں کر سکتے۔ گاؤں والوں کی مخالفت کے بعد کھدائی شروع تو نہیں ہوئی لیکن پٹے رد بھی نہیں کئے گئے ہیں۔ آج بھی سرکاری کاغذات میں یہ زمین چراگاہ کی بتائی ہوئی ہے۔
نیشنل الائنس آف پیپلس موومینٹس، راجستھان کے کنوینر کیلاش مینا کہتے ہیں،’نیمکاتھانہ میں غیر قانونی کھدائی اور زراعت کی زمین پر کریسنگ یونٹ لگانے کی مخالفت میں دیہی سالوں سے جدو جہد کر رہے ہیں لیکن اب دھرنا-مظاہرہ کو حکومت سنجیدگی سے نہیں لیتی۔ پولیس-انتظامیہ جب دل کرتا ہے اٹھا کر جیل میں ڈال دیتا ہے۔ میرے اوپر پانچ بار جان لیوا حملے ہو چکے ہیں، کئی بار جیل میں بنا کسی وجہ بھیجا جا چکا ہوں، لیکن صحت مند جمہوریت میں شہریوں کے پاس مخالفت کا سب سے اچھا طریقہ دھرنا-مظاہرہ ہی ہے اور اس کو ہم نہیں چھوڑیںگے۔ ‘
افیون کی کھیتی کے پٹے بڑھانے کی مانگ، 525 دن کلکٹریٹ کے سامنے چلا دھرنا
چتوڑ گڑھ میں کلکٹریٹ آفس کے سامنے لگاتار 525 دن افیون کی زراعت کرنے والے کسانوں نے دھرنا دیا۔ کسی نتیجہ پر پہنچے بغیر یہ دھرنا ختم کر دیا گیا۔افیون کسانوں کی مانگ ہے کہ نئی افیون پالیسی کے تحت کم کئے گئے پٹوں کی تعداد بڑھائی جائے تاکہ افیون پٹوں سے محروم رہے تقریباً80 ہزار کسانوں کو فائدہ ہو سکے۔ افیون پالیسی میں بڑھائی گئی مارفن کی حد کو کم کیا جائے۔ اس سے پہلے یہ کسان 2014 میں دہلی میں جنتر منتر پر بھی لگاتار ایک سال دھرنا دے چکے ہیں۔525 دن لگاتار دھرنا دینے کے بعد کسی نے بھی ان کسانوں کی مانگوں کو سنا تک نہیں۔ بھارتیہ افیم کسان وکاس سمیتی کے قومی صدر رامنارائن جاٹ بتاتے ہیں،’یو پی اے حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہمارے پٹے کم کئے گئے، لیکن مودی حکومت نے وعدے کے بعد بھی ہماری مانگ پوری نہیں کی۔ ‘
رام نارائن آگے کہتے ہیں،’ 1998سے99 میں ملک میں 1.60 لاکھ افیون کی زراعت کرنے والے کسان تھے جو حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے 2013 تک صرف 35 ہزار رہ گئے۔ اسی طرح افیون کی زراعت 35 ہزار ہیکٹیئر سے گھٹکر 5 ہزار ہیکٹیئر رہ گئی۔ گزشتہ سالوں میں کسانوں کی مخالفت کے بعد 30 ہزار پٹے اور بانٹے گئے ہیں لیکن 80 ہزار کسان ابھی بھی پٹوں سے محروم ہیں۔ ‘قابل ذکر ہے کہ ملک میں راجستھان کے چتوڑ گڑھ، پرتاپ گڑھ، اُدےپور، بھیلواڑا، کوٹہ، باراں اور جھالاواڑ میں افیون کی زراعت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ مدھیہ پردیش اور اتر پردیش کے کچھ ضلعوں میں بھی افیون کے لائسنس حکومت نے دئے ہوئے ہیں۔
غیر قانونی کھدائی اور ماحولیات کو بچانے کے لئے 25 گاؤں کے لوگ کی جدوجہد
راجستھان کے کوٹ پُتلی علاقے کے شکلاواس گاؤں میں 25 گاؤں کے لوگ تقریباً 100 دنوں سے دھرنے پر ہیں۔ ان کی مانگ ہے کہ علاقے میں غیر قانونی کھدائی، بلاسٹنگ، اوور لوڈنگ اور فضائی آلودگی پر روک لگائی جائے۔
راجستھان کے کوٹ پُتلی علاقے کے شکلاواس گاؤں میں 25 گاؤں کے لوگ تقریباً 100 دنوں سے دھرنے پر ہیں۔ ان کی مانگ ہے کہ علاقے میں غیر قانونی کھدائی، بلاسٹنگ، اوور لوڈنگ اور فضائی آلودگی پر روک لگائی جائے۔
دھرنا کنوینر رادھے شیام شکلاواس کا کہنا ہے، ‘غیر قانونی کھدائی کے لئے گاؤں میں ہو رہی بلاسٹنگ سے سیکڑوں مکانوں میں درار آ چکی ہیں اور اوور لوڈنگ کی وجہ سے اب تک کئی لوگوں کی جان جا چکی ہے۔ دھرنا پر بیٹھے لوگوں میں شکلاواس، کرواس، بُچارا، دوداواس، پرش اتم پورا وغیرہ اہم ہیں۔ ‘گاؤ ں والوں کا کہنا ہے کہ وہ وزیراعلیٰ اشوک گہلوت سے لےکر تمام متعلقہ افسروں کو ان مسائل کے بارے میں کئی بار جانکاریدے چکے ہیں، لیکن کہیں کوئی سنوائی نہیں ہو رہی ہے۔ ان 25 گاؤں میں تقریباً1.5 لاکھ ووٹرس ہیں۔مخالفت کے جمہوری طریقے دھرنے-مظاہرہ کی گھٹتی اہمیت اور سرکاری ان دیکھی کے بارے میں سماجی کارکن نکھل ڈےکہتے ہیں،’ایک زمانہ ہوتا تھا جب لوگ دھرنا پر بیٹھتے تھے تو پورا سرکاری عملہ سارے کام چھوڑکر ان سے ملنے جاتا تھا۔ دھرنا میں آئے لوگ بیکار میں نہیں آتے، وہ بہت پریشان ہوتے ہیں تبھی دھرنا دینے جیسا قدم اٹھاتے ہیں۔ ‘
نکھل کہتے ہیں،’حکومتیں ان آوازوں کو ان سنا کر رہی ہیں، لیکن جب کوئی ریلوے ٹریک پر آکر پٹریاں اکھاڑنے لگتا ہے تو حکومت فوراً سنوائی کرتی ہے۔ یہ دراصل، جمہوریت کو ختم کرنے کے طریقے ہیں۔ انتخاب چل رہے ہیں اس میں سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری لوگوں کے تئیں کیا ہے اس پر بات کرنی چاہیے لیکن یہ نہیں ہو رہا۔ ہم لوگ سالوں سے ہر شہر میں دھرنا-مظاہرہ کے لئے الگ سے جگہ نشان زد کرنے کی مانگکر رہے ہیں لیکن کوئی سنوائی ہی نہیں ہوتی۔ اس طرح سنوائی نہیں ہونے سے لوگوں کو حکومت کے تئیں بھروسہ کم ہوتا ہے اور جمہوریت کمزور ہوتا ہے۔ ‘
راجستھان کانگریس کے نائب صدر اور ترجمان ارچنا شرما کہتی ہیں،’ایسا نہیں ہے حکومتیں آج بھی دھرنا دے رہے لوگوں کی سنتی ہیں۔ گرجر تحریک کے وقت بھی اتنے تشدد کے درمیان بات چیت جاری رہی تھی۔ ہاں، یہ بات سچ ہے کہ جو تحریک یا دھرنے زیادہ مؤثر نہیں ہوتے ان کی باتیں حکومت تک نہیں پہنچ پاتیں۔ کانگریس پارٹی کا ہمیشہ جمہوری اقدار میں بھروسہ رہا ہے اسی لئے ہم نے اپنے منشور میں جئے پور میں دھرنے-مظاہرے کے لئے خاص جگہ دینے کا وعدہ بھی کیا ہے اور اس کو جلد پورا کیا جائےگا۔ ‘
وہیں، راجستھان بی جے پی کے ترجمان ومل کٹیار کہتے ہیں،’ہماری حکومت جب بھی رہی ہے ایسے معاملوں کو مؤثر طریقےسے نمٹایا ہے۔ ابھی کانگریس کی حکومت ہے تو یہ حکومت کیا ایکشن لیتی ہے یہ دیکھنا ہے۔ اگر لوگوں کی کوئی واجب مانگ ہے تو ان کو سنا جانا چاہیے۔ میرا تو ماننا ہے کہ ایسی نوبت ہی نہیں آنی چاہیے کہ لوگوں کو دھرنا پر جانا پڑے۔ ‘اکیلے راجستھان میں ہی ہزاروں لوگ سالوں سے اپنی تکلیف اور جائز مانگوں کو لےکر پر امن طریقے سے مخالفت درج کرا رہے ہیں، لیکن حکومتوں نے ان کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا ہے۔
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)