یہ واقعی مشکل وقت ہے۔ کہیں کسی صحافی کو قتل کیا جا رہا ہے، کسی سماجی کارکن اور قلمکار کو جیل رسید کیا جا رہا ہے، تو کہیں کوئی صحافی برسوں سے جیل میں سڑ رہا ہے۔
(بائیں سے) منیش آزاد اور صحافی مکیش چندراکر۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)
الہ آباد کی سماجی کارکن اور قلمکار سیما آزاد کی پوسٹ سے معلوم ہوا کہ 5 جنوری کو پولیس ان کے بھائی اور سماجی کارکن منیش آزاد کو پانچ سال پرانے اُس معاملے میں گرفتار کرکے لے گئی ہے جس پر انہیں عدالت سے ضمانت مل چکی ہے۔ خبر ہے کہ اب اسی معاملے میں یو اے پی اے سمیت کچھ نئی دفعات شامل کی گئی ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ اب از سر نو ضمانت حاصل کرنا ان کے لیےآسان نہیں ہوگا۔
گرفتاری منیش آزاد اور ان کے اہل خانہ کے لیےکوئی نئی بات نہیں ہے۔ پہلی بار دراصل منیش کے نام اور کام کی طرف توجہ تب ہی گئی تھی جب ٹی وی چینلوں پر منیش اور ان کی اہلیہ امیتا شیرین کی گرفتاری کی خبر دیکھی تھی۔ اس وقت وہ بھوپال کے ایک گھر سے نکلتے ہوئے انقلاب زندہ باد کے نعرے لگاتے نظر آئے تھے۔ بعد میں دونوں نے اپنے جیل کے تجربات پر ایک کتاب لکھی۔ اتفاق سے اس کا پیش لفظ میں نے لکھا تھا۔ بعد میں ان کا شعری مجموعہ بھی آیا جس میں میرا ایک تبصرہ بھی شامل تھا۔
ان کتابوں کو پڑھتے ہوئے ہی مجھے اندازہ ہوا تھاکہ منیش ایک ادیب اورمفکرکےطور پر کتنے بیدار ذہن اور اہل قلمکار ہیں اور کس حد تک نڈر اور بہادر ہیں۔ جیل میں رہتے ہوئےانہیں پاش، ناظم حکمت اور وہ پوری دنیا کے جمہوری ادب اور اس کے لکھنے والےیادآتے رہے۔ بعد میں سوشل میڈیا پر ان کے تبصروں سے معلوم ہوا کہ ان کی دلچسپیوں کی دنیا بہت وسیع ہے۔ ادب کے علاوہ وہ سینما اور فکرو شعور کے دیگر شعبوں میں بھی دخل رکھتے ہیں۔ فیس بک پر جن لوگوں کی پوسٹ کو میں بہت غور سے پڑھتا رہا ہوں، منیش آزاد ان میں سے ایک ہیں۔ وہ پوری بےباکی اور حوصلے کے ساتھ لکھتے ہیں،لیکن بڑے تحمل اور توازن کے ساتھ ۔ بالآخر وہ انصاف، مساوات اور جمہوریت کے حقوق کے لیے لڑ نے والے سماجی کارکن ہیں۔
لیکن ایسا شخص سرکاری مشینری اور پولیس کو پسند نہیں آتا۔ وہ سچ بولنے کا جرم کرتا ہے۔ اسے پولیس اٹھا لیتی ہے۔ یہ دوسروں کے لیے سبق بھی ہوتا ہے کہ وہ اتنی جرٲت کا مظاہرہ نہ کریں۔
کیااتفاق ہے کہ یہ گرفتاری ایسے وقت میں ہوئی ہے جب بستر میں ایک صحافی
مکیش چندراکر کے بہیمانہ قتل کی خبر سے دانشور طبقہ سکتے میں ہے ۔ مکیش کے قتل کی جو خبریں آرہی ہیں وہ حیران کن ہیں۔ ان کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کی تفصیلات بتاتی ہیں کہ انہیں بڑی بے دردی سے قتل کیا گیا۔ انہیں قتل کرنے والے کون تھے؟ کیا یہ صرف ٹھیکیدار کے آدمی ہیں جن کے خلاف
مکیش کی خبر تھی؟ لیکن مکیش پہلے کھل کر لکھ چکے تھے کہ کس طرح سرکاری افسران کی کان کنی مافیا کے ساتھ ملی بھگت ہے اور کس طرح صحافیوں کو فرضی کیسوں میں پھنسایا جا رہا ہے۔ ظاہر ہے مکیش کا قتل ایک آرگنائزڈ سسٹم کا کام ہے جس میں ٹھیکیدار، پولیس اور انتظامیہ سب کی رضامندی شامل ہے۔
اتفاق سے اپنی گرفتاری سے چند روز قبل منیش آزاد نے مکیش کے قتل کی خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ہندوستان صحافیوں کے لیے سب سے خطرناک جگہ بن چکا ہے۔ دو دن پہلے منیش نے ایک نظم لکھی —
‘تم اپنے دکھ کے قطرےسے بھی مہاکاویہ رچ دیتے ہو
تمہارا جیون کہانیوں میں پنرجنم پاتا ہے
تمہاری آتما ویدوں میں وشرام کرتی ہے
تمہاری ہر خوشی
دیوتاؤں کے چرنوں میں پھول بن کر برستی ہے۔
دکھی تو ہم بھی ہوتے ہیں
لیکن ہمارا دکھ محض کھاراپانی ہے
جو بہتے بہتے سوکھ جاتا ہے۔
ہمارے جیون میں بھی کہانیاں ہوتی ہیں
لیکن وہ ‘کہانی’ نہیں بن پاتی
اس لیے ہمارا پنرجنم نہیں ہوتا
ہم محض جیتے ہیں اور مر جاتے ہیں۔
آتما تو ہماری بھی ہوتی ہے
لیکن وہ ویدوں میں نواس نہیں کرتی
اسے تو نرنتر بچتے رہنا ہوتا ہے
آگ سے، بارش سے، اور کڑاکے کی ٹھنڈ سے
شاید اس لیے تم ہماری روح کو روح نہیں مانتے۔
ہم خوش بھی ہوتے ہیں، ناچتے اور گاتے بھی ہیں
لیکن ہماری خوشی
دیوتاؤں کے چرنوں میں پھول بن کر نہیں برستی۔
ہمارے ناچنے سے، ندی میں پانی چڑھتا ہے
پہاڑوں پر بادل آتے ہیں
ہماری خوشی سے
ہمارے استنوں میں دودھ اترتا ہے…
ہمارے دکھ اور تمہارے دکھ میں
ہماری خوشی اور تمہاری خوشی میں
ہماری آتما اور تمہاری آتما میں
اتنا فاصلہ کیوں ہے؟
……کیونکہ تم اتہاس کے اندر ہو
اور ہم اتہاس کے باہر…
واضح ہے کہ تاریخ کے اندر اور باہر رہنے یا کیے جانے کے فرق کو منیش پہچانتے ہیں — تاریخ بدلنے یا مٹانے کی سازش اور کوشش کو بھی۔ چند روز قبل انہوں نے ایک فلم ‘ڈینائل’ کا ذکر کیا تھا جو جرمنی میں ہوئے ہولوکاسٹ کی تردید کرنے والے ایک مؤرخ اور اس کی مخالفت کرنے والے مصنف کے درمیان چلے کیس اور اس پر مبنی کتاب پر ہے۔ مؤرخ یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ جرمنی میں ساٹھ لاکھ یہودیوں کے مارے جانے کا دعویٰ متھ ہے۔ بے شک ، وہ عدالت میں ہار گیا۔
تاہم، یہ واقعی مشکل وقت ہے۔ کہیں صحافی کا قتل ہو رہا ہے، کہیں سماجی کارکن اور مصنف کو جیل میں ڈالا جا رہا ہے، کہیں منو اسمرتی کو جلانے والوں پر لاٹھی چارج ہو رہا ہے، کہیں صحافی برسوں سے جیل میں سڑ رہا ہے۔ بہار اور جھارکھنڈ کی جیلوں میں بند
روپیش کمار سنگھ وہیں سے ماس کمیونی کیشن میں ماسٹرز کا امتحان دے رہے ہیں۔
منیش اور روپیش کے معاملے میں جو بات قابل ستائش ہے وہ یہ ہے کہ دونوں کے گھر والے اسی بے خوفی کے ساتھ اپنے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ منیش کی بیوی امیتا شیریں تو خیر جیل بھی جا چکی ہیں اور روپیش کی بیوی اپسا شتاکشی اور اس کی ماں ہر بار روپیش کی ہمت بڑھاتی نظر آتی ہیں۔
یہ وقت ہے ان لوگوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا – مقدور بھر۔ ہمارے وقت میں جو ‘ڈینائل’ جاری کیے جا رہے ہیں، ان کی اصلیت لوگوں کے سامنے لانےکا۔ دیکھیں، ہمارا سماج اس جنگ کو کس طرح لڑتا ہے۔
(پریہ درشن سینئر صحافی ہیں۔)