مندروں کے نیچے بدھ عبادت گاہوں کے آثار

10:33 AM Dec 04, 2024 | افتخار گیلانی

موہن بھاگوت نے کہا ہے کہ ہر مسجد کے نیچے شیو مندر یا کوئی مورتی ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی جانی چاہیے۔ شاید ان کو معلوم ہے کہ اگر یہ سلسلہ شروع ہوا تو رکنے والا نہیں ہے اس کی زد میں ہندو مندر بھی آسکتے ہیں اور تاریخ کے وہ اوراق بھی کھل جائیں گے، جو ثابت کریں گے کہ کس طرح برہمنوں نے بدھ مت کو دبایا اور ان کی عبادت گاہوں کو نہ صرف مسمار کیا بلکہ بدھ بھکشووں اور بدھ مت کے ماننے والوں کو اذیت ناک موت دے کر اس مذہب کو ہی ملک سے بے دخل کر دیا۔

ڈھائی دن کا جھونپڑا مسجد، اجمیر شریف درگاہ، سنبھل کی شاہی جامع مسجد۔ فوٹو بہ شکریہ: وکی پیڈیا/فلکر/دی وائر

جب ہندوستان کے اتر پردیش صوبہ کے ایودھیا شہر میں 1992 کو تاریخی بابری مسجد کو مسمار کیا گیا، تو کئی دانشور اور سیاستدان مسلمانوں کو مشورہ دے رہے تھے کہ ان کو یہ جگہ رضاکارانہ طور پر اب ہندوؤں کو حوالے کردینی چاہیے، تاکہ اس کے بدلے دیگر مساجد کے تحفظ کی گارنٹی لی جا سکے۔

انہی دنوں پارلیامنٹ نے مذہبی مقامات ایکٹ 1991 بھی پاس کیا، جس کی ر و سے بابری مسجد کے بغیر دیگر تمام عبادت گاہوں کی پوزیشن جو 1947 میں تھی، جوں کی توں برقرار رکھی جائےگی۔ اس لیے بتایا گیا کہ مسلمانوں کو اب گھبرانے یا خواہ مخواہ ایشو بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

مگر حالیہ عرصے میں ہندو قوم پرستوں نے بنارس کی گیان واپی مسجد، سنبھل کی جامع مسجد، بدایوں کی شاہی مسجد، ڈھائی دن کا جھونپڑا مسجد حتیٰ کہ اجمیر میں خواجہ معین الدین چستی کی درگاہ پر بھی عدالت میں درخواست دائر کر کے دعویٰ کیا کہ یہ قدیم مندروں کو توڑ کر بنائی گئی ہیں اس لیے ان کو ہندو فرقہ کے حوالے کیا جائے۔

عدالت نے ان کی درخواستوں کو قابل سماعت قرار دے کر محکمہ آثار قدیمہ کو ان کا سروے کرنے کے احکام دے کر1991 کے مذہبی مقامات ایکٹ کی ہوا نکال کر رکھ دی ہے۔ ویسے تو وشو ہندو پریشد کا دعویٰ ہے کہ ایسی 25 ہزار مساجد ہیں، جو مندروں کو توڑ کر بنائی گئی ہیں اور ان کو واگذار کرانا ہے۔

اب ان مساجد کو واقعی مندروں کو توڑ کر یا ان کی جگہ بنایا گیا ہے یا نہیں، اس کے بارے میں متضاد بیانیہ ہیں، مگر تقریباً تمام نامور مؤرخ اس بات پر متفق ہیں کہ اکثر ہندو مندر یا مٹھ، بدھ فرقہ کی عبادت گاہوں کو مسمار کرکے بنائے گئے ہیں۔

دیکھنا ہے کہ ہندو قوم پرستوں کی دیکھا دیکھی اگر بدھ مت کے پیروکاروں نے بھی عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹانے شروع کیے تو شاید ہی کوئی مندر ملک میں بچ پائے گا۔ ایک ایسا قضیہ پیدا ہوگا، جس کا کوئی اختتام نہیں ہوگا۔

کچھ عرصہ قبل سماجوادی پارٹی کے لیڈر سوامی پرساد موریہ نے مطالبہ کیا تھا کہ محکمہ آثار قدیمہ کو ہندو مندروں کی بنیادوں کو کھنگالنا چاہیے کیونکہ ان میں سے اکثر بدھ مت کی عبادت گاہوں کے ڈھانچے پر کھڑے ہیں۔

تاریخی کتب سے معلوم ہوتا ہے کہ قدیم اور ابتدائی عہد وسطیٰ کے دوران ہندو راجاؤں نے بدھ مت اور جین مندروں اور مٹھوں کو تباہ کر دیا تھا ۔موریہ دور کے دوران مہاراجہ اشوک کے زمانے میں بدھ مت کا بول بالا ہوگیا۔ مگر ان کی موت کے بعد بدھ مت کو زوال آگیا اور ایک طرح سے ہندو ازم یا برہمن بالادستی کا احیاء ہوگیا۔

 اس دور میں بدھ مت کے پیروکاروں کے خلاف وسیع پیمانے پر ظلم وستم برپا ہوگیا اور ان کی مذہبی علامتوں کی تباہی و بربادی ہوئی۔ موریہ حکومت کے زوال کے بعد پوشیا مترا، جو شنگا خاندان سے تعلق رکھنے والا حکمراں تھا، نے خاص طور پر بدھ مت کو نشانہ بنایا اور بھکشووں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

اسی طرح کے اقدامات بنگال کے گواڈا راجا ششانکا نے اٹھائے، جو بدھ مت کی عبادت گاہوں کی تباہی کے لیے ہی مشہور ہیں۔ کشمیر کی تاریخ راج ترنگنی میں واضح طور پر لکھا ہے کہ کسی طرح شاویوات کو ماننے والے حکمرانوں نے بدھ خانقاہوں کو مسمار کیا۔

چینی سیاح ہیون ژانگ نے، جو ساتویں صدی عیسوی میں ہندوستان کی مہم پر آئے تھے نے بھی اپنے سفرنامہ میں اس بات کا ذکر کیا کہ ششانکا نے بہار  کے گیا شہر میں پیپل کے اس درخت کو بھی کاٹ دیا تھا، جس کے نیچے مہاتما بد ھ کو گیان حاصل ہوا تھا۔

نریش کمار کا مقالہ، جو ویلیواڈا جرنل میں کئی برس قبل شائع ہو تھا بدھ مت کے اوپر برہمنوں کے منظم اور وسیع مظالم کا احاطہ کرتا ہے۔ حتیٰ کہ گیا میں واقع  مقدس بدھ عبادت گا ہ کی بھی شیو مندر میں تبدیل کیا گیا تھا۔

اسی طرح تاریخ داں  دیناناتھ جھا، جو ہندوستان کے قدیم اور وسطی دور کے ماہر ہیں، اپنی کتاب اگینسٹ دی گرین: نوٹس آن آئیڈنٹٹی، ان ٹالیرینس اینڈ ہسٹری میں بتاتے ہیں کہ مسلمانوں کی آمد سے پہلے مختلف مذہبی مقامات کی تباہی، بے حرمتی اور ثقافتی حقوق کی چوری عام سی بات تھی۔

وہ مسلم حکمرانوں کے دور میں مندروں کی بے تحاشہ تباہی کے دعوے کو بھی رد کرتے ہیں۔جھا نے ہندو قوم پرستوں کی اسی تھیوری کی بھی ہوا نکال دی ہے کہ بہار کی قدیم نالندہ یونیورسٹی کی لائبریری کو مسلم جرنیل بختیار خلجی نے آگ کے حوالے کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ کتب خانہ کو خود ہندو شدت پسندوں نے ہی مسمار کر دیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ خلجی اس علاقے میں آیا ہی نہیں تھا۔

جھا ہندو قوم پرستوں کے اس دعوے کو کہ مسلم دور میں 60 ہزار کے قریب مندر تباہ کیے گئے ہیں کو چیلنج کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بطور مؤرخ مسلم حکمرانو ں کے سات سو سالوں کے دور میں 80 کے قریب مندروں کو نقصان پہنچا ہے، اور ان کی نوعیت بھی سیاسی تھی۔

غالباً  یہ ایسی ہی صورتحال تھی، جس طرح اندرا گاندھی نے 1984میں امرت سر میں سکھوں کے مقدس مقام گولڈن ٹمپل پر چڑھائی کی تھی۔ گو کہ ان کا یہ اقدام انتہائی غیر دانشمندانہ اور اضطراری نوعیت کا تھا، مگر اس کو کسی بھی صورت میں اندراگاندھی کی سکھ مت کے تئیں دشمنی کی صورت میں نہیں دیکھا جاسکتا ہے۔

بدھ مت اور جین مت کے ظہور سے قبل ہندو مت کے دو دھڑے ویشنو اور شیو فرقے ایک دوسرے سے دست گریبان رہتے تھے۔ مگر بدھ مت اور جین مت کے خلاف دونوں متحد ہوگئے۔

کشمیری مؤرخ کلہن کی راج ترنگنی میں راجہ اشوک کے ایک بیٹے جالاوکا کا ذکر ہے۔ اپنے باپ کے برعکس وہ شاوایٹ ہندو تھا۔ اس نے بدھ عبادت گاہوں پر قہر ڈھائے۔

سنسکرت میں بد ھ مت کی ایک کتاب دیویا ڈانا میں بتایا گیا ہے کہ موریہ حکومت کے زوال کے بعد برہمن حاکم پیوشامترا نے ایک فوج ہی بدھ مت کے ماننے والوں کو سبق سکھانے اور بدھ مٹھوں اور اسٹوپوں کو مسمار کرنے پر مامور کی تھی۔ اس نے سکالا یعنی موجودہ سیالکوٹ پر حملہ کرکے بدھ بھکشوں کو تلاش کرکے ان کو اذیتیں دے کر موت کی نیند سلا دیا۔

مدھیہ پردیش میں شنگا حکمرانی کے خاتمے کے بعد بھی بدھ مت کے مقامات کی تباہی جاری رہی۔ احمد پور میں، ایک برہمنی مندر پانچویں صدی میں ایک سٹوپا کی بنیاد پر تعمیر کیا گیا، اور ودیشہ کے آس پاس کے مختلف مقامات پر بدھ عبادت گاہوں کے نمونے ملے ہیں، جو کہ آٹھویں صدی کے دوران شیوائیٹ یا جین عبادت گاہوں میں تبدیل کر دیے گئے تھے۔

ودیشہ سے 250 کلومیٹر شمال مشرق کی طرف کھجراوٗ کے مقام پر دسویں صدی سے چندیلا حکمرانوں کے زیر انتظام ایک بڑا مندر  بدھ مت کی عبادت گاہ پر بنایا گیا۔ یہاں گنتانی مندر بھی دسویں صدی میں ایک بدھ مت کی یادگار پر تعمیر کیا گیا ہے۔

اتر پردیش کے متھرا، جس کو بھگوان کرشن کا جنم اشٹان بھی بتایا جاتا ہے میں بھوتیشور اور گوکرنیشورمندر وں کے نیچے بدھ مت کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔ یہ شہر کشان دور کے دوران بدھ مت کے مرکزکے طور پر جانا جاتا تھا۔ کٹرہ مونڈ، جو اب ہندو تیرتھ استھان ہے عہد وسطیٰ کے اوائل تک بدھ مرکز تھا۔

مؤرخوں کے مطابق الہ آباد کے نزدیک کوشمبی کے قریب عظیم گھوسیتارم مٹھ کو بھی پوشیمترا نے تباہ کیا تھا۔ اسی طرح  بنارس کے پاس سارناتھ، جہاں مہاتما بدھ نے پہلی بار اپنا پیغام سنایا، برہمنوں کے عتاب کا شکار رہا ہے۔ اس کے اوپر برہمنی عمارات، جیسے کورٹ 36 اور ڈھانچہ 136 کی تعمیر ہوئی، جو گپتا دور میں موریہ دور کے دوران استعمال کئے گئے بدھ تعمیری میٹریل کا دوبارہ استعمال کرتے ہوئے بنائی گئی تھیں۔ اس کی تعمیر بھی بڑے اشوکان اسٹوپا کے ملبے پر کی گئی تھی۔

چینی مسافر فاہیان، جو پانچویں صدی کے دوران گپتا دور میں ہندوستان آئے تھے، نے شراوستی کی ایک مایوس کن تصویر پیش کی، جہاں بدھ نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ گزارا تھا۔ یہاں، برہمنوں نے کوشان بدھ متی سائٹ کو ہتھیا لیا، جہاں گپتا دور میں راماین پینلز کے ساتھ ایک مندر تعمیر کیا گیا تھا۔ آثار قدیمہ کے ماہر الوئس انٹون فیوہرر کے مطابق اتر پردیش کے سلطان پور میں ہی کم سے کم 49بدھ مت کے مقدس مقامات کو آگ کے حوالے کرکے تباہ و برباد کردیا گیا۔

گپتا حکومت کے دوران، مختلف برہمنی فلاسفروں اور دانشوروں نے ملک کے مختلف حصوں میں بدھ مت کے خلاف ایک بڑے پیمانے پر نہ صرف نظریاتی حملے شروع کیے، بلکہ ان کی عبادت گاہوں کو بھی نشانہ بناد یا۔

ہیون ژانگ، جنہوں نے ہرش وردھن کے دور میں 631 سے 645 کے درمیان ہندوستان کا دورہ کیا، کا کہنا ہے کہ چھٹی صدی کے ہونا حکمران مہراکولا، جو شیو کے پجاری تھے، نے 1,600 بدھ مت کے ا سٹوپوں اور مٹھوں کو تباہ کر دیا اور ہزاروں بھکشوں اور عوام کو قتل کر دیا۔اس کا کہنا ہے کہ گندھارا علاقہ میں ایک ہزا ر سنگھرما ویران اور خستہ حالت میں تھے۔

مؤرخ کلہن نے کشمیر کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ درج کیا ہے۔ ا س کا کہنا ہے کہ ہندو راجہ  نارا، ایک بدھ بھکشو سے ناراض ہوگیا تھا۔ اس کو شک تھا کہ اس کی بیوی کے اس بھکشو کے ساتھ تعلقات ہیں۔ اس کا بدلہ لینے کے لیے اس نے ہزاروں بدھ خانقاہوں کو جلانے کا فرمان جاری کردیا۔

وہ دسویں صدی کے بادشاہ کشیمگپتا کا بھی ذکر کرتا ہے، جس نے سرینگر میں جیندروہار بدھ مٹھ کو تباہ کیا اور اسکی باقیات کو کشیمگوریشورا مندر کی تعمیر کے لیے استعمال کیا۔کشمیری حکمرانوں میں، ہرشدیو جس نے 1089 سے 1111تک  حکمرانی کی سب سے زیادہ بدنام تھا۔ انہوں نے منظم طریقے سے بدھ مت کی خانقاہوں کے علاہ ہندو مندروں کو بھی لوٹا اور تباہ کیا۔

اس کے لیے اس نے ایک خصوصی افسر ادیاراج کومقرر کیا تھا اور اس کو اختیار دیا تھا کہ وہ مندروں کو لوٹے اور مورتیوں کے اندر اگر دولت چھپی ہو، تو ان کو اکھاڑ پھینک کر توڑ دے۔ اس کے دور میں  جنگوں کی وجہ سے حکومت کا دیوالیہ پٹ چکا تھا۔ اس نے برہمنوں سے درخواست کی تھی کہ کہ مندروں کی دولت حکومت کے حوالے کریں۔ ان کے انکار کی وجہ سے وہ آگ بگولہ ہوگیا۔

ہیون ژانگ بتاتے ہیں کہ گودا کے بادشاہ ششانکا نے بودھ گیا میں بودھی درخت کاٹ دیا، جہاں مہاتما بدھ کو گیان حاصل ہوا۔  بدھ کی مورتی کو ہٹا کر اسے مہیشورا کی تصویر سے بدل دیاگیا۔

تاہم، ایک نظریہ کے مطابق، شیویتوں نے پہلے ہی اس جگہ کو ہتھیا لیا تھا، اور ششانکا نے صرف شیو کی پوجا کو بحال کیا۔بودھ گیا پالا حکمرانوں کے دور میں، جو بدھ مت کے پیروکار تھے، دوبارہ بدھ مت کے کنٹرول میں آ گیا۔

آثار قدیمہ کے شواہد بتاتے ہیں کہ وہاں مہابودھی مندر کئی بار تباہ اور کئی بار تعمیر ہوا۔ گیاکے نزدیک ایک اور بدھ استھان پر  گیارہویں صدی کے وسط میں ایک وشنو مندر قائم کیا گیا، جس کی فرش اور ریلنگ بدھ استھان کے میٹیریل سے تعمیر کی گئی تھی۔ موجودہ وشنوپادا مندر وہاں اٹھارہویں صدی کے آخر میں اندور کی ملکہ اہلیا بائی ہولکر نے تعمیر کیا۔

اسی طرھ بدھ مت کی مشہور یونیورسٹی  نالندہ، جہاں ہیون ژانگ نے نے پانچ سال سے زیادہ وقت گزارا میں ساتویں صدی کے وسط میں —ایک برہمنی مندر، تعمیر کیا گیا۔اس مندر کی تعمیر پوری طرح سے انہی پتھروں سے کئی گئی ہے، جن سے بدھ استھان بنایا گیااور عملاً ایک بدھ مت کی جگہ پر قبضہ کیا گیا ہے۔

پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد سے 221 کلومیٹر دور شمال میں آٹھ مقام اور دودنیال کے درمیان، شاردا کھنڈرات کے ساتھ بھی کچھ اسی طرح ہوا۔ بدھ مت کی عظیم دانشگاہوں نالندہ اور ٹیکسلا کی طرح شاردا بھی ایک قدیم علمی مرکز تھا۔یہ علاقہ لائن آف کنٹرول سے دس کلومیٹر دور ہے۔

چند برسوں سے ہندو خاص طور پر کشمیری پنڈتوں کا ایک طبقہ اصرار کر رہا ہے کہ یہ ان کا مقدس مقام ہے اور 1947 تک یہاں شاردا یا علم کی دیوی سرسوتی کے نام پر ایک مندر قائم تھا۔

تاریخ سے یہ بات ثابت ہے کہ یہ جگہ بدھ مت کے عروج کے دوران ایک یونیورسٹی کا درجہ رکھتی تھی۔

نالندہ اور ٹیکسلا کے برعکس یہاں بدھ اشرافیہ یا چیدہ محقیقین تعلیم حاصل کرنے آتے تھے۔ ہیون ژانگ نے جب اس علاقے کا دورہ کیا، تو اس کے مطابق اس یونیورسٹی میں بدھ بھکشو انتہا درجہ کی ریاضت اور تعلیم حاصل کرتے تھے۔

شاردا سے سرینگر تک اپنے سفر کے دوران اس نے کئی سو بدھ خانقاہیں دیکھیں، جن میں ہزاروں بھکشو مقیم تھے۔ آٹھویں صدی میں جب کیرالا سے ہندو برہمن آدی شنکر آچاریہ نے بدھ مت کے خلاف محاذ کھول کر پورے جنوبی ایشیاء کا دورہ کیا، اس نے شاردا یعنی علم کی دیوی کے نام پر مندر تعمیر کروائے، جن میں سب سے بڑا مندر کرناٹک میں دریائے تنگ کے کنارے سرنگری میں واقع ہے۔

جب وہ کشمیر آئے اور اس جگہ پر ان کا بد ھ بھکشوں کے ساتھ مکالمہ ہوا۔ ہندو تاریخ کے مطابق انہوں نے بدھ بھکشوں کو مکالمہ میں چت کردیا۔ چونکہ اس دور میں اکثر راجے مہاراجے دوبارہ ہندو مت میں داخل ہو گئے تھے، شنکر آچاریہ نے ان کی مدد سے بھکشوں کا ناطقہ بند کرادیا اور ان کی عبادت گاہوں کو تہس نہس کرکے ان کی جگہوں پر مندروں کی عمارات کھڑی کردی۔ یہی کچھ شارد ا پیٹھ کے ساتھ بھی ہوا ہے۔

کشمیر میں 1260ءقبل مسیح میں سریندرا پہلا بدھ بادشاہ تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ بدھ بھکشووں نے ہی زعفران کی کاشت کو متعارف کروایا۔ 232قبل مسیح اشوکا کی حکومت کے خاتمہ کے بعد راجہ جالو نے ہندو شیوا زم قبول کیا اور بدھ مت پر ایک قیامت ٹوٹ پڑی۔ بدھ اسٹوپوں، وہاروں کو تاراج کیا گیا۔ بدھ مت کی دانش گاہوں پر شیو مندر بنائے گئے۔ 63 ء میں دوبارہ بدھ مت کو عروج حاصل ہوا۔راجہ کنشک کے عہد میں بارہمولہ کے کانس پورہ میں چوتھی بدھ کونسل منعقد ہوئی اور بدھ مت کے ایک لبرل مہایانہ فرقہ کی بنیاد ڈالی گئی، جو چین اور کوریا میں فی الوقت رائج ہے۔

جھا کے مطابق اڑیسہ میں جبکہ جگن نا تھ مندر کا بدھ مت پس منظر متنازعہ ہو سکتا ہے مگر  پوری ضلع میں پورنیشورا، کیداریشورا، کانتیشورا، سومیشورا اور انگیشورا کے مندر یا تو بدھ متی ویہاروں پر بنائے گئے تھے، یا ان سے مواد حاصل کرکے بنائے گئے تھے۔

اسی طرح کٹک ضلع میں دکشینیشورا مندر اور تیلا متھ، اور پوری ضلع میں اگیکھیا متھ، کھندیہی متھ اور بالاسور ضلع میں کوپاری میں ایک شیو مندر، سب بدھ متی عمارات یا ان کے ملبے پر بنائے گئے تھے۔پڑوسی ریاست چھتیس گڑھ میں بھی اسی طرح کی برہمنی قبضے کی مثالیں موجود ہیں۔

یہ دکھاتا ہے کہ ہندوستان میں حریف مذہبی اداروں کی تباہی اور بے حرمتی قدیم اور وسطی دور میں کافی عام تھی۔ برہمنوں نے نہ صرف بدھ مت کی عبادت گاہوں اور یادگاروں کو نقصان پہنچایا اور انہیں ہتھیا لیا، بلکہ انہوں نے جین یادگاروں کو بھی نشانہ بنایا—لیکن یہ ایک مختلف کہانی ہے۔

شاید اسی وجہ سے حال ہی میں ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ یعنی آر ایس ایس موہن بھاگوت نے مشورہ دیا کہ ہر مسجد کے نیچے شیو مندر یا کوئی مورتی ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی جانی چاہیے۔ کیونکہ شاید ان کو معلوم ہے کہ اگر یہ سلسلہ شروع ہوا تو رکنے والا نہیں ہے اس کی زد میں ہندو مندر بھی آسکتے ہیں۔

تاریخ کے وہ اوراق بھی کھل جائیں گے، جو ثابت کریں گے کہ کس طرح برہمنوں نے بدھ مت کو دبایا اور ان کی عبادت گاہوں کو نہ صرف مسمار کیا بلکہ بدھ بھکشووں اور بدھ مت کے ماننے والوں کو اذیت ناک موت کے حوالے کرکے اس مذہب کو ہی ملک سے بے دخل کردیا۔