اس بیچ مرکزی حکومت نے راجیہ سبھا میں بتایا کہ 2019 میں یو اے پی اے کے تحت 1948 لوگوں کو گرفتار کیا گیا اور 34 ملزمین کو قصوروار ٹھہرایا گیا۔ ایک اور سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ 31 دسمبر 2019 تک ملک کی مختلف جیلوں میں478600قیدی بند تھے،جن میں144125 قصوروار ٹھہرائے گئے تھے جبکہ 330487 زیر سماعت و 19913 خواتین تھیں۔
نئی دہلی: 2019 سے جموں اور کشمیر انتظامیہ نے یو اے پی اے کے تحت 1200 سے زیادہ معاملوں میں 2300 سے زیادہ لوگوں اور پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے)کےتحت 954 لوگوں پر معاملہ درج کیا ہے۔ ان میں یو اے پی اے کے تحت حراست میں لیے گئے 46 فیصدی اور پی ایس اے کے تحت حراست میں لیے گئے 30 فیصدی لوگ ابھی بھی جموں وکشمیر کے اندر اور باہر جیل میں ہیں۔
پولیس کے اعدادوشمار کےتجزیےکے بعد
انڈین ایکسپریس نےیہ اعدادوشمارعوامی کیے ہیں۔ 2019 میں پی ایس اے کے تحت 699 اور 2020 میں 160 لوگوں کو حراست میں لیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ 2021 میں جولائی کے اواخرتک پی ایس اے کے تحت 95 لوگوں کو حراست میں لیا گیا تھا۔ ان میں سے 284ابھی بھی حراست میں ہیں۔
قابل ذکر ہےکہ 5 اگست، 2019 کو جموں وکشمیر کا خصوصی درجہ ختم کیے جانے کے بعد پہلے 30 دنوں میں پی ایس اے کے تحت کم از کم 290 لوگوں کے خلاف معاملہ درج کیا گیا تھا، جن میں سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی شامل تھے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق، اس قانون کے تحت جن لوگوں کے خلاف کیس درج کیا گیا، اس میں کم از کم 250 لوگ کشمیری حلقہ کے تھے۔
یو اے پی اے کے تحت گرفتار کیے گئے 2364 لوگوں میں سے 2019 میں437 معاملوں میں918 لوگ پکڑے گئے۔ اس کے علاوہ 2020 میں 557 معاملوں میں953 لوگ اور اس سال جولائی کے اواخر تک 275 معاملوں میں493 لوگ (کشمیر میں249 معاملے، جموں میں26 معاملے) پکڑے گئے۔ ان میں سے 1100 ابھی بھی حراست میں ہیں۔
ایک ماہر قانون نے کہا، ‘2020 میں پی ایس اے کے تحت درج معاملوں کی تعداد میں قابل ذکر کمی دیکھی گئی، لیکن یو اے پی اے معاملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ یہ پولیس کے کام کرنے کے طریقے میں ایک طرح کا بدلاؤ ہے، جو پی ایس اے کے بجائے زیادہ کڑے قانون (یو اے پی اے) کے تحت لوگوں کے خلاف کیس درج کر رہی ہے، جس میں حراست کے مسلسل توسیع کی ضرورت ہوتی ہے۔’
اس بیچ سرکاری ذرائع کے مطابق، 2019 میں سی آر پی سی کی دفعہ 107 کے تحت 5500 سے زیادہ لوگوں کو پریوینٹو کسٹڈی میں لیا گیا تھا۔ محکمہ داخلہ کے ذرائع نے کہا کہ ان سب کو رہا کر دیا گیا ہے۔
جموں وکشمیر کو لےکرگزشتہ 24 جون کو نئی دہلی میں ہوئی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ کل جماعتی میٹنگ میں گھاٹی کی سیاسی قیادت نے جموں کے ساتھ سیاسی جڑاؤ پھر سے شروع کرنے کےنظریے سے اعتماد کی بحالی کے تدابیر کے طورپر ان کڑے قوانین کے تحت حراست میں لیے گئے قیدیوں کی رہائی کی مانگ کی تھی۔
دی انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے پی ڈی پی کے ترجمان سہیل بخاری نے کہا، ‘ایک طرف زمینی صورتحال میں بڑی تبدیلی کودکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جبکہ اتنے سارے لوگ حراست میں ہیں۔ دوسری طرف مرکزی حکومت صوبےکے درجے کو پارلیامنٹ میں عام صورتحال سے جوڑتی ہے۔ ان دونوں باتوں میں سے کوئی ایک ہی بات سچ ہو سکتی ہے۔’
نیشنل کانفرنس کے ریاستی صدرناصر اسلم وانی نے کہا، ‘انہیں ان قیدیوں کو رہا کرنے یاصوبے کے باہر کے قیدیوں کو جموں کشمیر کے اندر لے جانے پر غور کرنا چاہیے، تاکہ ان کی فیملی کم از کم ان سے مل سکیں۔’
سجاد لون کی قیادت والی پیپلس کانفرنس نے بھی کڑے قوانین کے تحت جاری حراست پر سوال اٹھایا ہے۔
پارٹی ترجمان عدنان اشرف نے کہا، ‘کڑے قومی سلامتی قوانین کے تحت کشمیر کے ہزاروں لوگوں کی حراست گھاٹی میں حفاظتی منظرنامے میں عدم تغیر کی شدیدیاد دلاتی ہے۔ بہتر نظم ونسق کی صورتحال کے بارے میں مرکز کی جانب سے کیے گئے دعووں کے برعکس پچھلے دوسالوں میں یو اے پی اے اور پی ایس اے کے تحت حراست میں لیے گئے لوگوں کی کثیر تعدادتشویش ناک ہے۔’
معلوم ہو کہ آج پانچ اگست کو مرکزی حکومت کی جانب سے جموں وکشمیر سے خصوصی صوبے کا درجہ ہٹائے جانے کے فیصلے کو دو سال ہو گئے۔ 5 اگست، 2019 کو مرکزکی مودی سرکار نے ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت جموں اور کشمیر کے خصوصی صوبے کے درجے کو ختم کر دیا تھا اورصوبے کو دویونین ٹریٹری جموں وکشمیر اور لداخ میں تقسیم کر دیا تھا۔ اس کی مخالفت میں مختلف سیاسی پارٹیوں نے
یوم سیاہ منایا ہے۔
سال 2019 میں یو اے پی اے کے تحت 1948 لوگوں کو گرفتار کیا گیا: سرکار
اس بیچ سرکار نے بدھ کو کہا کہ 2019 میں یو اے پی اے کے تحت 1948 لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ وہیں34 ملزمین کو قصوروار ٹھہرایا گیا۔
وزیر مملکت برائے داخلہ نتیانند رائے نے ایک سوال کے تحریری جواب میں راجیہ سبھا کو یہ جانکاری دی۔ انہوں نے کہا کہ این سی آربی جرائم سے متعلق اعدادوشمار کو مرتب کرتا ہے اور اپنی سالانہ اشاعت‘کرائم ان انڈیا’ میں شائع کرتا ہے۔
رائے نے کہا کہ تازہ ترین شائع رپورٹ 2019 کی ہے اور اس کے مطابق2019 میں یواے پی اے کے تحت 1948 لوگوں کو گرفتار کیا گیا، جبکہ 34 ملزمین قصوروار ثابت ہوئے۔
بتا دیں کہ گزشتہ مارچ مہینے میں مرکزی حکومت نے لوک سبھا میں بتایا تھا کہ سال 2015 سے 2019 کے بیچ یو اے پی اے کے تحت گرفتاریوں میں
72 فیصدی کا اضافہ ہوا ہے۔
وزارت داخلہ نے بتایا تھا کہ یو اے پی اے کے تحت 2019 میں ملک بھر میں درج کیے گئے 1226 معاملوں میں 1948 لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ جس میں سال2015 اور 2018 کے بیچ 897 922 901 اور 1182 معاملے درج کیے گئے تھے اور 1128 999 1554 اور 1421 لوگ گرفتار کیے گئے تھے۔
اعدادوشمار کے مطابق، سال 2019 میں سب سے زیادہ معاملے منی پور میں درج کیے گئے۔ اس کے بعد تمل ناڈو میں 270، جموں کشمیر میں 255، جھارکھنڈ میں 105 اور آسام میں 87 معاملے درج کیے گئے۔
معلوم ہو کہ یو اے پی اے کے تحت ضمانت پانا بہت ہی مشکل ہوتا ہے اور جانچ ایجنسی کے پاس چارج شیٹ داخل کرنے کے لیے 180 دن کا وقت ہوتا ہے۔
یو اے پی اے کی دفعہ43-ڈی (5) میں یہ کہا گیا ہے کہ ایک ملزم کو ضمانت پر رہا نہیں کیا جائےگا، اگر عدلیہ کیس ڈائری کے تجزیہ یا سی آر پی سی کی دفعہ173 کے تحت بنائی گئی رپورٹ پراظہارخیال کرتی ہے کہ یہ ماننے کے لیے موزوں بنیادہے کہ اس طرح کےشخص کے خلاف الزام لگانا پہلی نظر میں صحیح ہے۔
ملک کی مختلف جیلوں میں 478600 قیدی بند ہیں
سرکار نے بدھ کو کہا کہ 31 دسمبر 2019 کی صورتحال کے مطابق ملک کی مختلف جیلوں میں 478600 قیدی بند تھے جن میں 144125 قصوروار ٹھہرائے گئے قیدی تھے جبکہ 330487 زیر سماعت و 19913 خواتین تھیں۔
وزیر مملکت برائے داخلہ اجے کمار مشرا نے ایک سوال کے تحریری جواب میں راجیہ سبھا کو یہ جانکاری دی۔
انہوں نے کہا کہ این سی آربی کی تازہ رپورٹ سال 2019 کی ہے اور 31 دسمبر 2019 کی صورتحال کے مطابق ملک کی مختلف جیلوں میں قیدیوں کی کل تعداد478600 تھی۔ ان میں سے 144125 قصوروار قیدی تھے۔
انہوں نے کہا کہ ملک کے مختلف صوبوں و یونین ٹریٹری کی جیلوں میں ہندو، مسلم، سکھ اور عیسائی قیدیوں کی تعداد بالترتیب: 321155، 85307، 18001 اور 13782 تھی۔
مشرا نے بتایا کہ 31 دسمبر 2019 کی صورتحال کے مطابق،مختلف جیلوں میں ایس سی ایس ٹی اوراو بی سی ودوسرے زمرے کے قیدیوں کی تعداد بالترتیب: 99273، 53336، 162800 اور 126393 تھی۔
گزشتہ فروری مہینے میں مرکزی حکومت نے بتایا تھا کہ ملک کی جیلوں میں بند 27.37 فیصدی قیدی غیرتعلیم یافتہ اور 21 فیصدی دسویں پاس ہیں۔
وزارت داخلہ نے بتایا تھا کہ ملک کی جیلوں میں بند 478600 قیدیوں میں سے 132729 (27.37 فیصدی) غیر تعلیم یافتہ ہیں جبکہ 5677 تکنیکی ڈگری یا ڈپلومہ ہولڈر ہیں۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)