فرانسیسی ویب سائٹ میدیا پار کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جولائی 2023 میں ہندوستان میں فرانسیسی سفیر ایمانوئل لینین نے مجرمانہ معاملات پر ہندوستان کے ساتھ تعاون میں درپیش مسائل کا ذکر کیا تھا۔ ان کا کہنا تھاکہ ہندوستان کے ذریعے کئی معاملوں کو بہت تاخیر سے اور اکثر آدھے ادھورے انداز میں نمٹایا جا رہا ہے۔
نئی دہلی: پیرس کی تحقیقاتی ویب سائٹ میدیاپار میں شائع نئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نریندر مودی کی قیادت والی ہندوستانی حکومت فرانس کے ان ججوں کے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کر رہی ہےجنہوں نے 2016 میں ہندوستان کو 7.8 بلین یورو میں داسو ایوی ایشن کے تیار کردہ 36 رافیل فائٹر جیٹ کی فروخت میں ہوئی مبینہ بدعنوانی کی جاری تحقیقات میں ہندوستان سے تعاون کی درخواست کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، 25 جولائی 2023 کو لکھے گئے ایک سفارتی نوٹ میں ہندوستان میں فرانس کے سفیر ایمانوئل لینین نے ہندوستان کے ساتھ مجرمانہ معاملات پر تعاون میں در پیش مسائل کا ذکر کیا تھا۔ انہوں نے نوٹ میں کہا،’کئی معاملوں کو ہمارے ہندوستانی شراکت داروں نے انتہائی تاخیرسے اور اکثر آدھے ادھورے طریقے سے نمٹایا ہے۔’
مودی سرکار کی جانب سے ٹال مٹول کا رویہ، جانچ سے انکار
میدیاپار کی جانکاری کے مطابق، ہندوستانی حکومت نے اصل میں اس معاملے میں، جو نومبر 2022 میں مشتبہ ‘بدعنوانی’، ‘اپنے اثر و رسوخ کے استعمال’ اور ‘جانبداری’ کی مجرمانہ تحقیقات کے لیے دو فرانسیسی ججوں نے شروع کی تھی، کے حوالے سےبین الاقوامی تعاون کی رسمی درخواست کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وزارت نے ہندوستان میں فرانسیسی سفارت خانےکو’اس کی تمام طرح کی بات چیت/مواصلات کو بند کرنے سے پہلے آٹھ ماہ تک گمراہ کرنے کے لیے کہا تھا۔ لہٰذا، ہندوستان میں فرانسیسی سفیر، لینین، جو اب برازیل میں فرانس کے سفیر ہیں، کو اس مسئلے پر سفارتی نوٹ لکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔
اپنے نوٹ میں انہوں نے یہ بھی لکھا تھاکہ فرانسیسی حکومت نے ‘کچھ معاملوں کو آگے بڑھانے’کی کوشش کے تحت 11 اور 12 اگست کو کولکاتہ میں ‘جی 20 انسداد بدعنوانی سربراہی اجلاس کے موقع’ کا استعمال کیا۔
اس سے قبل، میدیا پار نے ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ کیسے فرانسیسی اور ہندوستانی حکومتیں ایک انتہائی حساس تحقیقات کو سست کرنے کی منشا رکھتی ہیں، جس میں تین سربراہان مملکت یا حکومت کے؛ ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی، فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون اور ان کے پیش رو فرانسوا اولاند کے نام آ سکتے ہیں۔
اکتوبر 2018 میں اس کی تفتیش کر رہےججوں نے ہندوستانی حکام سے داسو ایوی ایشن اور مبینہ اگستا ویسٹ لینڈ چاپر گھوٹالے میں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) کے ذریعےگرفتار کیے گئے بااثر دفاعی تاجر سشین گپتا سے متعلق عدالتی دستاویز بھیجنے کی درخواست کی تھی۔
میدیا پار نے 2021 میں بتایا تھا کہ اس بات کے ‘خاطر خواہ ثبوت ملے تھے کہ ‘داسو نے 2016 میں ہوئے رافیل سودے کو حاصل کرنے کے لیے خفیہ طور پر ایک ہندوستانی مڈل مین سشین گپتا کو کئی ملین یورو کی ادائیگی کی تھی۔’
میدیاپار نے اپنی حالیہ تحقیقات میں بتایا ہے کہ فرانس میں تفتیش کرنے والے ججوں کو خفیہ دستاویزوں کو پبلک کرنے سے دو مرتبہ انکار کیا گیا تھا، جن میں سے کئی دستاویز انہیں فرانسیسی دفاعی اور ہوابازی کی کمپنی داسو کی تلاشی کے دوران ملے تھے۔
جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے سب سے پہلےاکتوبر 2018 میں فرانسیسی ججوں نے ہندوستانی حکام کو داسو اور گپتا سے متعلق عدالتی دستاویز بھیجنے کو کہا تھا۔
دوسرا، فرانسیسی ججوں نے دو جگہوں – گپتا کی کمپنیوں میں سے ایک کے دفتر، اور دوسرا داسو ریلائنس ایرو اسپیس لمٹیڈ (ڈی آر اے ایل )کے ہیڈکوارٹر کی تلاشی لینے کو بھی کہا تھا، جہاں وہ خود موجود رہنا چاہتے تھے۔
ڈی آر اے ایل داسو اور ریلائنس گروپ کی مشترکہ کمپنی (جے وی )ہے، جسے ارب پتی تاجر انل امبانی چلاتے ہیں۔
دی ہندو نے فروری 2019 میں ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ مودی حکومت نے آخری معاہدے پر دستخط کرنے سے ٹھیک پہلے 2016 میں رافیل سودے سے ‘اینٹی کرپشن کلاز‘ ہٹا دیے تھے۔ اخبار نے اطلاع دی تھی کہ ہندوستانی فریق کی مذاکراتی ٹیم کے ارکان کے اعتراضات کے باوجود ایسا کیا گیا تھا۔
نیوز ویب سائٹ دی پرنٹ نے جولائی 2023 میں ایک رپورٹ میں بتایا تھاکہ فرانسیسی ایوی ایشن کے سربراہ اپنے مشترکہ منصوبے (جے وی ) ڈی آر اے ایل میں امبانی کی حصہ داری خریدنا چاہ رہی ہے۔ جبکہ مشترکہ منصوبے میں فرانسیسی فرم کی 49فیصدحصہ داری ہے اور 51فیصد ریلائنس ڈیفنس کے پاس ہے۔
ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ہندوستان کے رافیل معاہدے پر دستخط کرنے کے بہ مشکل دو ہفتے بعد داسو اور ریلائنس نے 3 اکتوبر 2016 کو اپنے جوائنٹ وینچر اور ڈی آر اے ایل کا اعلان کیا تھا۔ میدیاپار نے اپنی ایک رپورٹ میں یہ بھی بتایا ہے کہ کس طرح امبانی نے سال 2015 میں فرانس سے ٹیکس میں چھوٹ حاصل کی تھی۔
میدیاپار نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ نئی دہلی میں فرانسیسی سفیر نے عدالتی درخواست کے حوالے سے ہندوستانی حکام سے تعاون میں تاخیر پر شدید تشویش کا اظہار کیا تھا۔
اس کے مطابق، ’28 نومبر 2022 کو سفارت خانے کے ڈومیسٹک سکیورٹی آفیسر (اتاشی) ذاتی طور پر بین الاقوامی تعاون کے رابطہ انچارج جج سے ملاقات کے لیے وزارت داخلہ گئے تھے اور فرانسیسی ججوں کی درخواست شیئر کی تھی۔ چند روز بعد اسے بذریعہ کورئیر وزارت کو بھی بھیج دیا گیا تھا۔’
اس میں کہا گیا ہے کہ ہندوستانی رابطہ جج نے دو ماہ سے ان سے رابطہ نہیں کیا۔ پھر، 6 فروری 2023 کو انہوں نے فرانسیسی حکام کو مطلع کیا کہ ان کا تبادلہ کسی اور عہدے پر کر دیا گیا ہے اور فوری طور پر کوئی متبادل نہیں ہے۔ اس پر فرانسیسی سفیر ایمانوئل لینین کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے لگا۔
اس طرح 6 اپریل کو ان کے سیکنڈ کمانڈ ان اور ان کے سفارت خانے کے ڈومیسٹک سکیورٹی اتاشی نے ہندوستانی وزارت خارجہ میں بین الاقوامی امور کے ڈائریکٹر انچارج کے ساتھ ہندوستانی وزارت خارجہ میں بین الاقوامی امور کے انچارج ڈائریکٹر سے ملاقات کی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دونوں عہدیداروں نے فرانسیسی ججوں کی درخواست کا ‘جلد از جلد’ جواب دینے کا وعدہ کیا۔
اس کے بعد فرانسیسی سفارت خانے کو 24 اپریل کو اطلاع ملی کہ وزارت داخلہ نے آخر کار ایک نیا رابطہ جج مقرر کیا ہے جو فوجداری مقدمات میں تعاون کی درخواستوں کو نمٹانے کے لیے ذمہ دار ہے۔
سفیر نے نوٹ میں کہا ہے، ‘ رابطہ کرنے کے بعد انہوں نے کبھی ہماری درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔ اس کے باوجود ان کی تقرری کی تصدیق وزارت داخلہ نے 20 جولائی 2023 کو ایک ای میل میں کی تھی، جو ہوم لینڈ سکیورٹی آفیسر کو موصول ہوئی تھی، جنہوں نے ایک بار پھر ان ججوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی۔’
میدیاپار کی رپورٹ کہتی ہے کہ یہ معاملہ خاص طور پر مودی حکومت کی اس خواہش کی عکاسی ہے کہ رافیل طیاروں کی فروخت میں بدعنوانی کی فرانسیسی عدالتی تحقیقات کسی نتیجے پر نہ پہنچے۔ نتیجے کے طور پر تفتیش کرنے والے ججوں کو ایک بڑی رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، کیونکہ ان کے پاس کلاسیفائیڈ فرانسیسی دستاویز اور ہندوستانی عدالتی دستاویز نہیں ہیں جو خفیہ کمیشن کی ادائیگی کو ثابت کر سکتے ہیں۔
فرانس میں بھی اس کیس کے حوالے سے ججوں کو چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
سال 2019 میں فرانس کے مالیاتی جرائم پراسیکیوشن یونٹ کے اس وقت کے سربراہ ایلین اولیٹ نے ‘فرانس کے مفادات کے تحفظ’ کے لیے اپنے ایک نائب کے مشورے کے خلاف اینٹی کرپشن این جی او شیرپا کی شکایت کو مسترد کر دیا۔ میدیاپار کے ‘رافیل پیپرز’ کی تحقیقات کے انکشافات کی بنیادپر شیرپا کی دوسری شکایت پر جون 2021 تک کسی جج کی سربراہی والی تحقیقات شروع نہیں ہوئی تھی۔
مواصلاتی خدمات اور حکومت ہند کی وزارت داخلہ نے میدیاپار کا کوئی جواب نہیں دیا۔