خصوصی رپورٹ: دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ سرکاری ملکیت والی این اے ایف ای ڈی کی نیلامی کےعمل میں تبدیلیوں کے باعث مل مالکان کو گزشتہ چار سالوں میں5.4 لاکھ ٹن خام دالوں کی پروسسنگ کےلیے کم از کم 4600 کروڑ روپے کا منافع ہوا۔ اس سے سرکاری خزانے کا شدیدنقصان ہوا اور ممکنہ طور پر دالوں کی کوالٹی بھی متاثر ہوئی۔
نئی دہلی: مودی حکومت کی جانب سے نیلامی کےعمل میں تبدیلی کیے جانے کے باعث غریبوں کے لیے مختص کئی ٹن دالوں سے مل مالکان کی جھولی بھر گئی ہے۔
دی رپورٹرز کلیکٹو کو نیلامی کےدستاویزوں کی جانچ میں پتہ چلا ہے کہ سرکاری خریداری ایجنسی نیشنل ایگری کلچر کوآپریٹو مارکیٹنگ فیڈریشن آف انڈیا لمیٹیڈ(این اے ایف ای ڈی)، جو مل مالکان کو فلاحی اسکیموں کے تحت خام دالوں کو پروسس کرنے کے لیے منتخب کرتی ہے،2018 سے اب تک ایک ہزار سے زیادہ بارنیلامی کر چکی ہے۔لیکن بیس ریٹ/بیس پرائس یا کم از کم بولی کی حد طےنہیں کی گئی تھی۔ جس کی وجہ سے مل مالکان کو اپنا منافع چھپانے کا موقع ملا۔
پبلک ڈومین میں دستیاب دستاویزوں اور آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت ملی جانکاری سے پتہ چلتا ہے کہ ان بولیوں کی وجہ سے،مل مالکان کو پچھلے چار سالوں میں5.4 لاکھ ٹن خام دالوں کو پروسس کرنے کے لیے کم از کم 4600کروڑ روپےکا منافع ہوا۔جس کی وجہ سے سرکاری خزانے پر اثر پڑا اور ممکنہ طور پردالوں کی کوالٹی بھی اچھی نہیں رہی۔
یہ دالیں ملک بھر میں فلاحی اسکیموں اور دفاعی خدمات سے فائدہ اٹھانے والوں کے لیےتھیں۔
بولی لگانےکےعمل میں یہ خامیاں اس وقت سامنے آئیں جب کووڈ-19 لاک ڈاؤن کے دوران پردھان منتری غریب کلیان یوجنا(پی ایم جی کے اے وائی) کے تحت تقسیم کی جارہی دالوں کی کوالٹی کے بارے میں متعدد ریاستوں نے مرکزی حکومت سے شکایت کی۔ کچھ ریاستوں نے تو اس کولینے سے بھی انکار کر دیا تھاکیونکہ وہ کھانے کے قابل نہیں تھیں۔
حکومت اب اس نقصان کو پورا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ کئی سرکاری عہدیداروں نے رپورٹرز کلیکٹو کو بتایا کہ داخلی طور پر حکومت نے ان مشتبہ نیلامیوں پرنظرثانی کے لیے کہا ہے۔ انہوں نے اس قدم کو ‘اصلاح’ کا نام دیا ہے۔
حکومت کے سب سے بڑے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، سینٹرل انسٹی ٹیوٹ آف پوسٹ ہارویسٹ انجینئرنگ اینڈ ٹکنالوجی(سی آئی پی ایچ ای ٹی) نے بھی نیلامی پر حکومت کو ایک رپورٹ بھیجی ہے۔
سی آئی پی ایچ ای ٹی کے ڈائریکٹر نچیکیت کوتوالیوالے نے کہا،‘ہم نے حکومت کو ایک رپورٹ پیش کی ہے جس میں سفارش کی گئی ہے کہ این اے ایف ای ڈی کو دالوں کی خریداری، اسٹاک اور پروسسنگ کیسے کرنی چاہیے۔’
رپورٹ نے حکومت کو اس بات کا جائزہ لینے کے لیےایک بین ایجنسی کمیٹی کی تشکیل پر مجبور کیا ہے کہ کس طرح لاکھوں ٹن دالوں کی خریداری ،اسٹاک اور ملنگ(کچی دال کی صفائی)این اے ایف ای ڈی کے ذریعہ کی جاتی ہے، یہ ایک ایسا کاروبار ہے جس میں ٹیکس دہندگان کے ہزاروں کروڑ روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔
یہ کمیٹی اب تک تین بار بیٹھک کر چکی ہے،لیکن ابھی تک اس نے اپنی سفارشات کو حتمی شکل نہیں دیا ہے، جبکہ این اے ایف ای ڈی دالوں کی خریداری اور ملنگ کے ایک اور سال کے لیے تیار ہے۔
شروعات
دال مل مالکوں کو فائدہ پہنچانےوالے نئے نیلامی عمل کو کسانوں اور غریبوں کے نام پر لایا گیاتھا۔ سال 2015 میں جب مٹر اور دالوں کی قیمتوں میں اضافےکے باعث ہندوستان کو‘جھٹکوں’کا سامنا کرنا پڑا تو این اے ایف ای ڈی کو اس کی خریداری کی ذمہ داری دی گئی۔
این اے ایف ای ڈی نے کسانوں کو مزید دالیں پیدا کرنے کی ترغیب دی اور ان سے وعدہ کیا کہ وہ ان کی پیداوارکوخریدے گا۔
چونکہ جب دالوں کا ذخیرہ این اے ایف ای ڈی بڑھاتا گیا تو اس نے سال 2017 میں تجویز پیش کی کہ یہ دالیں ریاستوں کو فلاحی اسکیموں کے تحت کم قیمت پر دی جائیں گی۔
این اے ایف ای ڈی اور مرکزی حکومت نے فیصلہ کیا کہ وہ خام دالوں کو ‘کھانے کے قابل’بناکر انہیں ریاستی حکومتوں تک پہنچائیں گے۔اس وقت این اے ایف ای ڈی کے پاس ملنگ فیس کی بنیاد پر پلس ملنگ نیلامی کاایک شفاف سسٹم تھا، جس کے ذریعے حکومت کو کم سے کم قیمت پر دالوں کی پروسسنگ کروانے مل مالک جاتےتھے۔
یہ کچھ اس طرح کیا جاتا تھا؛فرض کریں کہ حکومت 10 کیلو کچی اُڑد کو 70 کیلو دالوں میں تبدیل کرنا چاہتی ہےتو مل مالکان کو بھوسی اتارنے، دالوں کو پالش کرنے، پیکنگ اور ٹرانسپورٹ کرنے کے اخراجات کا حساب کرکےاس میں منافع جوڑ کرایک قیمت حکومت کو پیش کرنی ہوتی تھی۔ اس میں سے جس مل مالک کی قیمت سب سے کم ہوتی تھی، حکومت بولی اس کے نام کر دیتی تھی۔
لیکن مرکزی حکومت کی ایجنسی این اے ایف ای ڈی نے بولی لگانے کے اس سادہ عمل کو پیچیدہ اور مل مالکان کے لیےمنافع بخش بنا دیا۔اب بولی لگانے والوں کو دلہن کی اپج کوپروسسنگ کرکےدال بنانے اور اسے مقررہ جگہ پر پہنچانے کے لیے سب سے کم ممکنہ قیمت بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اس کی جگہ پر انہیں سب سے زیادہ ممکنہ آؤٹ ٹرن ریشیو یا او ٹی آربتانا ہوتاہے۔
او ٹی آر کا مطلب ہےکہ مل مالک خام مال کے مقابلے میں کتنی مقدار میں تیارکیا ہوا پروڈکٹ دے سکتا ہے۔دوسرے لفظوں میں کہیں تو ایک کوئنٹل چنا،ارہر، اُڑد وغیرہ دلہن کے مقابلے وہ کتنی دال نکال سکتے ہیں۔
اس طرح جو مل مالک جو سب سے زیادہ دالیں یا او ٹی آر دینے کا وعدہ کرتے ہیں، بولی ان کے نام کردی جاتی ہے۔
اگرچہ اس پورے عمل میں این اے ایف ای ڈی او ٹی آر کی کم از کم حد کا اعلان نہیں کرتا،نتیجتاً مل مالکان کو منافع اورٹیکس دہندگان کوجھٹکا لگتا ہے۔اس تناسب میں صرف ایک فیصد کا فرق ہونے پر حکومت کو سینکڑوں کروڑ روپے کے نقصان کا خدشہ رہتاہے۔
پلس ملنگ کے کاروبار میں کم از کم او ٹی آر کی حد کو طے کرنا کوئی نئی بات نہیں تھی۔ گٹ بندی اور قدر میں کمی(کم قیمت)سے بچنے کے لیے ریاست اس کو حفاظتی اقدام کے طور پر اپناتی رہی ہے۔
مثال کے طور پر،آندھرا پردیش اسٹیٹ سول سپلائی کارپوریشن نے چنا دال کو پروسسنگ کرنے کے لیے19 اگست 2020 کو ایک ٹینڈر جاری کیا تھا۔ اس ٹینڈر میں جس کا اسکرین شاٹ نیچے دیا گیا ہے، میں اوٹی آرکی کم از کم حد 70 فیصد مقرر کی گئی تھی، یعنی کوئی بھی مل مالک اس سے کم کی بولی نہیں لگا سکتا تھا، اس کے نتیجے میں وہ صرف ایک حد تک ہی کمائی کر سکتا تھا۔
سی اے جی نےبھی2015 میں اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ نیلامی کے لیےاو ٹی آرکاعمل اپنانے کی وجہ سے رائس مل مالکان نے بہت زیادہ منافع کمایا ہے۔او ٹی آرکم ہونے کی وجہ سے مل مالک باقی بچےچاول کوالگ سے فروخت کر لیتے ہیں جس کی وجہ سے حکومت کو تقریباً2000 کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔
سی اے جی اس بےضابطگی کو اس لیےپکڑنے میں کامیاب رہاکہ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف کراپ پروسسنگ ٹکنالوجی(آئی آئی سی پی ٹی)نے دکھایا تھا کہ چاول کی قسموں کا اوسطاًاوٹی آر آندھرا پردیش حکومت کے منظور کردہ اوٹی آر سے کہیں زیادہ ہے۔
اس نیلامی کا یہ طریقہ2020 میں سینٹرل ویجیلنس کمیشن کے سامنے بھی لایا گیا تھا، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ اس نیلامی سے 1000 کروڑ روپے سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے اور اس کے مکمل آڈٹ کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا۔ لیکن اس شکایت پر اب تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
مل مالکوں کو کیسے ہوا فائدہ
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ او ٹی آر نیلامی کے عمل کے تحت جب این اے ایف ای ڈی اور مل مالکان کے درمیان رقم کا کوئی لین دین نہیں ہوتا ہے تو مل مالکان کو فائدہ کیسے ہوا؟
اس کاجواب یہ ہے کہ چونکہ این اے ایف ای ڈی اس نیلامی کےعمل کے تحت او ٹی آر کی کم از کم حد کو طے نہیں کرتا ہے، اس لیے مل مالک جتنا دال نکالنے کا امکان رہتا ہےاس سےکم پر بولی لگاتے ہیں۔ اس طرح جواضافی دال بچتی ہےاس کو وہ بازار میں بیچ کر اضافی منافع کماتے ہیں۔
اس میں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کتنا منافع زیادہ ہے؟یہ وہی بات ہے جو این اے ایف ای ڈی اس کاروباری ماڈل میں لکھنے میں ناکام رہا ہے۔ نہ تو این اے ایف ای ڈی اور نہ ہی حکومت کو اس بات کا کوئی احساس ہے کہ مل مالک اس اضافی تیار شدہ دال کو کس مارکیٹ ریٹ پر بیچتے ہیں اور ہر ٹینڈر پر انہوں نے کل کتنا منافع کمایا ہے۔
رپورٹرز کلیکٹو نے نیلامیوں کا تجزیہ کیا اور پایا کہ کووڈ 19لاک ڈاؤن کے دوران غریبوں کو دال فراہم کرانے کے لیےپی ایم جی کے اے وائی اسکیم کے تحت ارہر کےلیےمنظور شدہ او ٹی آرسال 2018میں تمل ناڈو حکومت کی جانب سے مقرر کردہ کم از کم قیمت سے تقریباً آٹھ فیصد کم تھی۔
پی ایم جی کے اے وائی کے تحت کسی ایک پروڈکٹ کے لیے منظور شدہ بولیاں61 فیصد تک کم ہیں۔
تاہم علاقوں کے لحاظ سے او ٹی آرقیمتوں میں تبدیلی آتی ہے۔یہاں تمل ناڈو کی مثال یہ ظاہر کرنے کے لیے دی گئی ہے کہ او ٹی آر کے لیے کم از کم حد مقرر کی جا سکتی ہے، جسے مرکز نے کئی سالوں سے نظر انداز کیا ہوا ہے۔
دستاویزوں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ محکمہ امور صارفین نے او ٹی آر کی بنیاد پر پی ایم جی کے اے وائی کے تحت دالوں کی ملنگ اور سپلائی کی لاگت کا حساب لگانے کے لیے محکمہ اخراجات کی ایک سفارش کو مسترد کر دیا تھا۔ اس کی وجہ سے اس بات کا کوئی حقیقی اندازہ نہیں ہو سکا کہ آیا منظور شدہ او ٹی آر مناسب ہے یا نہیں۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیوں این اے ایف ای ڈی نے کم از کم حد طے نہیں کی، ایجنسی نے کہا، ویئرہاؤس سے مل پوائنٹ تک نقل و حمل، لوڈنگ، ان لوڈنگ، پروسسنگ، پیکنگ اور ڈیلیوری کے مقام تک نقل و حمل کی لاگت ہر نیلامی میں گوداموں اور مقامات کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ، اس لیے نیلامی سے پہلے کم از کم حد طے کرنا ممکن نہیں ہے۔
این اے ایف ای ڈی نے کہا، اس کے علاوہ او ٹی آر پر مبنی نیلامی کا مقصد ریاستوں کے ڈیلیوری ڈپو کو صاف دالوں کی سپلائی کے دوران ہونے والی تمام اضافی لاگتوں کی وجہ سے کوئی اضافی رقم ادا کیے بغیر خام دالوں کو صاف دالوں میں تبدیل کرنا تھا۔
پی ایم جی کے وائی کےتناظرمیں انہوں نے کہا،این اے ایف ای ڈی نےضرورت مند لوگوں کو کم سے کم وقت میں دالوں کی سپلائی کو پوراکرنے کے لیے محکمہ امور صارفین کی طرف سے منظور شدہ طریقہ کار کے مطابق او ٹی آر کی بنیاد پر نیلامی کا انتخاب کیاتھا۔
اگرچہ نیلامی کے دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ او ٹی آر سسٹم کے مطابق نیلامی کی پوری مشق وبا شروع ہونے سے پہلے کی گئی تھی۔
یہ جاننے کے لیےکہ این اے ایف ای ڈی نے کس بنیاد پر او ٹی آر بولی لگانے والوں کا انتخاب کیا تھا،آر ٹی آئی درخواستیں داخل کی گئی تھیں،لیکن ایجنسی نے ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے جواب دینے سے انکار کردیا۔ عدالت کا یہ فیصلہ ایجنسی کو معلومات فراہم کرنے سے چھوٹ دیتا ہے۔
رپورٹرز کلیکٹو نے پی ایم جی کے وائی کے تحت ناقص کوالٹی کی دالوں کی سپلائی کی خبروں کےمدنظر ملنگ نیلامی کا جائزہ شروع کیا تھا۔ ان شکایتوں کو نیلامی کے نئے ضابطوں سےجوڑ کردیکھا جا سکتا ہے، جس نے مل مالکان کو اضافی فوائد دینے کا کام کیا ہے۔
جب حکومتیں فلاحی اسکیموں کے تحت غذائی اجناس تقسیم کرتی ہیں تو صارفین تک پہنچنے والے اناج کو کسانوں سے خریدے گئےاسی اسٹاک کاحصہ مانا جاتاہے۔ لیکن بدلے ہوئے نیلامی ضابطے مل مالکان کو کھلے بازار سے ملک کی خراب دالوں کی سپلائی کرنے اور حکومت کو ملنے والے اسٹاک کو اپنے تجارتی استعمال کے لیے رکھنے کی اجازت دیتے ہیں۔
این اے ایف ای ڈی کی ملنگ نیلامی کے تحت، مل مالکان کے پاس کھلے بازاروں سے دالوں کی فراہمی دو اختیارات میں سے ایک ہے۔دوسرا آپشن-این اے ایف ای ڈی سے اسٹاک لیں، پروسس کریں اور پھر ڈیلیور ی کریں۔
پی ایم جی کے وائی نیلامیوں میں حصہ لینے والےایک مل مالک نے کہا، ان نیلامیوں کے تحت ‘زیادہ تر فراہمی مقامی مارکیٹ سے اسٹاک بھیج کر اور ڈیلیوری کے بعداین اے ایف ای ڈی کے خام مال کواٹھا کر کی گئی تھی۔ اسٹاک اٹھانے اور پھر اس کو پروسس کرکے ڈیلیوری کرنے میں بڑی بینک گارنٹی شامل ہوگی۔
اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پراسی صنعت کے ایک سینئرافسر نےکہا، این اے ایف ای ڈی کو واقعی اس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ آیا فراہم کی گئی دالیں ان کے خریدے گئے چنے سے ہیں یانیں۔ ان کو صرف ڈیلیوری سے مطلب ہے۔
یہ این اے ایف ای ڈی کے ذریعےپی ایم جی کے وائی کے تحت سپلائی کو لے کر کیے گئے دعوے کے برعکس ہے۔ دراصل ملنگ اور ڈسٹری بیوشن ایک بارٹر سسٹم کی طرح کام کر تا رہا ہے۔
پی ایم جی کے اے وائی کے تحت دالوں کی ملنگ اور ڈسٹری بیوشن کے بارے میں این اے ای ایف ڈی کا عوامی دعویٰ حقیقت کے برعکس ہے۔
این اے ایف ای ڈی نے دلیل دی ہے کہ نیلامی کے نئے ضابطے، جو مل مالکان کو اسٹاک سوئچ کرنے دیتے ہیں،ڈسٹری بیوشن کو تیز کرنے کے لیے لائے گئے تھے کیونکہ سپلائی چین کورونا کی وجہ سے متاثر ہوئی تھی۔ لیکن چونکہ یہ ضابطے 2018 میں لاگو کیے گئے تھے، اس لیے یہ واضح ہے کہ وبائی امراض کے دوران اس حل کے بارے میں نہیں سوچا گیا تھا۔
این اے ایف ای ڈی نے اپنی جانب سے مل مالکان کو پہلے دالیں سپلائی کرنے اور پھر کچی دالیں لینے کی اجازت دی تھی، جو بعد میں ملک گیر لاک ڈاؤن کے پیش نظر ملنگ کے لیے استعمال کی گئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ضرورت مندوں کو وقت پر دالوں کی فراہمی وقت کی ضرورت تھی۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو این اے ایف ای ڈی بروقت فراہمی کو یقینی نہیں بنا پاتی۔ این اے ایف ای ڈی نے کم سے کم وقت میں پورے ہندوستان میں سپلائی کو کامیابی سے پوراکیا۔
این اے ایف ای ڈی نے اس بارے میں کوئی واضح جواب نہیں دیاکہ وہ کس طرح اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ مل مالک کی طرف سے فراہم کردہ سٹاک اسی کوالٹی کا ہے جو این اے ایف ای ڈی نے مل کو دیا تھا۔
انہوں نے کہا، این اے ایف ای ڈی پی ایس ایس(پرائس سپورٹ اسکیم)کے تحت طے شدہ اصولوں کی بنیاد پردالوں کا اسٹاک خریدتا ہے۔ بعد میں دالوں کے بفر کو برقرار رکھنے کے لیے اسٹاک کو منتقل کیا جاتا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ بفر میں پڑی دالوں کا اسٹاک ایک ہی معیار کا ہے۔
دہلی حکومت نے اپریل 2020 میں اناج کی سپلائی معطل کر دی تھی، جبکہ پنجاب نے ایک سے زیادہ بار خراب کوالٹی کی شکایت کی تھی اور مئی 2020 میں مرکز کو 46 ٹن دالیں واپس کر دی تھیں۔
خریداری ایجنسی نے کہا، این اے ایف ای ڈی نے نہ صرف مل کی سطح پر بلکہ ڈیلیوری پوائنٹس پر بھی اسٹاک کو چیک کیا۔ریاستی/یونین ٹریٹری نے دالوں کی کوالٹی کے بارے میں مطمئن ہونے کے بعد ہی اسٹاک کو قبول کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اگر کہیں سے کچھ شکایتیں آتی تھیں تو اس اسٹاک کومل مالکان کے ذریعےریاستوں کو مطمئن کرنے کے لیےبدل دیا جاتا تھا۔ اسٹاک کی کامیاب ڈیلیوری کے بعد، اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ذمہ داری تھی کہ وہ اسٹاک کے ڈسٹری بیوشن تک کوالٹی کو برقرار رکھیں۔
اگست 2020 میں، گجرات نے مرکز کو مطلع کیا کہ چنے کے21 فیصد نمونے ڈسٹری بیوشن کے لیے نامناسب پائے گئے۔
این اے ایف ای ڈی نے کہا کہ گجرات کے سول سپلائی ڈپارٹمنٹ نے اناج کے سائز میں عدم یکسانیت کی وجہ سے اسٹاک کو خارج کر دیا تھا، جو ایف ایس ایس اے آئی کے تحت کوئی پیرامیٹر نہیں ہے۔
انہوں نے کہا،منظور شدہ طریقوں کے مطابق، دالوں کی سپلائی ایف ایس ایس اے آئی کی ہدایات کے مطابق ہونی چاہیے۔ جبکہ گجرات حکومت کے سول سپلائی ڈپارٹمنٹ نے سپلائی کی جانے والی دالوں کی اپنے معیار پر جانچ کی تھی۔
ایف ایس ایس اے آئی کےاسٹینڈرڈ، جن کی بنیاد پر این اے ایف ای ڈی نے اپنے نیلامی کے عمل کو درست بتایا ہے، چھوٹے خوردہ فروشوں کے لیے ہوتےہیں نہ کہ کسانوں سے خریداری یا بڑے پیمانے پرریاستوں کو سپلائی کے لیے۔
سی آئی پی ایچ ای ٹی نے اب سفارش کی ہے کہ کوالٹی کو یقینی بنانے کے لیے این اے ایف ای ڈی کو خریداری اور ملنگ کے لیے سائنسی معیارات پرعمل کرنا چاہیے۔ حکومت کے ذرائع نے کہا کہ اگر اس رپورٹ پر عمل کیا جاتا ہے تو یہ این اے ایف ای ڈی کے نیلامی کے کھیل کوختم کرسکتا ہے۔
Full response to The Wire… by The Wire
(شری گریش جلیہل رپورٹرز کلیکٹو کےاسسٹنٹ ایڈیٹر ہیں۔ نتن سیٹھی فری لانس صحافی اور رپورٹرز کلیکٹو کے ممبر ہیں۔)
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)