الجزیرہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مودی حکومت نے اڈانی انٹرپرائزز لمیٹڈ کو ہندوستان کے سب سے گھنے جنگلات والے علاقے میں سے ایک میں 450 ملین ٹن سے زیادہ کوئلے کے بلاک سے کان کنی کرنے کی اجازت دی، لیکن قانون میں تبدیلی کرکے دوسری کمپنیوں کے لیے ایسا نہیں کیا گیا۔
گوتم اڈانی۔ (السٹریشن: دی وائر)
نئی دہلی: الجزیرہ میں شائع ہونے والی دی رپورٹرز کلیکٹو کی تحقیقات میں دستاویزوں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ ہندوستانی حکومت نے پچھلے کچھ وقتوں سےمتنازعہ صنعت کار گوتم اڈانی کو کوئلے کے کاروبار کو فروغ دینے کے لیے غیرمعمولی طور پر ان کی حمایت کی ۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے دفتر کی جانب سے اس بات کو یقینی بنانے کے بعد کہ نجی سیکٹر کو کوئلہ بلاک سونپنے کا ایک خصوصی ضابطہ’غیر منصفانہ’ تھا اور اس میں شفافیت کا فقدان تھا، ان کی حکومت نے ایک استثنائی مثال پیش کی۔ اس نے اڈانی انٹرپرائزز لمیٹڈ کو ہندوستان کے سب سے زیادہ گھنے جنگلات والے علاقوں میں سے ایک میں 450 ملین ٹن سے زیادہ کوئلے پر مشتمل بلاک سے کان کنی کرنے کی اجازت دی، لیکن قانون میں تبدیلی کرکے دیگر کمپنیوں کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
اڈانی کو 2014 کے سپریم کورٹ کے فیصلے، جس میں204 کوئلہ بلاکوں کی الاٹمنٹ کو رد کر دیا گیا تھا، کے بعد مودی حکومت کی طرف سے متعارف کرائے گئے ایک ضابطہ کے تحت استثنیٰ قرار دیا گیا تھا ۔ رپورٹرز کلیکٹو کے ذریعے حاصل کردہ دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت نے اس بات کی وضاحت نہیں کی ہے کہ گوتم اڈانی کی ملکیت والے اڈانی گروپ کو یہ خصوصی مراعات کیوں دی گئی۔
یہ رپورٹ دی رپورٹرز کلیکٹو کی تحقیقات کا دوسراحصہ ہے۔
پہلا حصہ یہ بتاتا ہے کہ جب ملک کے ٹاپ آڈیٹرز، کمپٹرولر اور آڈیٹر جنرل نے کاروباری گروپوں کے شیل کمپنیاں بنانے اور ہندوستان کے کوئلے کے ذخائر پر قبضہ کرنے کے لیے ملی بھگت کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا تھا تو نریندر مودی حکومت نے کس طرح اس کونظر انداز کیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے آر پی–سنجیو گوینکا(آر پی–ایس جی) گروپ جو بجلی،آئی ٹی، تعلیم، خوردہ اور میڈیامیں کام کرنے والے 4 بلین ڈالر کا ریونیو گروپ ہے، کومغربی بنگال میں کوئلے کی کان کی نیلامی میں ہیرا پھیری کی اجازت دی تھی۔
کانگریس نے نشانہ بنایا
دوسری طرف مودی حکومت پر اڈانی گروپ کی مدد کرنے کا الزام لگا رہی کانگریس نے بدھ کو اپنی ‘ہم اڈانی کے ہیں کون’ سوال سیریز کے تحت کوئلے کی کانوں کی الاٹمنٹ پر سوالات اٹھائے۔
دی ہندو کے مطابق، کانگریس نے مارچ 2015 کی ایک پیش رفت کی طرف اشارہ کیا، جب سپریم کورٹ کے سابقہ کوئلہ بلاک مختص کو ردکرنے کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے حکومت نے کول مائنز (خصوصی دفعات) ایکٹ کو متعارف کرایا تھا، لیکن اس قانون میں ایک خامی چھوڑ دی ، جس سے بی جے پی کی ریاستی حکومتوں کے ذریعے اڈانی گروپ کو مائن ڈیولپر اور آپریٹر (ایم ڈی او) کے طور پر دوبارہ منتخب کیا گیا۔
بدھ کے بیان میں وزیر اعظم نریندر مودی کے 9 اپریل 2015 کو دیے گئے بیان، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ‘کوئلے اور اسپیکٹرم نیلامی کا نتیجہ یہ ثابت کرتا ہے کہ اگر سیاسی قوت ارادی ہو تو گھوٹالے اور بدعنوانی کی لعنت کو ٹالا جا سکتا ہے اور ‘شفافیت ممکن ہے’، کا ذکر کرتے ہوئے کانگریس کے جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے کہا، ‘یہ المیہ ہے کہ آپ نے کوئلے کے نئے قانون میں قابل عمل دفعات لانے کے بعد اپنے پسندیدہ بزنس پارٹنر کو کوئلے کی بڑی کانیں دوبارہ الاٹ کرنے کے لیے خصوصی کوششیں کرنے کے دو ہفتے بعد ہی بولے تھے۔
رمیش 20 مارچ 2015 کو نافذ کردہ کول مائنز (خصوصی دفعات) ایکٹ کا حوالہ دے رہے تھے، جوسابقہ کوئلے کی کانوں کی الاٹمنٹ کورد کرنے اور نیلامی کرنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کو لاگو کرنے کے لیے تھا۔ تاہم، ایکٹ کے سیکشن 11(1) نے کسی نئے مستفید کو پچھلے الاٹی کے دستخط کردہ کان کنی کے معاہدے کو جاری رکھنے کی اجازت دے کر بچاؤ کاایک آسان راستہ نکالا۔ اس کی وجہ سے 26 مارچ 2015 کو چھتیس گڑھ میں پرسا اور کانٹے بسن کول بلاک سمیت دو کانوں کے لیے مائن ڈیولپر اور آپریٹر (ایم ڈی او) کے طور پر اڈانی گروپ کو بی جے پی کی ریاستی حکومتوں نےدوبارہ منتخب کیا۔
انہوں نے کہا کہ بعد میں نیتی آیوگ کی ایک کمیٹی نے اس مختص پر تنقید کرتے ہوئے ایک رپورٹ دی۔ انہوں نے کہا کہ ایک خط و کتابت بھی منظر عام پر آئی ہے، جس میں وزیر اعظم کے دفتر کے سینئر حکام نے ان مختص کو ‘غیر منصفانہ’ اور ان میں’تسلسل اور شفافیت’ کے فقدان کا ذکر کیا ہے۔
رمیش نے پوچھا، واضح طورپر آپ کے اپنے افسران، شاید جوابدہ ہونے کے خوف سے، اڈانی گروپ کے لیے اس طرح کی جانبداری سے خود کو دور کر رہے ہیں۔ کیا ان کے تحریری تبصرے آپ کی منافقت کی شدید مذمت نہیں کرتے ہیں اوراس حقیقت کو ظاہر نہیں کرتےکہ آپ واضح طور پر’گھپلے اور بدعنوانی کی لعنت’سے داغدار ہیں؟
انہوں نے مزید کہا کہ اعتراضات اٹھانے کے باوجود، کوئلہ بلاک مختص کرنے کے قوانین میں صرف ممکنہ طور پر ترمیم کی گئی تھی، جس نے اڈانی گروپ کو ہوئے ‘متنازعہ مختص کومتاثر نہیں کیا’۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اڈانی گروپ سیکشن 11(1) کی خامیوں کا واحد مستفید ہے۔
رمیش نے پوچھا، ‘کیا آپ نے اپنے افسران پر اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کوئی دباؤ ڈالا کہ کوئی ایسی سابقہ تبدیلیاں نہیں کی گئی ہیں جو آپ کے دوستوں کے تجارتی مفادات اور کیش فلو کو نقصان پہنچا سکتے ہیں؟’
کانگریس نے یہ بھی اعلان کیا کہ 13 مارچ کو – بجٹ اجلاس کے دوسرے حصے کے پہلے دن – پارٹی ریاستی دارالحکومتوں میں راج بھون تک مارچ کرے گی۔ پارٹی مارچ کے آخر تک اضلاع میں اور اپریل میں ریاستی دارالحکومتوں میں ‘پردہ فاش ریلیاں’ (مودی-اڈانی اتحاد کو بے نقاب کرنے کے لیے عوامی اجلاس) منعقد کرنے کا بھی منصوبہ بنا رہی ہے۔