کسی بھی ملک کے لئے اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوگی جہاں کروڑوں مزدوروں کی بربادی قومی شعور اور سیاسی بحث کا حصہ ہی نہیں ہے۔
انتخابی موسم کا رنگ پوری طرح سے چڑھ گیا ہے۔ ساری پارٹیاں دل فریب وعدے کر رہی ہیں۔پلواما اور راشٹرواد کے بیچ روزی روٹی کا سوال بھی انتخابی مباحث کے مرکز میں آ گیا ہے۔بی جے پی کے راشٹرواد کے سامنے کانگریس نے این وائی اے وائی اسکیم کا داؤ کھیلا ہے۔ اس اسکیم کے تحت سال میں کم سے کم 72000 روپے کی کم از کم آمدنی والی 20 فیصد غریب فیملی کے لئے متعین کرنے کا اعلان کیا ہے۔کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا(سی پی ایم)نے بھی اپنے انتخابی منشور میں کم از کم آمدنی 18000 روپے تک فی مہینہ کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جس بنگال پر کمیونسٹوں کی 40 سال تک اجارہ داری رہی وہاں اب بھی کم از کم آمدنی محض 245 روپے کیوں ہے؟ جو مہینے کا سات ہزار بھی نہیں ہوتا ہے۔ کیرل میں کمیونسٹ کی حکومت ہے وہاں کم از کم مزدوری سے آدھی شرحوں پر منریگا میں مزدوری کیوں دی جاتی ہے؟
یہی سوال کانگریس پر بھی واجب ہے آخر اس نے اپنی حکومت میں غریبوں کے ساتھ انصاف کیوں نہیں کیا۔ کم از کم آمدنی کو متعین کیوں نہیں کیا؟ جو اس کو اب انصاف کرنے کی ضرورت پڑ رہی ہے۔بی جے پی نے اپنے منشور میں کسانوں کی آمدنی سال 2022 تک دوگنی کرنے کا ارادہ کیا ہے اور ہرایک کو پختہ مکان دینے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ غور طلب یہ ہے کہ جو حکومت کم از کم مزدوری نہیں دے پائی وہ پختہ مکان کہاں سے دےگی۔منشور میں آگے درج ہے کہ ہر ہندوستانی کے بینک میں اکاؤنٹ ہوگا لیکن بےروزگار نوجوان اور بدحال مزدور اس اکاؤنٹ کا کریںگے کیا؟ بی جے پی کے وعدے اور زمینی حقیقت کے بیچ میں بہت چوڑی کھائی ہے۔
فی الحال پارٹی انتخابی مہم میں راشٹرواد کے ایجنڈے پر ہی فوکس کر رہی ہے۔ کسی بھی پارٹی نے اپنے منشور میں مزدور کو مناسب مزدوری کا وعدہ نہیں کیا ہے۔ مزدور اس انتخابی ڈسکورس سے غائب ہے۔مزدور جو کھیت کھلیان، کارخانوں، گھروں میں کام کرتا ہے وہ اب بھی انتخابی مدعوں میں حاشیے پر ہی دکھ رہا ہے۔ مزدوروں کی بربادی انتخاب کی گرماگرم بحثوں میں ندارد ہیں جیسے مزدوروں کو لے کر حکومت کا کوئی سروکار ہی نہیں ہے۔حکومت کی دیرینہ اسکیموں میں سے ایک مہاتما گاندھی دیہی روزگار اسکیم(منریگا)میں مزدوری اور مزدوروں کی معاشی حالت پر سیاسی گلیاروں میں کوئی بحث نہیں ہورہی ہے۔
کانگریس نے این وائی اے وائی اسکیم کے ساتھ منریگا میں 100 دن کی جگہ 150 دن تک روزگار دینے کا وعدہ اپنے منشور میں ضرور کیا ہے لیکن سچائی کی زمین پر یہ اعلان ٹک پائیںگے، یہ بڑا سوال ہے۔زمینی سچائی کچھ اور ہی حقیقت بیاں کرتی ہیں۔ گزشتہ ایک اپریل کو منریگا کو پورے ملک میں نافذ کئے ہوئے 11 سال گزر چکے ہیں، لیکن منریگا میں کام کرنے والے مزدور آج بھی بدحال ہیں۔ کم از کم آمدنی ان کے لئے سنہرے خواب جیسا ہے۔آج بھی 33 ریاستوں اور یونین ٹیریٹری میں منریگا میں مزدوری دیہی کم از کم مزدوری سے بہت کم ہے کئی ریاستوں میں یہ آدھا سے تھوڑا زیادہ ہے۔ ابھی حال ہی میں وزارتِ دیہی ترقی نے منریگا میں روزانہ مزدوری کو بڑھانے کے لئے ایک نوٹیفکیشن بھی جاری کیا ہے جس کو الیکشن کمیشن کی بھی منظوری مل گئی ہے لیکن اس کی شرحیں ایک سے دو فیصدی بڑھکر ہی سمٹکر رہ گئی ہیں۔
بہار میں پہلے منریگا مزدوری 168 روپے روزانہ تھی، وہ بڑھکر محض 171 روپے ہی روزانہ ہو پائی ہے۔جہاں مہنگائی بےتحاشا بڑھ رہی ہے، وہیں مزدوروں کی کمائی صرف 2 سے 3 روپے ایک سال میں بڑھتی ہے، لیکن اس جانب کسی کا دھیان نہیں ہے۔بہار میں آج کم از کم مزدوری 268 روپے ہے اور منریگا کی بڑھی ہوئی مزدوری کم از کم مزدوری سے اب بھی 97 روپے کم ہے۔ منریگا مزدوری کم از کم مزدوری کا صرف 63 فیصد ہی ہے۔یہ وہی بہار ہے جو سماجیات کا پہلا تجربہ گاہ بنا، جس کا نظریہ تھا کہ تنخواہ میں زیادہ نابرابری نہیں ہونی چاہیے لیکن بہار نے مزدوروں کو کبھی اس کا صحیح محنتانہ نہیں دیا۔مزدوروں کی محنت کا استحصال سب سے زیادہ کیا گیا اور یہ بدستور جاری ہے۔ آج بھی منریگا میں سب سے کم مزدوری بہار اور جھارکھنڈ میں ہی دی جاتی ہے۔ مزدوروں کو ان کا حق دئے بنا ہی سماجی انصاف کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔
منریگا میں ملک میں اوسط مزدوری صرف 210 روپے ہی ہے جو آج کی مہنگائی کے حساب سے مناسب نہیں ہے۔ ناگالینڈ واحد ریاست ہے جہاں منریگا میں ملنے والی مزدوری کم از کم مزدوری سے زیادہ ہے۔سب سے زیادہ مزدوری ہریانہ میں 284 روپے ہے لیکن یہ بھی کم از کم مزدوری سے 55 روپے کم ہے۔ وہیں کیرل میں کم از کم مزدوری 600 روپے ہے لیکن منریگا میں صرف 271 روپے روزانہ ہی مزدوری ہے جو کہ کم از کم مزدوری کا آدھا بھی نہیں ہے۔ملک کی سب سے ترقی یافتہ کہی جانے والی ریاست گجرات میں بھی منریگا کی مزدوری صرف 199 روپے ہے، جو کہ گرام پنچایت میں مقررہ کم از کم مزدوری 312 روپے سے بہت کم ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ریاست وزیر اعظم نریندر مودی کی کرم بھومی بھی ہے۔
حکومت گجرات میں مزدور کو کم از کم مزدوری بھی نہیں دے رہی ہے۔ پھر بھی یہ ریاست ملک میں ترقی کا ماڈل ہے جہاں مزدوروں کے استحصال کی تصدیق خود سرکاری اعداد و شمار کر رہے ہیں۔
آخر مزدور کم از کم مزدوری سے محروم کیوں ہیں؟ حکومت خود اپنے بنائے ہوئے قانون کو نہیں نافذ کر رہی ہے۔ ایسے میں جو مزدور ان آرگنائزڈیا پرائیویٹ سیکٹر میں کام کر رہے ہیں ان کا استحصال تو فطری ہے۔غور طلب ہے کہ ہندوستان میں الگ الگ طرح کی آمدنی طے کی گئی ہے کم از کم آمدنی، معمولی آمدنی اور مناسب آمدنی۔ کم از کم آمدنی میں ایسی آمدنی کی وضاحت کی گئی ہے، جو کسی بھی آدمی کو زندہ رکھنے کے لئے دی جانے والی سب سے کم آمدنی ہے۔ کئی مزدور رہنماؤں نے کم از کم آمدنی کے معیارات کو ہی صحیح نہیں مانا ہے اور اس میں کئی خامیوں کو گنایا ہے۔
ہند مزدور سبھا کے جنرل سکریٹری اور ٹریڈ یونین لیڈر ہربھجن سنگھ سدھو کہتے ہیں،’ ہندوستان میں قومی کم از کم آمدنی جیسا کوئی قانون یا اہتمام نہیں ہے۔ ہر ریاست اپنے حساب سے کم از کم آمدنی طے کرتی ہے۔ ایمانداری سے صحیح پیمانے سے کم از کم آمدنی کو مرکزی حکومت طے کرے تو یہ کم سے کم 28000 روپے ماہانہ ہونا چاہیے۔ ‘سدھو کہتے ہیں،’سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ مزدور کی کم از کم آمدنی کو 25 فیصد بڑھاکر طے کرنا چاہیے کیونکہ مزدور کی فیملی ہوتی ہے، ذمہ داری ہوتی ہیں لیکن حکومت نے کبھی بھی مزدور کو مناسب مزدوری کے لائق نہیں سمجھا۔ پچھلے پانچ سالوں میں حکومت کا رویہ مزدوروں کے تئیں پہلے کی حکومتوں سے بھی زیادہ مایوس کن رہا ہے۔ اس کے علاوہ ایسے قانون بنائے اور ترمیم کئے گئے جو مزدوروں کے مفاد کے مخالف ہیں۔ ‘
کم از کم مزدوری کے علاوہ منریگا میں مزدوری وقت پر نہیں ملنا، روزگار ملنے کے دنوں میں لگاتار کمی ہونا، جیسے چیلنج بھی ہیں، جس سے عام مزدور جوجھ رہا ہے۔کئی مطالعوں کی رپورٹ بتاتی ہے کہ منریگا میں سال میں اوسطاً 50 دن کا بھی روزگار نہیں مل پاتا ہے۔ بہار اور اتر پردیش جیسی ریاستوں میں یہ اعداد و شمار اور بھی کم ہیں۔ملک میں مزدوروں کی حالت بہت اچھی نہیں ہے۔ پچھلی کچھ دہائیوں میں غریب اور امیر کے درمیان کی کھائی اور گہری ہوئی ہے۔ ہندوستان میں وسائل کچھ ہاتھوں تک محدود ہوتا جا رہا ہے اور بڑی آبادی روزمرہ کی بنیادی چیزوں سے بھی محروم ہے۔ حال کے سالوں میں آئے زراعتی بحران نے اس کو اور زیادہ خوفناک بنا دیا ہے۔مزدور آج خود بھوکے ہیں۔ اس کے استحصال کی سرکاری تصدیق خود حکومت کر رہی ہے۔ جہاں طے کی گئی کم از کم مزدوری کو حکومت خود نہیں مان رہی ہے۔ کسی بھی ملک کے لئے اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوگی جہاں کروڑوں مزدوروں کی بربادی قومی شعور اور سیاسی بحث کا حصہ ہی نہیں ہے۔
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ریسرچ اسکالر ہیں۔)