پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت ملزم بنائے گئے نیشنل کانفرنس کے علی محمد ساگر اور پی ڈی پی رہنما سرتاج مدنی کی نظربندی بھی تین مہینے بڑھا دی گئی ہے۔ جموں کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی طرح انہوں نے بھی نظربندی میں نو مہینے بتائے ہیں۔
جموں کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی(فوٹو: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: جموں کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے خلاف پبلک سیفٹی ایکٹ(پی ایس اے)کے تحت ان کی حراست کی مدت تین مہینے کے لیے بڑھا دی گئی ہے۔پی ایس اے کے تحت حراست کی مدت ختم ہونے کے کچھ گھنٹے پہلے جموں وکشمیر انتظامیہ کے محکمہ داخلہ نے مفتی کی حراست بڑھائے جانے سے متعلق ایک مختصر آرڈرجاری کیا۔
مفتی کو حراست میں رکھے جانے والے آرڈر میں کہا گیا ہے کہ فیلڈ ایجنسیوں سے ملی رپورٹ اور ان کے خیالات بتاتے ہیں کہ حراست برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔دو‘ضمنی جیلوں’ میں آٹھ مہینے حراست میں رہنے کے بعد مفتی کو سات اپریل کو ان کے گھر میں نظربند کر دیا گیا تھا۔
مفتی کو شروعات میں احتیاطاً حراست میں رکھا گیا تھا۔ بعد میں اس سال پانچ فروری کو ان پر پی ایس اے کے تحت کارروائی کی گئی تھی۔محبوبہ کی بیٹی التجا نے اپنی ماں کو حراست میں لیے جانے کے خلاف سپریم کورٹ میں فروری میں عرضی دائر کی تھی۔عدالت نے شنوائی کے لیے 18 مارچ کی تاریخ طے کی تھی لیکن کو رونا وائرس کی وجہ سے شنوائی نہیں ہو پائی۔
محبوبہ مفتی کی پارٹی پی ڈی پی نے ٹوئٹ کرکے کہا، ‘کشمیریوں کے آئینی حقوق کو ختم کرنے کے خلاف کھڑے ہونے کے لیے جمہوری طریقے سے منتخب رہنما کو مجرم بنایا جا رہا ہے۔ محبوبہ مفتی نے جموں وکشمیر میں ہندوستان کی جمہوریت کو آگے بڑھایا ہے اور یہ بی جے پی کے اپنے آئین میں ایک جرم ہے۔’
مفتی کے ٹوئٹر ہینڈل سے ایک ٹوئٹ میں، ‘ان کی بیٹی التجا نے کہا، حلقہ کی آوازوں کا گلا گھونٹنا موجودہ نظام کے لیے آئیڈیل بن گیا ہے، بالخصوص آرٹیکل 370 کو غیرقانونی طریقے سے ختم کرنے کے بعد۔ اس لیے، میری ماں کی نظربندی کو بڑھانے کے فیصلے سے مجھے حیرت نہیں ہوئی۔’
نیشنل کانفرنس کے رہنما عمر عبداللہ نے مفتی کی نظربندی بڑھانے کو ناقابل یقین طور پرظلم ہےاور پیچھے کی طرف دھکیلنے والا فیصلہ بتایا۔
عمر نے ٹوئٹ کیا، ‘محبوبہ مفتی کی نظربندی بڑھانے کا فیصلہ ناقابل یقین طور پر ظلم ہے اور پیچھے لے جانے والا ہے۔ مفتی نے ایسا کچھ بھی کیا یا کہا نہیں ہے جس سے حکومت ہند کی جانب سے ان کے اور حراست میں لیے گئے دوسرے لوگوں کے ساتھ اس سلوک کو درست ٹھہرایا جا سکے۔’
عمر نے کہا، ‘لمبے وقت سے جموں وکشمیر میں حالات عام ہونے کا دعوے کرنے والی سرکار کی جانب سے مفتی کی نظربندی بڑھانا اس بات کا ثبوت ہے کہ مودی جی نے جموں وکشمیر کو دہائیوں پیچھے دھکیل دیا ہے۔’پی ایس اے کے تحت ملزم بنائے گئے نیشنل کانفرنس کے علی محمد ساگر اور پی ڈی پی رہنما سرتاج مدنی کی نظربندی بھی تین مہینے بڑھا دی گئی ہے۔ انہوں نے بھی نظربندی میں نو مہینے بتائے ہیں۔
نیشنل کانفرنس نے ایک بیان میں کہا کہ پارٹی رہنما علی محمد ساگر کی پی ایس اے کے تحت حراست کو بڑھانا بے حد تشویش ناک ہے۔بتا دیں کہ، پی ڈی پی رہنما نعیم اختر، پیپلس کانفرنس کے صدر سجاد لون اور سابق آئی اے ایس افسر شاہ فیصل حراست میں رکھے جانے والوں میں شامل ہیں۔ مرکزی حکومت نے پچھلے سال پانچ اگست کو جموں وکشمیر سے خصوصی درجہ واپس لےکر اس کو دویونین ٹریٹری میں بانٹ دیا تھا، جس کے بعد سابق وزرائے اعلیٰ فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت مین اسٹریم کے رہنماؤں سمیت سینکڑوں لوگوں کو پی ایس اے کے تحت حراست میں لے لیا گیا تھا۔
انہی میں سے جموں کشمیر کے سابق وزرائے اعلیٰ فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ سمیت کئی لوگوں کو حال ہی میں رہا کیا گیا ہے۔گزشتہ24 مارچ کو نیشنل کانفرنس کے رہنما اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ پر سے پی ایس اے ہٹاتے ہوئے رہا کر دیا گیا تھا۔ اس سے پہلے پی ایس اے کے تحت ہی حراست میں رکھے گئے عمر کے والد اور سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ گزشتہ13 مارچ کو رہا کر دیے گئے تھے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)