ملائم سنگھ یادو کے اس تیر کا اصل نشانہ وہ شخصیت تھی، جو ان کے پاس ہی بیٹھی تھی۔اب کانگریس اتر پردیش میں پرینکا کی قیادت میں اپنی کھوئی ہوئی جگہ دوبارہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہے، تو اس سے ملائم سنگھ یادو کا فکرمند ہونا ایک فطری امر ہے۔
16ویں لوک سبھا کے آخری اجلاس کے اختتام پر ملائم سنگھ یادو نے وزیر اعظم نریندر مودی کی جو تعریف کی وہ “کہیں پہ نگاہیں، کہیں پہ نشانہ”کی عمدہ مثال ہے۔بظاہر دیکھا جائے تو بزرگ سماجوادی نیتا نے وزیر اعظم کو ان کے الوداعی خطاب کے بعد اپنی نیک خواہشات پیش کی ہیں۔ اس میں انہوں نے رسمیات سے آگے بڑھ کر اس خواہش کا اظہار تک کر ڈالا کہ اختتام پذیر ہو رہی لوک سبھا کے تمام ممبران دوبارہ چنے جا ئیں اور 17ویں لوک سبھا کا بھی حصہ بنیں، مودی ہی دوبارہ وزیر اعظم بنیں۔ اسے نہ صرف اتفاقی نقطہ نظر سے بلکہ سیاسی طور پر پیدا ہو جانے والی کسی ہنگامی صورتحال کے لیے بھی ناممکن اور صرف ایک خواہش ہی کہا جا سکتا ہے۔
لیکن ملائم سنگھ یادو کے اس تیر کا اصل نشانہ وہ شخصیت تھی، جو ان کے بازو میں ہی بیٹھی تھی۔ لوک سبھا میں اپنی چوتھی مدت کار پوری کرنے والی سونیا گاندھی، ملک کے بزرگ اور تجربہ کار سیاستداں ملائم سنگھ یادو کی باتیں سن کر کچھ پریشان سی ہو گئیں۔ ملایم نے کہا،’میں وزیر اعظم کو اس کی مبارکباد دیتا ہوں انہوں نے سب کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کی۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ (پارلیامنٹ کے)تمام ممبران دوبارہ جیت کر آئیں اور نریندر مودی کو دوبارہ وزیر اعظم بننا چاہیے۔’
کچھ پلوں میں ہی سونیا کی آنکھوں کے سامنے بیس سال پرانے ایک واقعے کی جیسے فلم چل پڑی۔ بات 1999 کے موسم گرما کی ہے۔ تب وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی سرکار پارلیامنٹ میں اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہی اور سرکار گر گئی تھی۔ ملائم سنگھ نے سونیا گاندھی کو یقین دلا دیا کہ اگر وہ مرکز میں سرکار بناتی ہیں تو وہ ان کی مدد کریں گے۔ سونیا گاندھی نے ان کی باتوں پر بھروسہ کر کے ٹی وی کیمروں کے سامنے یہ اعلان کر دیا کہ سرکار بنانے کے لیے ضروری پارلیامنٹ کے 272 ممبران کی حمایت انہیں حاصل ہے۔ لیکن ملائم سنگھ اپنی بات سے پلٹ گئے اور سونیا کو خاصی شرمندگی اٹھانی پڑی۔
ادھر جب ملائم سنگھ یادو وزیر اعظم کی مدح سرائی میں مصروف تھے تو پارلیامنٹ ہاؤس سے بمشکل دو کلو میٹر دور 6 جن پتھ یعنی شرد پوار کی رہائش گاہ پرغوروخوض کا دورچل رہا تھا۔یہاں اس بات کو لے کر صلاح مشورہ کیا جا رہا تھا کہ غیر این ڈی اے پارٹیوں کے گٹھ بندھن کو ایک مناسب شکل کیسے دی جائے۔اس غوروفکر میں خود شرد پوار، ممتا بنرجی، چندرا بابو نائیڈو، فاروق عبداللہ اور اروند کیجریوال شریک تھے۔ اس دوران نیشنل کانگریس پارٹی کے نیتا پرفل پٹیل نے مشورہ دیا کہ کانگریس صدر راہل گاندھی کو بھی بلایا جانا چاہیے۔ تب چندرا بابو نائیڈو نے راہل گاندھی کو فون لگایا اور آدھے گھنٹے میں راہل وہاں پہنچ گئے۔
ان حالات کے بیچ ملائم سنگھ یادو کا منصوبہ کیا ہے؟
اس وقت 79 سالہ ملائم سنگھ یادو کی حیثیت سیاستدانوں کے سیاستداں کی ہے اور یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ حالیہ سیاست کے دور میں وہ اپنے بیٹے اکھلیش یادو کے ساتھ نہیں جائیں گے۔ اکھلیش نے جس طرح سماجوادی پارٹی کی حریفِ خاص مایاوتی سے سیاسی اشتراک کرنے میں سرگرمی دکھائی، ملائم سنگھ اس سے ناخوش ہیں۔ نجی گفتگو کے دوران ملائم سنگھ اپنی اس ناراضگی کو ظاہر بھی کر دیتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ملائم کے خیال میں اکھلیش کی راہل و پرینکا سے دوستی بھی سماجوادی کاز کے لیے نقصاندہ ثابت ہوگی۔ ایک طرح سے سماجوادی پارٹی کی جاگیر سمجھے جانے والے مشرقی اتر پردیش میں پرینکا گاندھی کی موجودگی نے بھی ملائم میں موجود پرانے سماجوادی کو پریشان کر دیا ہے۔ان تمام معاملات کے جوڑ گھٹاو یہی بتا رہے ہیں کہ مخصوص اوقات میں ملائم سنگھ ایک طاقتور بی جے پی کو اولیت دیں گے، بہ نسبت دیگر پارٹیوں کے ساتھ اس گٹھ بندھن کے، جس میں سماجوادی پارٹی کو صرف ایک سلائس کی حیثیت حاصل ہو۔ اس صورتحال میں بڑا سوال یہ ہے کہ خرابی صحت اور اپنے سیاسی وجود کو ثابت کرنے کے چیلنج سے جوجھ رہے ملائم سنگھ یادو کیا اکھلیش یادو کو میدان سے باہر کر پائیں گے، یا نوجوان ٹیپو سماجوادی ووٹ بینک کے دل و دماغ میں جگہ پا لے گا؟
تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو کانگریس اور سماجوادی پارٹی کے تعلقات بوقلموں رہے ہیں۔ 1990 میں چاروں طرف سے مشکلات میں گھرے ملائم سنگھ یادو کی طرف تب کانگریس کے صدر راجیو گاندھی نے دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا۔ جنتا پریوار کے ٹوٹ جانے سے اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ ملائم سنگھ یادو کی سرکار اقلیت میں آ گئی تھی۔ اتر پردیش ودھان سبھا کی 425 سیٹوں میں سے ان کے پاس صرف 121ایم ایل اے ہی تھے اور سرکار بچا پانا مشکل تھا۔ تب غلام نبی آزاد اور نرائن دت تیواری کی صلاح پر راجیو گاندھی نے اتر پردیش کے اپنے 94 ممبرانِ اسمبلی کو ہدایت دی کہ وہ ملائم کی حمایت کریں۔ اس طرح سماجوادی پارٹی کی سرکار بچ گئی۔
1989 تک اتر پردیش میں برہمن، دلت اور مسلمان کانگریس کے مضبوط ستون رہے۔ یہ تینوں طبقات مل کر صوبے کے تقریباً آدھے ووٹرس ہو جاتے تھے۔ لیکن منڈل کمیشن کی رپورٹ کے نفاذ سے ذات پرمبنی ریزیویشن نے دلتوں کو، تو ایودھیا کے مندر مسجد تنازعہ نے مسلمانوں کو کانگریس سے دور کر دیا۔ ملائم نے مسلمانوں کو اور مایاوتی نے دلتوں کو اڑا لیا۔ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کا ایک بڑا حصہ بی جے پی کے ساتھ چلا گیا۔
اب کانگریس اتر پردیش میں پرینکا کی زیرِ قیادت اپنی کھوئی ہوئی جگہ اور وقار دوبارہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہے، تو اس سے ملائم سنگھ یادو کا فکرمند ہونا ایک فطری امر ہے۔ اس تناظر میں مودی کی دوبارہ تاجپوشی کی خواہش دراصل کچھ لے کچھ دے کا غیرمحررہ اظہار ہے۔ مودی کے زیرِ قیادت بی جے پی بھی اسی وقت تک کامیاب ہے جب تک وہ صوبے میں پوری طرح اپنے دم پر سماجوادی پارٹی کے لیے چنوتی بنی ہوئی ہے۔ اس سیاسی منظرنامے میں ملائم نے 2004 سے 2014 کے دورانیے کو چھوڑ کر اتر پردیش میں اپنی جگہ بنائے رکھی۔ جبکہ 2004 میں 36 اور 2009 میں لوک سبھا کی 23 سیٹیں جیتنے کے باوجود ملائم سونیا کے لیے غیر ضروری ہی بنے رہے۔
سونیا انہیں ایک غیر معتبر حلیف کے طور پر دیکھتی ہیں۔ ملائم اور سماجوادی طبقے سے اتر پردیش کے کئی الیکشن میں لوہا لینے کے بعد سونیا اور کانگریس یہ سمجھ چکے ہیں کہ اس صوبے میں انہیں ہرا پانا ٹیڑھی کھیر ہے، البتہ انہیں ساتھ لے کر ضرور کچھ فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
ادھر وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی خاموش نہیں بیٹھے ہیں۔ گو کہ وہ پوری خود اعتمادی کے ساتھ ظاہر کر رہے ہیں کہ 2019 کے لوک سبھا انتخاب وہی جیتنے جا رہے ہیں مگر اندرونِ خانہ پارٹی مینجرس پلان بی، سی و ڈی بھی تیار کیے بیٹھے ہیں۔ مبادا2019 کے انتخاب میں امید کے مطابق کامیابی حاصل نہ ہوئی اور کوئی ہنگامی صورتحال بنی تو ملائم اور پوار 1999 کی تاریخ دوہرانے کے لیے مناسب ساتھی ثابت ہوں گے۔
فلم سی آئی ڈی کے ایک خوبصورت گیت میں لازوال آواز کی مالک شمشاد بیگم آگے کہہ رہی ہیں’آیا شکاری او پنچھی تو سنبھل جا… اڑ جا او پنچھی شکاری ہے دیوانہ…