اقلیتی امور کی وزارت کے زیر انتظام مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ اسکیم کے مستحق ریسرچ اسکالروں کو مہینوں سے ان کی گرانٹ کی رقم نہیں ملنے کی وجہ سے مالی بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کچھ طلبہ اپنی پڑھائی ترک کرنے پر بھی غور کر رہے ہیں۔
مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ بند کیے جانےکے خلاف احتجاج کر رہےطلبہ۔ (فوٹوبہ شکریہ: فیس بک/ AISA-SFI)
نئی دہلی: مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ (ایم اے این ایف) کے مستحق ریسرچ اسکالروں کو کچھ عرصے سے فیلوشپ کی رقم نہیں مل رہی ہے۔
سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیر (گاندربل) میں پی ایچ ڈی اسکالر27 سالہ ذیشان احمد شیخ بھی ان لوگوں میں سے ایک ہیں جنہیں فیلوشپ نہیں مل رہی ۔
دی ہندو کی ایک رپورٹ کے مطابق، ذیشان کو ایم اے این ایف کے تحت ماہانہ 33700 روپے مل رہے تھے۔ جس سے وہ نہ صرف اپنے تعلیمی اخراجات پورے کر رہے تھے بلکہ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی اسکول کی فیس بھی ادا کر رہے تھے۔
اگست 2022 سےذیشان اپنے رشتہ داروں اور دوستوں سے رقم ادھار لے کر اخراجات پورے کر رہے ہیں کیونکہ ان کو فیلوشپ کا انتظار ہے۔
دسمبر 2021 میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کا قومی اہلیت کا امتحان (یو جی سی نیٹ) پاس کرنے والے ذیشان فروری 2022 سے ایم اے این ایف کے لیے اہل ہوئے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں اب تک صرف ایک بار گرانٹ ملی ہے اور اس کا زیادہ تر حصہ سود کے ساتھ لیے گئے قرض کی ادائیگی میں چلا گیا۔
کشمیر میں ایک ٹھیکیدار کے بیٹے ذیشان اپنے خاندان کے پہلے فرد ہیں جنہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی طرف قدم بڑھایا ہے۔ ان کو لگتا ہے کہ انہیں اپنی پڑھائی چھوڑ کر کام شروع کر دینا چاہیے تاکہ وہ اپنے والد کی مدد کر سکیں۔
ذیشان کا کہنا ہے کہ ،ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں کسی ایسی چیز کے لیے بھیک مانگ رہا ہوں جو میں نے کمایا ہےاور اس کا حقدار ہوں۔
انہوں نے الزام لگایا کہ اس اسکیم کو (بندکرنے سے پہلے)چلانے والی اقلیتی امور کی وزارت نے ان کے ای میل کا کبھی جواب نہیں دیا اور جب انہوں نے لینڈ لائن نمبر پر کال کی تو ان کے ساتھ بدتمیزی کی گئی ۔
ذیشان کی طرح ہی ملک بھر میں سینکڑوں پی ایچ ڈی اسٹوڈنٹ ایم اے این ایف کے منتظر ہیں۔
ایم اے این ایف مرکزی حکومت کی طرف سے مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں، پارسیوں، بدھ متوں اور جینوں کو فراہم کی جانے والی ایک پانچ سالہ فیلوشپ ہے ۔ یہ اسکیم متحدہ ترقی پسند اتحاد (یو پی اے) حکومت نے سچر کمیٹی کی سفارشات کے نفاذ کے ایک حصے کے طور پر شروع کی تھی۔
لوک سبھا میں حکومت کی طرف سے بتائے گئےیو جی سی کے اعداد و شمار کے مطابق، 2014-15 اور 2021-22 کے درمیان ایم اے این ایف اسکیم کے تحت تقریباً 6722 امیدواروں کا انتخاب کیا گیا تھا اور اس مدت کے دوران 738.85 کروڑ روپے کی فیلو شپ تقسیم کی گئی تھی۔
ممبئی کی کنول پریت کور (35) کو بھی آخری بار اگست 2022 میں فیلوشپ ملی تھی۔ اب ان کو اپنے گھر والوں کو یہ بات سمجھانے میں مشکل پیش آ رہی ہے کہ وہ انہیں اپنے خوابوں کو پورا کرنے دیں اور ان پر شادی کے لیے دباؤ نہ ڈالیں۔
وہ کہتی ہیں،ہماری کمیونٹی میں لڑکیوں کی شادی کم عمری میں کر دی جاتی ہے۔ میں نے اس کلچر کے خلاف لڑ کر اور اپنے پیسوں سے اپنے خواب پورے کیے۔ لیکن ایسی صورت حال میں جب ہمیں چھ سات ماہ سے فیلو شپ نہیں مل رہی، گزر بسر کرنا مشکل ہو گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایم اے این ایف فیلو شپ اقلیتی برادریوں کے طلبہ کے لیے ایک نعمت ہے اور اسے بند نہیں کیا جانا چاہیے۔
غورطلب ہے کہ بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت نے دسمبر 2022 میں لوک سبھا کو بتایا تھا کہ
ایم اے این ایف اسکیم کو بند کیا جا رہا ہے۔ اقلیتی امور کی وزیر اسمرتی ایرانی نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ اس لیے لیا گیا ہے کیونکہ ایم اے این ایف اسکیم کئی دیگر اسکیموں کے ساتھ اوور لیپ ہو رہی تھی۔
ایم اے این ایف کے علاوہ مالی سال 2023-24 میں اقلیتوں کے لیے کئی دیگر اسکیموں کے بجٹ میں نمایاں کٹوتی کی گئی ہے۔ اقلیتی امور کی وزارت کے لیے مرکزی بجٹ کا تخمینہ 2022-23 میں5020.50 کروڑ روپے تھا۔ اس بار وزارت کو 3097 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 38 فیصدی کم ہے۔
ایم اے این ایف پانے والی کیرالہ کی نصیرہ این ایم دو بچوں کی ماں بھی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ،حکومت یہ کیسے کہہ سکتی ہے کہ فیلو شپ کی اوور لیپنگ ہورہی ہے،جبکہ ہم آدھارکارڈ کے ساتھ اندراج کرتے ہیں۔ یو آئی ڈی(یونک آئی ڈی) کے ساتھ اندراج کے باوجود اگر حکومت اوور لیپنگ کومنظم نہیں کر پا رہی ہےتوحکومت کیا کرے گی؟
نصیرہ نے الزام لگایا کہ دیگر قومی فیلوشپ–مثلاًاوبی سی کے لیے نیشنل فیلوشپ (این ایف او بی سی)، شیڈول کاسٹ کے لیے نیشنل فیلوشپ (این ایف ایس سی)وغیرہ کے مقابلے ایم اے این ایف میں گرانٹس کی تقسیم میں تاخیربہت زیادہ ہے۔
نصیرہ نے اقلیتی امور کی وزارت کو لکھے ایک خط میں کہا ہے، فیلوشپ میں تاخیر کی وجہ سے انہوں بہت زیادہ ذہنی اور مالی تکلیف کا سامنا کیا ہے۔ یہ عزت کے ساتھ جینے کا ہماراحق چھین رہا ہے۔
ایم اے این ایف اسکالروں نے نشاندہی کی کہ انہیں فیلوشپ کی مدت کے دوران کہیں اور کام کرنے یا کوئی اور وظیفہ یا اعزازیہ حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
اعجاز احمد کو اکتوبر 2022 سے اسکیم کا فائدہ نہیں ملا، انہوں نے کہا، ‘اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو ہمیں تمام پیسے ادا کرنے ہوں گے اور ہماری فیلوشپ بھی ردہو جائے گی۔ اس لیے ہم شدید پریشانی میں ہیں۔
دریں اثنا، قومی کمیشن برائے اقلیتی (این سی ایم) کے چیئرمین اقبال سنگھ لال پورہ نے کہا ہے کہ این سی ایم نے اپنے ایم اے این ایف اسکالروں سے ملاقات کرنے اور ان کے خدشات کو دور کرنے کے لیے نائب صدر کیرسی کیخوشرو دیبو کی صدارت میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ گزشتہ ہفتے مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی نے پارلیامنٹ میں کہا تھا کہ اقلیتی طلبہ کے لیے بند کی گئی
پری میٹرک اسکالرشپ یا ایم اے این ایف کو بحال کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔