پرسنل لاء کے تحت مسلمانوں کی شادی پاکسو قانون کے دائرے سے باہر نہیں: کیرالہ ہائی کورٹ

12:55 PM Nov 23, 2022 | دی وائر اسٹاف

کیرالہ ہائی کورٹ نے 15 سالہ لڑکی کو مبینہ طور پر اغوا کرنے اور اس کے ساتھ ریپ کرنے کے الزام میں 31 سالہ مسلمان شخص کوضمانت دینے سے انکار کر دیا ہے،جس کا دعویٰ ہے کہ اس نے شادی کر لی تھی۔ ملزم نے دلیل دی تھی کہ اس پر پاکسو کے تحت مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا، کیونکہ مسلم پرسنل لاء 18 سال سے کم عمر کی لڑکیوں کی شادی کی اجازت دیتا ہے۔

(فوٹوبہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: کیرالہ ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ پرسنل لاء کے تحت مسلمانوں کی  شادیوں کو بچوں کے جنسی جرائم سے تحفظ (پاکسو) ایکٹ سے باہرنہیں رکھا  گیا ہے اور شادی کی آڑ میں نابالغ کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنا جرم ہے۔

عدالت نے 15 سالہ نابالغ لڑکی کو مبینہ طور پر اغوا  کرنے اور اس کے ساتھ ریپ کرنے کے الزام میں  31 سالہ شخص کو ضمانت دینے سے انکار کر دیا، جس کا دعویٰ ہے کہ اس نے شادی کر لی تھی۔

ضمانت کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے جسٹس بیچو کورین تھامس نے اپنے فیصلے میں کہا کہ چائلڈ میرج معاشرے کے لیے ایک لعنت ہے اور پاکسو قانون شادی کی آڑ میں نابالغ کے ساتھ جسمانی تعلقات پر پابندی  لگانے کے لیے ہے۔

جسٹس تھامس نے 18 نومبر کو جاری کردہ فیصلے میں کہا، میرا مانناہے کہ پرسنل لاء کے تحت مسلمانوں کے درمیان شادی پاکسو قانون کے دائرے سے باہر نہیں ہے۔اگر جوڑے میں سے کوئی ایک نابالغ ہے، تو شادی کے جواز یا دیگر حقائق سے قطع نظر، پاکسو ایکٹ کے تحت یہ  جرم کے دائرے میں آئے گا۔

ہائی کورٹ مغربی بنگال کے خالد الرحمان کی طرف سے دائر ضمانت کی درخواست کی سماعت کر رہی تھی، جس نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ لڑکی اس کی بیوی تھی، جس سے اس نے مسلم قانون کے مطابق  14 مارچ 2021 کو شادی کی تھی۔

رحمان نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے خلاف پاکسو ایکٹ کے تحت مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا، کیونکہ مسلم قانون 18 سال سے کم عمر کی لڑکیوں کی شادی کی اجازت دیتا ہے۔

یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب پتھنمتھیٹا ضلع کے کویور میں ایک فیملی ہیلتھ سنٹر نے پولیس کو اطلاع دی  کہ متاثرہ خاتون اپنے حمل کے انجیکشن کے لیے وہاں  گئی تھی۔ میڈیکل آفیسر نے 31 اگست 2022 کو پولیس کو اس وقت مطلع کیا جب پتہ چلا کہ آدھار کارڈ کے  مطابق اس کی عمر 16 سال ہے۔

عدالت نے کہا، نابالغ کے خلاف ہر طرح کا جنسی استحصال جرم سمجھا جاتا ہے۔ شادی کو قانون کے دائرے سے باہر نہیں رکھا گیا ہے۔عدالت نے کہا کہ سماجی سوچ  میں تبدیلی اور ترقی کے نتیجے میں پاکسو قانون بنایا گیا ہے۔

عدالت نے کہا،بچوں کی شادی نابالغ کی نشوونما کی پوری صلاحیت کے ساتھ سمجھوتہ کرتی ہے۔ یہ معاشرے کی لعنت ہے۔ پاکسو ایکٹ کے ذریعے قانون سازی کا مقصد شادی کی آڑ میں کسی  بھی نابالغ کے ساتھ جسمانی تعلقات پر پابندی لگانا ہے۔ یہ معاشرے کی سوچ کی بھی عکاسی کرتا ہے۔

عدالت نے کہا کہ استغاثہ کے مطابق لڑکی کو اس کے والدین کے علم میں لائے بغیر مغربی بنگال سے کیرالہ لایا گیا تھا۔

لڑکی کے اہل خانہ نے ملزم نوجوان پر نابالغ کے اغوا اورریپ  کا الزام لگایا تھا۔

لائیو لاء کی ایک رپورٹ کے مطابق، ملزم کے خلاف تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 366، 376 (2) (ایم) اور 376 (3) اور پاکسو ایکٹ کی دفعہ 5 (جے)( دو)، 5 (ایک) اور دفعہ 6 کے تحت تروولا پولیس اسٹیشن میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

نوجوان پر الزام ہے کہ اس نے نابالغ لڑکی کا اغوا کیا تھا، جو  مغربی بنگال کی رہنے والی ہے اور 31 اگست 2022 سے پہلے کے عرصے کے دوران اس کے ساتھ بار بار جنسی زیادتی کی، جس کی وجہ سے وہ حاملہ ہوگئی۔

سماعت کے دوران ملزم کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے دلیل دی کہ چونکہ مسلم قانون 18 سال سے کم عمر کی لڑکیوں کی شادی کی اجازت دیتا ہے اور ایسی شادیاں قانونی طور پر جائز ہیں، اس لیے اس پر ریپ  کا الزام نہیں لگایا جانا چاہیے اور نہ ہی پاکسو ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔

اس پر ریاست نے دلیل دی کہ پاکسو ایکٹ مسلم قانون پر مؤثر ہوگا۔

جسٹس تھامس نے کہا کہ مسلم پرسنل لاء (شریعت) اپلی کیشن ایکٹ 1937 قانونی طور پر تسلیم کرتا ہے کہ شادی سے متعلق تمام سوالات میں فیصلے کا اصول مسلم پرسنل لاء (شریعت) کاہوگا۔

بنچ نے کہاکہ تاہم بچوں کی شادی پر پابندی ایکٹ 2006 کے نافذ ہونے کے بعد یہ مشکوک  ہے کہ کیا پرسنل لاء شادی سے متعلق خصوصی قانون پر مؤثر گا۔

عدالت نےکہا کہ کیس کے تفتیشی افسر نے الزام لگایا ہے کہ لڑکی کو ملزم نے اس کے والدین کے علم میں لائے بغیر ورغلایا اور مبینہ شادی کے وقت متاثرہ لڑکی کی عمر صرف 14 سال سے کچھ زیادہ تھی،مسلم پرسنل لا کے مطابق  بھی ایک قانونی شادی کا وجود قابل بحث ہے۔

عدالت نے فیصلہ دیا،تاہم درخواست گزار کو پاکسو ایکٹ کے ساتھ ساتھ آئی پی سی کے تحت جرائم کے لیے گرفتار کیا گیا ہے۔ پاکسو ایکٹ ایک خاص قانون ہے جو خاص طور پر بچوں کو جنسی جرائم سے بچانے کے لیے بنایا گیا ہے۔ نابالغ کے خلاف ہر قسم کے جنسی استحصال کو جرم سمجھا جاتا ہے۔ شادی کو اس قانون کے دائرے سے باہر نہیں رکھا گیا ہے۔

 (خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)