غور طلب ہے کہ کانگریس کے ایک مقامی رہنما نے پلواما کے شہیدوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے تاریخی اقبال میدان میں 23 اور 24 فروری کی درمیانی رات ایک مشاعرے کا انعقاد کیا تھا۔
اندور/بھوپال: مشاعروں کے مشہور شاعر منظر بھوپالی، بھوپال میں منعقد ایک مشاعرے میں ‘طوائف’ اور ‘رنڈی’ جیسے لفظوں کا استعمال کر کے تنقید کی زد پہ آ گئے ہیں۔ معاملے کا ویڈیو وائرل ہو گیا ہے اور بات ہونٹوں سے نکلی کوٹھوں تک پہنچی کے مصداق کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے۔اردو داں طبقہ اس کو مشاعروں کے تنزل سے جوڑ رہا ہے۔ وہیں مدھیہ پردیش اردو اکادمی اور اس کی سکریٹری اور معروف شاعرہ نصرت مہدی سے منظر بھوپالی کی چل رہی چپقلش کے اثرات بھی اس میں دیکھے جا رہے ہیں۔ ادھر منظر بھوپالی اپنا دفاع کرنے میں لگے ہیں۔
غور طلب ہے کہ کانگریس کے ایک مقامی رہنما نے پلواما کے شہیدوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے تاریخی اقبال میدان میں 23 اور 24 فروری کی درمیانی رات ایک مشاعرے کا انعقاد کیا تھا۔ اسی مشاعرے میں منظر بھوپالی ایک شاعر ہ کے لیے نازیبا الفاظ کا استعمال کر بیٹھے۔اس کے بعد انہوں نے اپنی صفائی میں بیان دیا کہ ‘ایک شام شہیدوں کے نام’ میں کچھ بیہودہ لوگ بھیجے گئے تھے، تاکہ مشاعرے کو خراب کیا جا سکے۔ یہ ٹولہ ہر شاعر پر چھینٹا کشی کر رہا تھا۔ جب میں آیا تو یہ مجھے بھی ٹارگیٹ کرنے لگے۔’
اس واقعہ کے وائرل ہو رہے ویڈیو میں منظر بھوپالی اس مبینہ ‘غیر مہذب’سامع کو ‘تہذیب’ سیکھ کر آنے کی تلقین کرتے سنے جا سکتے ہیں۔ ان کے الفاظ ہیں ‘کم سے کم اتنی تہذیب سیکھ کے آئیے۔ نہیں آتے تو مشاعرے میں مت آئیے۔ کوئی طوائف یہاں پر نہیں آئی ہوئی ہےیا رنڈیوں کا نا…نہیں ہو رہا۔ پرسوں چلے جائیے گا اُس مشاعرے میں جہاں طوائفیں آئیں گی۔’ ویڈیو میں سنا جا سکتا ہے کہ وہ ‘طوائفوں’ کا لفظ استعمال کرتے ہوئے ناچنا بھی بولنے جا رہے ہیں مگر پھر ‘نا’ادا کر کے خود کو جیسے انہوں نے (بمشکل تمام) روک لیا۔
اس ویڈیو میں کسی سامع کی آواز بھی سنائی دے رہی ہے، جو اپنے تئیں انہیں ترکی بہ ترکی جواب دے رہا ہے۔ اس واقعے کے بعد منظر بھوپالی مشاعرے سے چلے گئے۔ فون پر انہوں نے دی وائر کو بتایا کہ وہ یو پی کے ایک مشاعرے میں شرکت کرنے جا رہے ہیں اور فی الحال دہلی میں ہیں۔ ویسے یہ بات ان کے ایک دوسرے نمبر پر ہوئی، جو ان کی منکوحہ نے دیا۔ منظر کا پرانے نمبر والا فون گھر پر ہی رہ گیا ہے۔
بتانا ضروری ہے کہ صوبائی اردو اکادمی کی جانب سے 26 تا 28 فروری کو دھوم دھام سے جشنِ اردو کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ مبینہ طور پر منظر بھوپالی کا اشارہ اسی جانب تھا، گو وہ بعد میں لفظوں سے کھیلتے ہوئے اسے دوسرا رخ دینے کی کوشش کرتے پائے گئے۔اس سلسلے میں ڈاکٹر خالد محمود کہتے ہیں کہ مشاعرے میں اس طرح کی بے ادبی ہونا افسوسناک ہے۔ کوئی عقلمند آدمی ایسی باتیں کیسے کہہ سکتا ہے، وہ بھی مشاعرے میں۔یہ اردو، بھوپال اور ملک کی تہذیب کے بھی خلاف ہے۔ ان سے مشاعروں کی بدنامی ہوتی ہے اور تکلیف بھی۔
مدھیہ پردیش اردو اکادمی کے سابق جوائنٹ سکرِیٹری اقبال مسعود کا لہجہ بھی اس معاملے بے حد تلخ ہے۔ وہ اسے منظر بھوپالی اور نصرت مہدی کی ذاتی لڑائی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں، ‘مشاعرے والے نہ ادیب ہیں، نہ شاعر، نہ ہی مہذب۔ یہ تہذیب نہیں جانتے ہیں۔ مشاعرہ بھی آج تجارت ہے، تہذیبی رویہ نہیں۔ یہ اُن لوگوں کی ذاتی لڑائی ہے۔ سارا تجارتی جھگڑا ہے۔ ایک دوسرے کو کاٹنے کی فکر کرتے ہیں۔ وہ خاتون ہے تو یہ گالیاں دے لیتے ہیں۔ وہ دے نہیں سکتیں تو
مقدمہ کر دیتی ہیں۔’
اکادمی کی سکریٹری نصرت مہدی اسے ناکامی سے پیدا ہونے والی جھنجھلاہٹ قرار دیتی ہیں۔ دی وائر کے ساتھ بات چیت میں انہوں نے کہا ؛ ہوٹ ہو رہے ہیں تو کھیج اس طرح اتار رہے ہیں۔ مگر یہ (ہوٹنگ) تو مشاعرے کا حصہ ہے۔ فراق ہو گئے تھے ایک بار۔ آپ کو یہ آنا چاہیے کہ کس سطح پر آ کر ری ایکٹ کرنا ہے۔ان کے مطابق منظر بھوپالی کا ٹارگیٹ اردو اکادمی کا مشاعرہ ہی تھا، مگر اب وہ بدل رہے ہیں۔ ان کے الفاظ ہیں ‘اسی سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا مینٹل اسٹیٹس کیا ہوگا۔
ادھر منظر بھوپالی کا کہنا ہے کہ یہ ان کی ذاتی لڑائی نہیں ہے، وہ اردو کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ کچھ بیہودہ لوگ شہیدوں کے لیے اردو والوں کا خراجِ عقیدت ہضم نہیں کر پا رہے تھے۔ وہ مشاعرہ خراب کرنے پر آمادہ تھے اور میں نے اُن عناصر کو اُنہیں کی زبان میں جواب دے دیا۔ اس کے بعد وہ اکادمی کی سکریٹری پر بھائی بھتیجہ واد، اردو کے نام پر طرح طرح کی محفلیں سجانے، عہدے کے دم پر مشاعرے ہتھیانے جیسے الزامات لگانے لگتے ہیں۔
منظر بھوپالی اور نصرت مہدی کے بیچ کی یہ لڑائی نئی نہیں ہے۔ پہلے بھی منظر بھوپالی نے نصرت مہدی پر بی جے پی ا ور آر ایس ایس کے رنگ میں پوری طرح رنگ جانے کا الزام عائد کرتے ہوئے کچھ نازیبا تبصرہ کیا تھا۔ اس پر
نصرت مہدی نے مقدمہ دائر کر رکھا ہے۔
مقامی لوگ، جن میں بہت سے شعراء بھی شامل ہیں منظر بھوپالی کے رویے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے۔ وہ یہ بھی یاد دلاتے ہیں کہ کچھ پانے کے چکر میں ہی انہوں نے بی جے پی تک جوائن کر لی تھی۔ حالانکہ ملائی بشیر بدر لے اڑے، جنہیں بی جے پی کی سرکار نے ایم پی اردو اکادمی کا چیئرمین بنا دیا تھا۔
اب اس واقعہ کے بعد یہ ساری باتیں ایک بار پھر فضاؤں میں ہیں۔ حساس اردو طبقہ کفِ افسوس مل رہا ہے کہ ایک مہذب، شائستہ اور دلکش زبان سے نام و دام کمانے والے کس تنزل کی طرف جا رہے ہیں۔ ایک مقامی جہاں گرد کہتے ہیں ؛ دوسروں سے کلام تو لکھوا لیتے ہیں۔ تہذیب تو نہیں لکھوا سکتے!
(جاوید عالم اندور میں مقیم صحافی اورمترجم ہیں۔)