منی پور کے وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ کی مبینہ آواز کی صداقت کی تحقیقات کے لیے مقرر کردہ نجی لیبارٹری نے جوڈیشل کمیشن کو پیش کی گئی رپورٹ میں کہا ہے کہ کلپ اور سنگھ کی آواز کے نمونوں میں 93 فیصد مماثلت ہے اور اس بات کا’قوی امکان’ ہے کہ وہ ایک ہی شخص کی آواز ہیں۔
منی پور کے وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)
نئی دہلی: منی پور کے وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ کی مبینہ آواز کی صداقت کی تحقیقات کے لیے مقرر کردہ نجی لیبارٹری نے جوڈیشل کمیشن کو پیش کی گئی رپورٹ میں کہا ہے کہ کلپ اور سنگھ کی آواز کے نمونوں کے درمیان 93 فیصد مماثلت ہے اور اس بات کا’قوی امکان’ ہے کہ وہ ایک ہی آواز ہیں۔
معلوم ہو کہ عدالتی کمیشن نے ریاست میں فرقہ وارانہ تشدد میں ان کے کردار کی تحقیقات کی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ منی پور تشدد کے حوالے سے مرکزی وزارت داخلہ کی طرف سے بنائی گئی انکوائری کمیشن کو پیش کی گئی آڈیو ریکارڈنگ- جو 2023 میں بیرین کی سرکاری رہائش گاہ پر ہوئی ایک میٹنگ کی ہے- کے بارے میں گزشتہ سال کے شروع میں دی وائر کی سنگیتا بروآ پیشاروتی نےرپورٹ کی ایک سیریز لکھی تھی۔
اگرچہ، دی وائر آزادانہ طور پر اس بات کی تصدیق نہیں کرسکا کہ اس ریکارڈنگ میں موجود آواز واقعی بیرین سنگھ کی ہے، لیکن ہم نے اس میٹنگ میں موجود کچھ لوگوں سے آزادانہ طور پراس میٹنگ کی تاریخ، موضوع اور مواد کی تصدیق کی ہے۔ اپنی جان کو خطرے کاحوالہ دیتے ہوئے ان میں سے کوئی بھی اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتاتھا۔
آڈیو ریکارڈنگ اس نامہ نگار کو کچھ لوگوں نے دی تھی، جنہوں نے بتایا تھا کہ انہوں نے اسے سنگھ سے منسلک سرکاری احاطے میں ریکارڈ کیا تھا۔ انہوں نے بتایا تھا کہ اس کی ایک کاپی ریٹائرڈ جسٹس
اجئے لامبا کو سونپی گئی تھی ، جو منی پور تشدد پر عدالتی کمیشن کے چیئرمین ہیں۔ یہ کمیشن وزارت داخلہ نے 3 مئی 2024 کو شروع ہونے والے تشدد کی تحقیقات کے لیے تشکیل دیا تھا۔
اس کے فوراً بعد کُکی آرگنائزیشن فار ہیومن رائٹس ٹرسٹ (کے او ایچ یو آر) نے سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کرتے ہوئے آڈیو ٹیپ کی عدالت کی نگرانی میں تحقیقات کا مطالبہ کیاتھا۔
اس عرضی پر 8 نومبر کو سماعت کرتے ہوئے اس وقت کے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں تین ججوں کی بنچ نے عرضی گزار سے
کہا تھا کہ وہ آڈیو ٹیپ کی صداقت کی تصدیق کرے اور اپنی رپورٹ عدالت میں پیش کرے ۔
تاہم، ریاستی اور مرکزی حکومتوں کی جانب سے پیش ہوئےسالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے درخواست پر اس بنیاد پر اعتراض کیا تھا کہ عرضی گزار کو پہلے ہائی کورٹ سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔
سپریم کورٹ کے حکم کے بعد درخواست گزار کے وکیل پرشانت بھوشن نے 14 نومبر کو ٹروتھ لیب کی خدمات مانگی، جو ایک قابل اعتماد نجی لیب ہے،جسے اکثر سرکاری ایجنسیوں کے ذریعےمقرر کیا جاتا ہے، تاکہ ٹیپ کی صداقت کی تصدیق کی جا سکے۔ آڈیو ٹیپ کے ساتھ بھوشن نے ایک پریس کانفرنس سے لیے گئے وزیر اعلیٰ کی آواز کا نمونہ بھی پیش کیا – تاکہ آواز کا ملان کیا جا سکے۔
گزشتہ 18 جنوری کو بھوشن کو بھیجی گئی اور دی وائر کے ذریعے دیکھی گئی ایک تفصیلی رپورٹ میں ٹروتھ لیب نے تصدیق کی کہ آڈیو ٹیپ میں ‘ایک ریکارڈنگ پائی گئی جو بنیادی طور پر ایک مردکی آواز تھی، جس میں کچھ مداخلت کرنے والی آوازیں تھیں جو واضح طور پر ریکارڈنگ ڈیوائس کی ہلچل کی وجہ سے پیدا ہوئی تھیں ، اس کے ساتھ ساتھ پس منظر میں شور اور دیگر اسپیکرز کی آوازوں بھی تھیں۔’
رپورٹ میں بیان کیا گیا اہم نکتہ یہ ہے کہ، ‘…یہ پایا گیا کہ ‘کیو/ایم ‘ اور ‘ایس /ایم’ میں مرد اسپیکر کے ایک ہی شخص ہونے کا امکان 93 فیصد ہے۔’ یہاں لیب میں بھیجے گئے دونوں آواز کے نمونوں کی بات کی جا رہی ہے۔
درخواست گزار کے وکیل نے 22 جنوری کو سپریم کورٹ میں ایک ضمنی حلف نامہ داخل کیا، جس میں ٹروتھ لیب سرٹیفیکیشن رپورٹ کی ایک کاپی منسلک کی گئی۔
گزشتہ 3 فروری کو منی پور اور مرکزی حکومت کی جانب سے پیش ہوئے ایس جی مہتہ نے سنٹرل فارنسک سائنس لیبارٹری (سی ایف ایس ایل) سے ٹیپ کی جانچ کروانے کے لیے تین ہفتوں کا وقت مانگا، کیونکہ یہ ایک سرکاری لیبارٹری ہے۔ مہتہ نے اپنی پچھلی بات کو بھی دہرایا – کہ کے او ایچ یو آر کو سپریم کورٹ سے رجوع کرنے سے پہلے ہائی کورٹ سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔
سی ایم بیرین سنگھ کے دفاع میں دلیل دیتے ہوئے مہتہ نے درخواست گزار کو ‘مفاد پرست’ ‘شرپسند’ بھی کہا جو’ کچھ
نظریاتی بوجھ لے کر چل رہے ہیں اورجو علیحدگی پسند ذہنیت رکھتے ہیں۔’
کیس کی سماعت کرتے ہوئےچیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ اور جسٹس سنجے کمار نے حکومت کو سی ایف ایس ایل رپورٹ کو سیل بند لفافے میں پیش کرنے کے لیے تین ہفتے کا وقت دینے پر اتفاق کیا۔ کیس کی اگلی سماعت 24 مارچ کو مقرر کی گئی ہے۔
دی وائر سے بات کرتے ہوئے درخواست گزار کے وکیل بھوشن نے کہا، ‘ٹرتھ لیب کی ساکھ سرکاری لیب سے کہیں زیادہ ہے۔ یہاں تک کہ سرکاری ایجنسیاں جیسے سی بی آئی اور سی ایف ایس ایل تصدیق کے کام کے لیے ٹروتھ لیب سے رابطہ کرتی ہیں۔ ٹروتھ لیب سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ایم این وینکٹاچلیا کی سربراہی میں قائم ایک
انتہائی معتبر لیبارٹری ہے ۔ سپریم کورٹ نے اس سے قبل ٹروتھ لیب کی متعدد رپورٹس کو بھی قبول کیا ہے۔’
دریں اثنا، کے او ایچ یو آر کے صدر ایچ ایس بنجمن میٹ نے اس رپورٹر کو بتایا کہ انہیں منی پور پولیس نے رٹ پٹیشن دائر کرنے پر ہراساں کیا ہے اور وہ سیکورٹی وجوہات کی بناء پر روپوش ہیں۔
انہوں نے کہا، ‘یہ تحقیقات پچھلے ایک ہفتے سے چل رہی ہے، جب سے ٹروتھ لیب کی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی گئی ہے۔ آڈیو ٹیپ تک میری رسائی کیسے ہوئی ، اس بارے میں میرا بیان لینے کے بہانے منی پور پولیس مجھے ہراساں کر رہی ہے۔ انہوں نے میرے ٹھکانے کے بارے میں جاننے کے لیے کئی بار میرے گھر والوں کو بھی فون کیا۔ میں اپنی سکیورٹ کے بارے میں فکر مند ہوں۔’
گزشتہ سال سوشل میڈیا پر آڈیو ٹیپ کے کچھ حصے لیک ہونے کے بعد ریاست کے وزیر اعلیٰ کے دفتر نے ایک
پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ریکارڈنگ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے، لیکن اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا۔ اس میں کہا گیاکہ ریاستی پولیس نے معاملے کی تحقیقات کے لیے ایف آئی آر درج کر لی ہے۔
بیرین کا دفاع کرتے ہوئے مہتہ نے 3 فروری کو سپریم کورٹ میں دہرایا کہ ریاستی پولیس تحقیقات کر رہی ہے۔ منی پور پولیس سنگھ کو رپورٹ کرتی ہے کیونکہ وہ ریاست کے وزیر داخلہ بھی ہیں۔
واضح ہو کہ منی پور میں 3 مئی 2023 کو شروع ہونے والا نسلی تشدد اب تک 250 سے زیادہ لوگوں کی جان لے چکا ہے۔ اور 60000 لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں )
منی پور ٹیپ پر دی وائر کی سیریز کے پہلے ، دوسرے ، تیسرے ، چوتھے اور پانچویں حصے کو یہاں پڑھا جا سکتا ہے۔