مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے گزشتہ دنوں کہا تھا کہ تمام شمال-مشرقی ریاستوں نے دسویں جماعت تک ہندی کو لازمی کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ کانگریس کے ترجمان سنوجم شیام چرن سنگھ کو اس کی تنقید پر شکایت درج کرنے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔ دوسری طرف آٹھ طلبہ اکائیوں کی تنظیم دی نارتھ ایسٹ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے کہا ہے کہ ہندی کو لازمی قرار دینا شمال-مشرق کی مادری زبانوں کے لیے نقصاندہ ہوگا اور اس سےہم آہنگی کی فضا خراب ہوگی۔
سنوجم شیام چرن سنگھ (سناؤ) (فوٹو بہ شکریہ: فرنٹیئر منی پور)
نئی دہلی: منی پور کے این بیرین حکومت نے ایک مقامی ٹی وی چرچہ کے دوران مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کے
ہندی کو فروغ دینے والے بیان کی تنقید کرنے پر ریاست میں کانگریس کے ایک ترجمان کو سیڈیشن کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔
منی پور پولیس نے 11 اپریل کو بی جے پی کی یوتھ ونگ بھارتیہ جنتا یووا مورچہ (بی جے وائی ایم) کے منی پور صدر ایم بھریش شرما کی طرف سے درج کرائی گئی شکایت کی بنیاد پر کانگریس کے ترجمان سنوجم شیام چرن سنگھ (سناؤ) کو گرفتار کیا۔
بتادیں کہ سناؤ امپھال کے معروف وکیل بھی ہیں۔
مقامی خبروں کے مطابق، شکایت پر کارروائی کرتے ہوئے امپھال پولیس کی ایک ٹیم نے سناؤ کو 12 اپریل کو اس کے گھر سے گرفتار کیا۔ سناؤ کو منگل کی شام ضمانت پر رہا کیا گیا۔
فرنٹیئر منی پور کی 12 اپریل کی رپورٹ کے مطابق، اس رپورٹ کے لکھے جانے تک سناؤ کو کسی بھی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سناؤ کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 124اے (سیڈیشن)، 295اے (مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے جان بوجھ کر اور بدنیتی پر مبنی حرکتیں) اور 505 (افواہیں پھیلانا) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
سناؤ نے جس بحث میں حصہ لیا وہ 9 اپریل کو امپیکٹ ٹی وی پر ہوا۔ اس بحث کا عنوان تھا ‘ہندی: یونیفیکیشن اینڈ امپوزیشن ڈیبیٹ’۔
امپھال کے وکیل اور منی پور پردیش کانگریس کمیٹی کے قانونی اکائی کے نائب صدر روی خان نے کہا، سناؤ کو 12 اپریل کی شام تقریباً 8.30 بجے امپھال ویسٹ کے ڈیوٹی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک دلائل سننے کے بعد مجسٹریٹ نے رات 10 بجے کے قریب انہیں ضمانت دے دی۔
خان نے کہا کہ یہ معاملہ جاری رہے گا اور سناؤ کو 27 اپریل کو اگلی سماعت میں ٹرائل کورٹ میں پیش ہونے کو کہا ہے۔
یہ پوچھے جانے پر کہ سناؤ نے آخر میں شاہ کے خلاف کیا کہا، جس کو بی جے پی لیڈروں نے قابل اعتراض پایا، خان نے کہا، انہوں نے شمال-مشرق میں دسویں جماعت تک ہندی کو لازمی زبان کے طور پر نافذ کرنے کا مشورہ دینے پر ان کی تنقید کی،اس کے ساتھ ہی شاہ کا موازنہ ایک داڑھی والے بندر سے کیا، جس کےبارے میں انہوں نے کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ وہ اصل میں کس کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔
بتادیں کہ سناؤ ایم پی سی سی لیگل سیل کے چیئرمین بھی ہیں۔
بی جے پی کے مقامی نوجوان لیڈر نے امپھال ویسٹ کے افسر انچارج کو اپنی شکایت میں کہا کہ سناؤ نے نہ صرف بحث کے دوران ہندوستانیوں کے لیے نازیبا کلمات کہے بلکہ شاہ کے خلاف بھی قابل اعتراض باتیں کہیں ۔
انہوں نے کہا،ملزم نے جان بوجھ کر ہندوستان کے ہندوؤں کو جانور کہہ کر ان کی توہین کی اور ان کو کمتر بتایا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے مسلسل قابل اعتراض زبان استعمال کی اور پورے ہندوستان کے مذہبی اور نسلی جذبات کو ٹھیس پہنچائی جو کہ سیڈیشن کے مترادف ہے۔
شرما نے کانگریس کے ترجمان پر معصوم لوگوں کو حکومت کے خلاف اکسانے اور ہندوستان کے تمام ہندوؤں بشمول منی پوری ہندوؤں کے مذہبی جذبات اور عقیدے کو ٹھیس پہنچانے کا الزام لگایا۔
مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے بی جے پی کی ریاستی اکائی کے صدر اے شاردا دیوی نے شرما کا ساتھ دیا۔ سناؤ کی گرفتاری سے پہلے انہوں نے
11 اپریل کو کہا تھا کہ بی جے پی بنی نوع انسان اور برادریوں کے درمیان باہمی احترام کی حامی ہے۔
دریں اثنا شمال-مشرق میں کئی سول سوسائٹی اور طلبہ تنظیموں اور سیاسی جماعتوں نے ہندی کو فروغ دینے والے امت شاہ کے بیان کی سخت مذمت کی۔
ملک بھر کی پولیس عام طور پر سیڈیشن کے تحت معاملہ درج کرنے میں عجلت سے کام لیتی ہے اور اس کے استعمال کی قانونی حیثیت پربھی سوالیہ نشان ہے۔
سپریم کورٹ بارہا کہہ چکی ہے کہ سیڈیشن کی دفعہ ایسے معاملات میں لگائی جا سکتی ہے جہاں لکھے گئے الفاظ توہین آمیز ہوں یا جس کے ذریعے تشدد کو بھڑکا کر حکومت کو اقتدار سے ہٹانے کی کوشش کی گئی ہو۔
کیدارناتھ سنگھ بنام حکومت بہار معاملے میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ معاملے میں بے شک تبصرےسخت ہوں لیکن ان میں تشدد بھڑکانے کا کوئی رجحان نہیں ہے، اس لیے اسے سیڈیشن نہیں مانا جاسکتا۔
شمال مشرق میں دسویں جماعت تک ہندی کو لازمی کرنے کا قدم ہم آہنگی کو بگاڑ دے گا: طلبہ یونین
دریں اثنا،آٹھ طلبہ ونگ کی تنظیم نارتھ ایسٹ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (این ای ایس او) نے خطے میں دسویں جماعت تک ہندی کو لازمی مضمون بنانے کے مرکز کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ قدم مادری زبانوں کے لیے نقصاندہ ہوگا۔ اور اس سےشمال-مشرق کی ہم آہنگی کی فضا بگڑ جائے گی۔
این ای ایس او نے اس سلسلے میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کو ایک خط لکھا ہے جس میں منفی پالیسی کو فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے اور تجویز پیش کی گئی ہے کہ ریاستوں میں دسویں جماعت تک مقامی زبانوں کو لازمی قرار دیا جائے، جبکہ ہندی اختیاری ہے یا اسے منتخبہ مضمون ہونا چاہیے۔
غور طلب ہے کہ مرکزی وزیر داخلہ شاہ نے 7 اپریل کو نئی دہلی میں سرکاری زبان سے متعلق پارلیامانی کمیٹی کی میٹنگ میں کہا تھا کہ تمام شمال-مشرقی ریاستوں نے اپنے اسکولوں میں دسویں جماعت تک ہندی کو لازمی کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
این ای ایس او نے کہا، یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہندوستان میں 40 سے 43 فیصد لوگ ہندی بولتے ہیں، لیکن یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ملک میں دیگر مادری زبانیں بھی ہیں، جو خوشحال ہیں ، پروان چڑھ رہی ہیں اور ایک طرح سے متحرک ہیں اور ہندوستان کو ایک متنوع اور کثیر لسانی ملک کی امیج عطا کرتے ہیں۔
تنظیم نے کہا کہ شمال-مشرق کی ہر ریاست کی اپنی منفرد اور متنوع زبانیں ہیں جو مختلف نسلی گروہ بولتے ہیں۔ ان گروہوں میں انڈو آریائی سے لے کر تبتی-برمی، آسٹرو-ایشیائی خاندان شامل ہیں۔
این ای ایس او میں آل آسام اسٹوڈنٹس یونین، ناگا اسٹوڈنٹس فیڈریشن، آل منی پور اسٹوڈنٹس یونین اور آل اروناچل پردیش اسٹوڈنٹس یونین وغیرہ شامل ہیں۔
تنظیم نے کہا کہ مرکز کو شمال-مشرق کی مادری زبانوں کی ترقی پر توجہ دینی چاہیے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)