منی پور: وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ نے دیا استعفیٰ، ریاست میں مئی 2023 سے جاری ہے تشدد

کانگریس بیرین سنگھ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا منصوبہ بنا رہی تھی، جس میں حکمراں پارٹی کے کچھ ایم ایل اے کی حمایت کی خبریں موصول ہو رہی تھیں۔ عدالتی کمیشن نے ریاست میں فرقہ وارانہ تشدد کے معاملے میں این بیرین سنگھ کے رول کی جانچ کی ہے۔

کانگریس بیرین سنگھ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا منصوبہ بنا رہی تھی، جس میں حکمراں پارٹی کے کچھ ایم ایل اے کی حمایت کی خبریں موصول ہو رہی تھیں۔ عدالتی کمیشن نے ریاست میں فرقہ وارانہ تشدد کے معاملے میں این بیرین سنگھ کے رول کی جانچ کی ہے۔

این بیرین سنگھ گورنر کو اپنا استعفیٰ پیش کرتے ہوئے۔ (تصویر بہ شکریہ: اے این آئی)

این بیرین سنگھ گورنر کو اپنا استعفیٰ پیش کرتے ہوئے۔ (تصویر بہ شکریہ: اے این آئی)

نئی دہلی: منی پور کے وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ نے اتوار (9 فروری) کی شام اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ وہ راج بھون گئے اور گورنر اجئے کمار بھلا سے ملاقات کی اور انہیں اپنا استعفیٰ پیش کیا۔

معلوم ہو کہ بیرین سنگھ نے اتوار کو ہی نئی دہلی میں وزیر داخلہ امت شاہ سے ملاقات کی تھی۔ دہلی سے واپس آنے کے بعد وزیر اعلیٰ سنگھ اپنے کچھ ایم ایل اے کے ساتھ شام کو راج بھون پہنچے اور گورنر کو اپنا استعفیٰ پیش کیا۔ اس دوران منی پور کے ریاستی صدر اے شاردا اور پارٹی کے رکن پارلیامنٹ سمبت پاترا بھی ان کے ساتھ موجود تھے۔

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی نے حکام کے حوالے سے بتایا  ہےکہ بیرین سنگھ کے ساتھ بھارتیہ جنتا پارٹی اور این پی ایف (ناگا پیپلز فرنٹ) کے 14 دیگر ایم ایل اے بھی راج بھون میں موجود تھے۔

رپورٹ کے مطابق ، کانگریس بیرین سنگھ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا منصوبہ بنا رہی تھی، جس میں حکمراں پارٹی کے کچھ ایم ایل اے کی حمایت کی خبریں موصول ہو رہی تھیں۔

اس سلسلے میں کانگریس جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر معلومات شیئر کی ہیں۔

معلوم ہو کہ عدالتی کمیشن نے ریاست میں فرقہ وارانہ تشدد میں این بیرین سنگھ کے کردار کی جانچ کی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ منی پور تشدد کے حوالے سے مرکزی وزارت داخلہ کی طرف سے بنائی گئی  انکوائری کمیشن کو پیش کی گئی آڈیو ریکارڈنگ– جو 2023 میں بیرین کی سرکاری رہائش گاہ پر ہوئی ایک میٹنگ کی ہے- کے بارے میں گزشتہ سال کے شروع میں دی وائر کی سنگیتا بروآ پیشاروتی نےرپورٹ کی ایک سیریز لکھی تھی۔

اگرچہ، دی وائر آزادانہ طور پر اس بات کی تصدیق نہیں کرسکا کہ اس ریکارڈنگ میں موجود آواز واقعی بیرین سنگھ کی ہے، لیکن ہم نے اس میٹنگ میں موجود کچھ لوگوں سے آزادانہ طور پراس میٹنگ کی تاریخ، موضوع اور مواد کی تصدیق کی ہے۔ اپنی جان کو خطرے کاحوالہ دیتے ہوئے ان میں سے کوئی بھی اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتاتھا۔

آڈیو ریکارڈنگ اس نامہ نگار کو کچھ لوگوں نے دی تھی، جنہوں نے بتایا تھا کہ انہوں نے اسے سنگھ سے منسلک سرکاری احاطے میں ریکارڈ کیا تھا۔ انہوں نے بتایا تھا کہ اس کی ایک کاپی ریٹائرڈ جسٹس اجئے لامبا کو سونپی گئی تھی ، جو منی پور تشدد پر عدالتی کمیشن کے چیئرمین ہیں۔ یہ کمیشن وزارت داخلہ نے 3 مئی 2024 کو شروع ہونے والے تشدد کی تحقیقات کے لیے تشکیل دیا تھا۔

اس کے فوراً بعد کُکی آرگنائزیشن فار ہیومن رائٹس ٹرسٹ (کے او ایچ یو آر) نے سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کرتے ہوئے آڈیو ٹیپ کی عدالت کی نگرانی میں تحقیقات کا مطالبہ کیاتھا۔

اس عرضی پر 8 نومبر کو سماعت کرتے ہوئے اس وقت کے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں تین ججوں کی بنچ نے عرضی گزار سے کہا تھا کہ وہ آڈیو ٹیپ کی صداقت کی تصدیق کرے اور اپنی رپورٹ عدالت میں پیش کرے ۔

تاہم، ریاستی اور مرکزی حکومتوں کی جانب  سے پیش ہوئےسالیسٹر جنرل تشار مہتہ  نے درخواست پر اس بنیاد پر اعتراض کیا تھا کہ عرضی گزار کو پہلے ہائی کورٹ سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔

سپریم کورٹ کے حکم کے بعد درخواست گزار کے وکیل پرشانت بھوشن نے 14 نومبر کو ٹروتھ لیب کی خدمات مانگی، جو ایک قابل اعتماد نجی لیب  ہے،جسے اکثر سرکاری ایجنسیوں کے ذریعےمقرر کیا جاتا ہے، تاکہ  ٹیپ کی صداقت کی تصدیق کی جا سکے۔ آڈیو ٹیپ کے ساتھ بھوشن نے ایک پریس کانفرنس سے لیے گئے وزیر اعلیٰ کی آواز کا نمونہ بھی پیش کیا – تاکہ آواز کا ملان کیا جا سکے۔

گزشتہ 18 جنوری کو بھوشن کو بھیجی گئی اور دی وائر کے ذریعے دیکھی گئی ایک تفصیلی رپورٹ میں ٹروتھ لیب نے تصدیق کی کہ آڈیو ٹیپ میں ‘ایک ریکارڈنگ پائی گئی جو بنیادی طور پر ایک مردکی آواز تھی، جس میں کچھ مداخلت کرنے والی آوازیں تھیں جو واضح طور پر ریکارڈنگ ڈیوائس کی ہلچل   کی وجہ سے پیدا ہوئی تھیں ، اس کے ساتھ ساتھ پس منظر میں شور اور دیگر اسپیکرز کی آوازوں بھی تھیں۔’

رپورٹ میں بیان کیا گیا اہم نکتہ یہ ہے کہ، ‘…یہ پایا گیا کہ ‘کیو/ایم ‘ اور ‘ایس /ایم’ میں مرد اسپیکر کے ایک ہی شخص ہونے کا امکان  93  فیصد ہے۔’ یہاں لیب میں بھیجے گئے دونوں آواز کے نمونوں کی  بات کی جا رہی ہے۔

درخواست گزار کے وکیل نے 22 جنوری کو سپریم کورٹ میں ایک ضمنی حلف نامہ داخل کیا، جس میں ٹروتھ لیب سرٹیفیکیشن رپورٹ کی ایک کاپی منسلک کی گئی۔

گزشتہ 3 فروری کو منی پور اور مرکزی حکومت کی جانب سے پیش ہوئے  ایس جی مہتہ نے سنٹرل فارنسک سائنس لیبارٹری (سی ایف ایس ایل) سے ٹیپ کی جانچ کروانے کے لیے تین ہفتوں کا وقت مانگا، کیونکہ یہ ایک سرکاری لیبارٹری ہے۔ مہتہ نے اپنی پچھلی بات کو بھی دہرایا – کہ کے او ایچ یو آر کو سپریم کورٹ سے رجوع کرنے سے پہلے ہائی کورٹ سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔

سی ایم بیرین سنگھ کے دفاع میں دلیل دیتے ہوئے مہتہ نے درخواست گزار کو ‘مفاد پرست’ ‘شرپسند’ بھی کہا جو’ کچھ نظریاتی بوجھ  لے کر چل رہے ہیں اورجو  علیحدگی پسند ذہنیت رکھتے ہیں۔’

کیس کی سماعت کرتے ہوئےچیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ اور جسٹس سنجے کمار نے حکومت کو سی ایف ایس ایل رپورٹ کو سیل بند لفافے میں پیش کرنے کے لیے تین ہفتے کا وقت دینے پر اتفاق کیا۔ کیس کی اگلی سماعت 24 مارچ کو مقرر کی گئی ہے۔

واضح ہو کہ منی پور میں 3 مئی 2023 کو شروع ہونے والا نسلی تشدد اب تک 250 سے زیادہ لوگوں کی جان لے چکا ہے۔ اور 60000  لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔

غورطلب  ہے کہ این بیرین سنگھ 2017 میں پہلی بار منی پور کے وزیر اعلیٰ بنے تھے۔ ریاست میں ان کی قیادت والی بی جے پی حکومت کی یہ مسلسل دوسری میعاد ہے۔

لیکن پچھلے کچھ مہینوں میں ریاست میں ہونے والے بڑے پیمانے پر تشدد نے انہیں کٹہرے میں کھڑا کر دیا تھا۔ اپوزیشن نے بار بار ان پر تشدد پر قابو پانے میں ناکام ہونے کا الزام لگایا ہے۔

Next Article

کیا راہل گاندھی کے انتخابی دھاندلی کے شواہد کے بعد بھی بیدار ہوگا الیکشن کمیشن؟

راہل گاندھی نے مہادیو پورہ اسمبلی حلقہ کی ووٹر لسٹ میں فرضی پتے، ڈپلیکیٹ ووٹر اور’ووٹ چوری’ کے الزام لگاتے ہوئے الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ اب یہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ گاندھی یا کسی دوسرے اپوزیشن لیڈر کے ساتھ زبانی جمع خرچ کرنےکے بجائے ان الزامات کا جائزہ لے اور واضح جواب دے۔

راہل گاندھی کے مطابق، ان کی ٹیم کو ‘انتخابی دھاندلی’ کے ثبوت اکٹھے کرنے میں کل چھ مہینے لگے۔ (تصویر بہ شکریہ: کانگریس)

نئی دہلی: کانگریس لیڈر راہل گاندھی کے بنگلورو سنٹرل لوک سبھا سیٹ کے تحت آنے والے ایک اسمبلی حلقہ کی ووٹر لسٹ میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیوں کے انکشاف نے ایک تازہ تنازعہ کو جنم  دے دیا ہے۔

مہادیو پورہ اسمبلی حلقہ کے ووٹر لسٹ میں متعدد بے ضابطگیوں کو اجاگر کرنے کے لیے کانگریس کی ٹیم کی طرف سے گزشتہ چھ ماہ کے دوران کی گئی کوششیں الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری پر سوال اٹھانے کے لیے جاری مہم کا حصہ ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مہادیو پورہ واحد اسمبلی حلقہ ہے، جہاں سے بی جے پی نے 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں کانگریس کو شکست دے کر حیرت انگیز اور ناقابل شکست برتری حاصل کی تھی، جبکہ اسی پارلیامانی حلقے کے باقی سات اسمبلی حلقوں میں اسے کانگریس کے سامنے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

بالآخر، مہادیوپورہ میں بی جے پی کو ملے غیر معمولی طور پر زیادہ ووٹ اتنے ہی تھےکہ  اس نے بنگلورو سنٹرل لوک سبھا حلقہ میں کانگریس پر تقریباً 33000 ووٹوں کی برتری بنالی۔

یہ دیکھتے ہوئے کہ کانگریس نے جن ووٹر لسٹ  کا استعمال کیا، وہ الیکشن کمیشن کے ہی دستاویزہیں، راہل گاندھی کے ذریعے جمعرات (7 اگست) کو مبینہ انتخابی دھوکہ دہی کے ثبوت پارٹی کا ابھی تک کا سب سے ٹھوس دعویٰ ہے۔ یہ بے ضابطگیاں انتخابی نظام کی ایک بڑی خامی کی طرف اشارہ کرتی ہیں، جس کو حل کرنے کا اختیار اور ذمہ داری صرف الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔

لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ راہل گاندھی کے ذریعہ اٹھائے گئے مسائل کی سنجیدگی سے تحقیقات کرنے کے بجائے الیکشن کمیشن نے کانگریس لیڈر کو حلف نامہ کے تحت یہ الزامات لگانے کا چیلنج دیا۔ ای سی کا یہ جواب نہ تو ان خدشات کو دور کرے گا جو ہندوستان میں انتخابات کی سالمیت کے بارے میں حالیہ دنوں میں اٹھائے گئے ہیں اور نہ ہی اس سے عوام کی نظروں میں الیکشن کمیشن کی خود مختار ساکھ کو بڑھانے میں مدد ملے گی۔

بلکہ تنقید کو اس کی حقیقی روح کے ساتھ  قبول کرنے سے انکار گاندھی کے الزامات کوہی  تقویت دے گا۔

گاندھی نےمہادیو پورہ میں ووٹر لسٹ میں واضح طور پرفرضی تفصیلات، ووٹر لسٹ میں تکرار، جعلی پتے، فرضی ووٹروں کو شامل کرنے کے لیے فارم 6 کا غلط استعمال اور لاپرواہی سے تیار کردہ ووٹر لسٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے الیکشن کمیشن پر ‘ووٹ چوری’ کا الزام لگایا اور کہا کہ الیکشن کمیشن ایک ایسا ‘امپائر’ ہے جو ‘دوسری ٹیم’ –  یعنی بی جے پی — میں ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ الیکشن کمیشن بی جے پی کے اشارے پر کام کر رہا ہے ، انہوں نے اس کی غیر جانبداری پر بھی  براہ راست سوال اٹھایا ۔

راہل گاندھی کی طرف سے شیئر کی گئی کچھ باتیں انتہائی حیران کن تھیں۔

انہوں نے کہا کہ مہادیو پورہ ووٹر لسٹ کی ہارڈ کاپی چھ ماہ تک چیک کرنے کے بعد کانگریس کی ٹیم کو 11,965 ڈپلیکیٹ ووٹر، 40,009 جعلی پتے والے ووٹر، 10,452 ایسے ووٹر جو ایک ہی پتے پررجسٹرڈ تھے، فرضی تصویروں والے 4,132 ووٹر اور 33,692 ایسے ووٹر جن  پائے جنہوں نے  فارم 6  (نئے ووٹر کے طور پر نام کے اندراج کے لیے ضروری  دستاویز) کا استعمال کرکے رائے دہندگان کی فہرست میں نام شامل کروایا تھا۔

انہوں نے دکھایا کہ کس طرح ایک ہی ووٹر کو انتخابی حلقے کے مختلف پولنگ اسٹیشنوں پر رجسٹر کیا گیا تھا۔ انہوں نے تین مثالیں دیں، جن میں 80 ووٹرز اور ایک کمرے والے گھر میں 46  ووٹرز کے نام  درج تھے۔ انہوں نے پتوں کی تصویریں بھی دکھائیں، جنہیں کانگریس کی ٹیم نے چیک کیا اور وہاں ان میں سے کوئی ووٹر نہیں ملا۔

بنگلورو کی ایک شراب فیکٹری ‘153 بیئر کلب’ کے پتے پر 68 افراد  ووٹر کے طور پردرج تھے، لیکن ان میں سے ایک بھی شخص وہاں موجود نہیں تھا۔

یہ سنگین الزامات ہیں اور ان تمام لوگوں کو فکرمند ہونا چاہیے جو ہندوستانی انتخابات کی منصفانہ ہونے کی قسمیں کھاتے ہیں۔

راہل گاندھی کا ماننا ہے کہ ووٹر لسٹ میں خامیوں کی وجہ سے ان کی پارٹی کو بنگلورو سنٹرل میں ایک سیٹ کا نقصان اٹھانا پڑا کیونکہ کانگریس نے اس لوک سبھا حلقہ میں مہادیو پورہ کے علاوہ تمام اسمبلی حلقوں میں کامیابی حاصل کی، سوائے مہادیو پورہ کے، جہاں بی جے پی کو 1.1 لاکھ سے زیادہ ووٹوں کی برتری حاصل ہوئی۔

کانگریس لیڈر نے مہادیو پورہ  کے ان واقعات کو ‘ووٹ چوری’ کا ‘ماڈل’ قرار دیا اور کہا کہ انہیں ‘شک ہے’ کہ دوسری ریاستوں میں بھی ایسا ہی معاملہ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہریانہ اور مہاراشٹر کے اسمبلی انتخابات میں ہارنے کے بعد کانگریس کے شکوک  و شبہات میں اضافہ ہوگیا، کیونکہ ان دونوں ریاستوں میں لوک سبھا انتخابات میں پارٹی نے بہت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا اور پارٹی کے اپنے رائے عامہ کے جائزوں نے جیت کی پیشین گوئی کی تھی۔

گاندھی نے کہا، ‘اب  گیند الیکشن کمیشن کے کورٹ میں ہے۔’ سچ مچ ایسا ہی ہے، اب واضح طور پر یہ ذمہ داری الیکشن کمیشن پر عائد ہوتی ہے کہ وہ گاندھی یا کسی دوسرے اپوزیشن لیڈر کے ساتھ زبانی جمع خرچ کرنے کے بجائے ان الزامات کی جانچ کرے، ان کی تحقیقات کرے اور واضح جواب دے۔

الیکشن کمیشن نے ابھی تک ان الزامات کا جواب نہیں دیا ہے۔

پہلے بھی اٹھے ہیں سوال

قابل ذکر ہے کہ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے راہل گاندھی نے کہا کہ ہندوستان میں انتخابات کے معاملے میں اب بحث اس بات پر نہیں رہ گئی ہے کہ انہیں الکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) کے ذریعے کرایا جائے یا بیلٹ پیپر سے، بلکہ یہ اس بات پر ہے کہ الیکشن کمیشن آزاد ہے یا نہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ الیکشن کمیشن صحیح طریقے سے کام کرے گا تو انتخابات آزادانہ اور منصفانہ ہوں گے۔

اگرچہ کانگریس نے ماضی میں عوامی سطح پر اس طرح کے الزامات عائد کیے ہیں، لیکن یہ شاید پہلی بار ہے کہ اس کے سب سے قد آور لیڈر نے انتخابی ادارے پر بے باکی سے حملہ کیا ہے اور اس کی آزادی پر اس طرح سوال اٹھائے ہیں جس کا مشاہدہ پہلے کبھی نہیں کیا گیا۔

الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہونے کے ناطے صرف بیٹھ کر تماشا نہیں دیکھ سکتا۔ اسے ان خدشات کو سنجیدگی کے ساتھ دور کرنا چاہیے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔

لیکن ایسا کرنے کے لیے کمیشن کو اپنا جارحانہ انداز ترک کرنا ہوگا۔ الیکشن کمیشن کو اس کے کام کاج پر سوال اٹھانے کے لیے اپوزیشن پر حملہ کرتے دیکھا گیا ہے، اور سی ای سی نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ کمیشن کی قانونی حیثیت کو نقصان پہنچانے کے لیے ایک ‘جھوٹا بیانیہ’ گھڑا جا رہا ہے – جو کہ بی جے پی کی دلیل کے مطابق تھا۔

چند ماہ قبل کانگریس نے پولنگ اسٹیشنوں کی سی سی ٹی وی فوٹیج مانگی تھی، لیکن الیکشن کمیشن نے قواعد میں تبدیلی کرتے ہوئے پولنگ اسٹیشنوں کے کسی بھی سی سی ٹی وی فوٹیج کو شیئر کرنے پر روک لگا دی۔ کمیشن نے دلیل دی کہ ویڈیو فوٹیج شیئر کرنے سے غیر ضروری سیاسی تنازعہ پیدا ہوگا۔

حال ہی میں، بہار میں جاری ‘اسپیشل انٹینسو ریویژن’ (ایس آئی آر) مہم کے معاملے میں کمیشن نے سپریم کورٹ کی اس تجویز پر واضح طور پر اپنی ناراضگی ظاہر کی تھی کہ اسے آدھار، ووٹر فوٹو شناختی کارڈ یا راشن کارڈ جیسے شناختی دستاویزوں پر غور کرنا چاہیے۔

الیکشن کمیشن کو یہ سمجھنا ہوگا کہ وہ موجودہ سیاسی ماحول سے خود کو الگ نہیں رکھ سکتا، جہاں ہر ادارے کی خود مختاری پر سوالیہ نشان لگ رہا ہو یا وہ سیاسی دباؤ  میں ہو۔ الیکشن کمیشن کے پاس اس بڑھتے ہوئے تنازعہ سے خود کو دور کرنے کا ایک ہی راستہ ہے  کہ – وہ اپنے خلاف لگائے گئے ہر الزام کا منطقی اور پرامن طریقے سے جواب دے۔

فی الحال، کمیشن ووٹر لسٹ کے ڈیجیٹل ریکارڈ کو تصدیق کے لیے عام کر سکتا ہے، جیسا کہ جمعرات کو کانگریس رہنما رہول گاندھی نے مطالبہ کیا تھا، اور اگر اپوزیشن پارٹیاں مانگیں تو پولنگ کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی جاری کر سکتا ہے۔

جب تک ایسا نہیں ہوتا، راہل گاندھی کی تشویش ہر جمہوری سوچ رکھنے والے شہری کو پریشان کرتی رہے گی۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔

Next Article

بہار ایس آئی آر اور شہریت: الیکشن کمیشن کے منشا پر سوال

بہار میں ووٹر لسٹ پر نظرثانی کے عمل کے بعد الیکشن کمیشن نے بتایا ہے کہ پہلی ڈرافٹ لسٹ میں 65 لاکھ ووٹروں کے نام نہیں آئے ہیں۔ اس عمل پر پہلے ہی کئی سوال تھے اور اب یہ دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے کہ یہ مشق لوگوں کو جوڑنے کے لیے نہیں بلکہ  ہٹانے کے لیے ہے۔ آزاد صحافی پونم اگروال اور دی وائر ہندی کے ایڈیٹر آشوتوش بھاردواج کے ساتھ تبادلہ خیال کر رہی ہیں میناکشی تیواری ۔

Next Article

تخلیقی سرگزشت: ’مجھے یقین ہے نفرت کا انجام محبت ہوگا‘

میں اپنے عہد کے مسائل سے آنکھیں ملاکر بات کرتا ہوں۔ ان مسائل میں محبت بھی ہے اور نفرت بھی۔ مجھے یقین ہے کہ نفرت کا انجام محبت ہوگا۔ ہاں، موجودہ سیاست میں سچ بولنے والوں کے لیے جگہ نہیں ہے۔ مذہب کے نام پر مثبت سروکاروں کو رسوا کیا جارہا ہے۔ بھیڑ کسی کو بھی اپنا نوالہ بنالیتی ہے۔ اقلیت ہونا جیسے گالی ہو۔ میں اور میرے عہد کی تخلیقی سرگزشت کی اس قسط میں پڑھیے نئی نسل کے شاعر اور تخلیق کار معید رشیدی کو۔

میں اب تنقید نہیں لکھتا۔ شاعری ہی اوڑھنا بچھونا ہے۔

اپنے بارے میں لکھنا ، زخموں کو کریدنے سے کم نہیں۔ کھٹی میٹھی یادوں کے سلسلۂ جانکاہ میں اپنی رسوائی ، کم مائگی، محرومی، اور ایسے مقامات ِ آہ و فغاں بھی ہیں جہاں رکنا، اور رک کر سوچنا، اپنی مسلسل شکست کو تسلیم کرنا ہے۔ وہ اور ہی مٹی سے بنے ہوتے ہیں جو یادوں کا جشن مناتے ہیں۔

پرانے زخم کرید کر ان کی تعبیر بیان کرنے بیٹھا ہوں۔ تعبیر بھی وہ جو آج تک زنجیر کی قید سے آزاد نہیں ہوپائی۔ میں ذلت کی جمالیات تو نہیں لکھ سکتا۔ پھر بھی نوک ِقلم خون میں ڈوب کر آمادۂ تحریر ہے۔

یہ خون صرف میرا نہیں ، ان تمام انسانوں کا ہے جنھیں دنیا نے تماشا بنارکھا ہے۔

میں کلکتے کی گھنی آبادی والےمضافاتی علاقے کانکی نارہ میں پیدا ہوا۔ کلکتے کے مضافات جوٹ (گولڈن فائبر) کی انڈسٹری کےلیے جانے جاتے ہیں۔ یہاں مشرقی یوپی اور بہار سے لوگ  آکر کارخانوں میں مزدوری کرتے ہیں۔

لوکل ٹرین یہاں کی لائف لائن ہے۔دفتری اوقات میں بھیڑ ایسی ہوتی ہے  کہ تل دھرنے کوجگہ نہ ملے۔ہر دس پندرہ منٹ کے وقفے سے ایک ٹرین مل جائے گی جو آپ کو 50 منٹ میں سیالدہ پہنچا دے گی۔ یہ محض ٹرانسپورٹیشن کا ذریعہ نہیں بلکہ طرزِ حیات ہے۔ مسرت، صبر، اسٹرگل اور فرسٹریشن کا وہ دھارا ہے جس میں سب کو اپنی اپنی آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے۔

میرا خاندان یہاں دوسوبرس سے آباد ہے۔میرے دادا (سید محمد جان) یہاں جید حکیم تھے۔ میرے والد صوفی منش قلندر صفت انسان ہیں۔ والدہ پیکرِ صبر و وفا۔ زمانے کے نشیب و فراز نے غربت کے حوالے کر دیا تھا۔آتشِ  جدوجہدِ حیات میں تپ کر یہ سونا کندن بن سکا ہے یا نہیں ، خدا معلوم۔

اسی خطے کا ایک حصہ بھاٹ پاڑہ کہلاتا ہے جو بنگال کی تاریخ میں سنسکرت کی تعلیم کا قدیم مرکز کہلاتا تھا۔ یہاں سے تھوڑے سے فاصلے پر رشی بنکم چندر چٹرجی ‘آنند مٹھ’  لکھ رہے تھے، اور یہیں سے وندے ماترم کا نعرہ اٹھا تھا۔ دس کیلومیٹر کے حصار میں منگل پانڈے نے 1857 میں بیرک پور سے ہندستان کی پہلی جدوجہد آزادی کا بگل بجایا تھا۔

میں نے جب شعور کی آنکھیں کھولیں تو آس پاس بنگالی زبان کی مٹھاس جہاں کانوں میں رس گھول رہی تھی وہیں انقلاب و انقلاب کے نعرے بھی گونج رہے تھے۔

ہم مسلمانوں کی بستی میں رہنے والے لوگ بنگالی تہذیب سے مخلوط ہوتے رہے۔ سٹرک کے ایک جانب مسلمانوں کا علاقہ ہے اور دوسری جانب ہندوؤں کا۔ جیسے ایک ندی کے دوکنارے۔

دونوں آپس میں کبھی نہیں  ملتے لیکن دھارے دونوں کناروں کے احوال سنادیتے ہیں، اور انسان پل بناکر ہر فاصلہ ختم کردیتا ہے۔

تھوڑے فاصلے پر صرف بنگالی آباد ہیں۔ بنگالی امن پسند ہوتے ہیں۔ میں نے جتنے بھی فرقہ وارانہ فسادات دیکھے، وہ یوپی بہار سے آئے ہوئے لوگوں نے بھڑکائے تھے۔ اسی لیے بعض مقامی بنگالیوں کا خیال تھا کہ یہ لوگ باہر سے آکر یہاں کی امن پسند فضا کو تباہ کررہے ہیں، لیکن مقامی بنگالیوں نے باہر سے آئے ہوئے مہاجرین پر کبھی ظلم نہیں کیا۔


یہاں آباد یوپی بہار کے ہندومسلمانوں میں ایک عجیب بات تھی ، یعنی ایک دوسرے کے بغیر ان کادل بھی نہیں لگتا  تھا۔ میں نے اس علاقے کو ایک چھوٹا سا مثالی ہندوستان پایا جہاں فسادات بھی دیکھے، اور اسی فساد میں مارے گئے مسلمانوں کے جنازوں میں ہندوؤں کے کاندھے بھی دیکھے۔جیسے پھولوں کے سفر میں فاختائیں قطار اندر قطار چلی جاتی ہوں۔  ہندوؤں کی ارتھی کے پیچھے مسلمانوں کو خاموشی سے  چلتے ہوئے بھی دیکھا۔ جیسے چراغوں کا جلوس فنا کے بجائے بقا کا استعارہ بن جائے۔


فساد کے رکتے ہی دونوں طرف کے بزرگوں کو آپس میں بیٹھ کرامن بحال کرتے ہوئے بھی دیکھا۔ جیسے وہ کہہ رہے ہوں کہ محبت ہی آخری سہارا ہے۔ رمضان میں ہندوؤں کو افطار کراتے ہوئے پایا۔ درگاپوجا میں مسلمانوں کی گرم جوشی دیکھی۔

تعلیمی میدان میں دونوں کی مشترکہ جدوجہد کا مفہوم سمجھا۔فٹ بال کے میدان میں کیا ہندو کیا مسلمان، کیا بنگالی ، کیا بہاری؛ سب کے اندر کھیل کا ایک جنون نظر آیا۔

سچ بتاؤں تو ایک عرصے تک مجھے پتا ہی نہیں تھا کہ ہندو ؤں اور مسلمانوں میں کچھ فرق بھی ہوتا ہے۔ اسکول میں ہندومسلمان سب ساتھ پڑھتے تھے۔

میرے اندر کے بنارس کی طرف آنا پڑےگا
پاک ہونے کے لیے آنکھوں میں گنگا جل نہیں ہے

میں اپنے اسکول کے ان ہندو اساتذہ کو نہیں بھول سکتا جنھوں نے مجھے آدمی سے انسان بنایا۔ سوچتا ہوں کہ اگر میں ایسے اسکول میں پڑھتا جہاں صرف مسلمان پڑھتے ہوں تو شاید میرے اندر کا ہندوستان ادھورا رہ جاتا۔میرے اسکول میں ہندو اساتذہ بھی اردو جانتے تھے۔ کالج میں بھی امتزاجی  صورت حال برقرارتھی۔ یہاں بنگالی بولنے والوں کی کثیر تعداد تھی۔ ہندوستانی بولنے والے آٹے میں نمک کے برابرتھے۔

بنگال کی تہذیب فنون لطیفہ کے ذکر کے بغیر نامکمل ہے۔ بچپن میں بنگالیوں کے رہن سہن کو قریب سے دیکھا ۔ ان کے علاقوں میں بدتمیزی، شورشرابا ، ہنگامہ اور بلاوجہ گلیوں میں بیٹھ کر اوباشی کرناممنوع تھا۔

دوپہر میں بنگالی علاقوں میں ہوکاعالم ہوتا ۔ شام ہوتے ہی گھروں سے مختلف آلاتِ موسیقی کی آوازیں، رقص کی مشق اور مصوری و مجسمہ سازی کی کلاسز کا سلسلہ شروع ہوجاتا تھا۔

مجھے اپنے  مصوری کے ٹیچر چنی لال اب بھی یاد آتے ہیں جن کے آرٹ اسکول میں پہلی بار میں رنگوں اور خطوط کی معنویت سے واقف ہواتھا۔ چنی لال کے یہاں 95فیصد بنگالی طلبہ ہوا کرتے تھے۔ ان کی ٹوٹی پھوٹی ہندوستانی کو یاد کرکے میں اب بھی مسکرادیتا ہوں۔

جب مصوری کا جنون طاری ہوا تو ہر شے ثانوی لگنے لگی۔ مصوری میرا پہلا عشق ہے۔ کاغذ سے کینوس کا سفر طے کرنے میں مجھے دیر نہیں لگی۔ کلکتہ ورلڈ  بک فیئر میں ہم دوست اپنی پینٹنگز کی نمائش  کرتے۔ کچھ وہاں فروخت بھی ہوجاتیں۔ یہ اس زمانے کا واقعہ ہے جب میں نے ابھی ہائی اسکول پاس نہیں کیاتھا۔

یہ دور بے انتہالاپروائی اور خوابوں کے جنون کا تھا۔ مصوری کے ساتھ فٹ بال اور پھر کرکٹ کا بھوت سوار ہوا۔ دوستوں کے ساتھ آوارگی کرنے لگا۔ عین ممکن تھا کہ اس آوارگی میں ایک دن میں تباہ ہوجاتا لیکن میری ماں نے مجھے بچا لیا۔

میری ماں چاہتی تھیں کہ میں پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بنوں۔ خاندان کا نام روشن کروں۔ خاندان کے افراد مجھ سے مایوس ہوچکے تھے۔ انھیں لگتا تھا کہ میں ہائی اسکول بھی نہیں کرسکوں گا لیکن قدرت کے فیصلے کون جانتا ہے۔ امی کی تربیت اور تعلیم سے گہری وابستگی نے مجھے کتاب کی وادیوں میں اتار دیا۔ میرے والد کتب بینی کے علاوہ کوئی دوسرا شوق نہیں رکھتے تھے۔

میں نے گھر میں غربت دیکھی۔ گھر میں آسائش کی چیزیں تو نہ تھیں لیکن جس طرف نظر اٹھاتا کتاب ہی کتاب نظر آتی۔ ہر ہفتے ڈاک سے کتابیں اور رسالے چلے آتے۔ اردو کے دو اخبارات گھر میں نظر آتے۔

میں نے اسکول کے زمانے ہی میں اخبارات میں لکھنا شروع کردیا تھا۔ پہلے مراسلے ، پھر مضامین اور اس کے بعد غزلیں اور نظمیں۔اب میں شاید صحیح راستے پر آگیا تھا۔ مصوری کے ساتھ کھیل کود سب پیچھے رہ گئے۔ اب ایک ہی جنون تھا کچھ کرنا ہے۔ کچھ بننا ہے۔

اسکول سے نکل کر کالج پہنچا تو صحیح معنوں میں میری دنیا بدل چکی تھی۔ مولانا آزاد کالج کے بجائےمیں نے جان بوجھ کر ہگلی محسن کالج میں داخلہ لیاتھا۔

یہ کالج حاجی محمد محسن نے 1836میں قائم کیا تھا۔ بنکم چندر چٹرجی، ڈی ایل رائے (شاعر، ڈراما نگار اور موسیقار)، مشہور سائنٹسٹ راج بہادر سر اوپندرناتھ برہمچاری اورجسٹس  سید امیر علی جیسے نابغۂ روزگار اس کے اولین طلبہ میں تھے۔ اس وقت تک سرسید کے ذہن میں یہ خیال بھی نہ رہا ہوگا کہ آگے چل کر وہ کسی تعلیمی تحریک کی بنیاد ڈالیں گے۔

اس کالج میں داخلہ لینے کا مقصد اس کی قدیم اور زرخیز لائبری سے استفادہ کرنا تھا۔ وہاں مجھے نیر جمال ملے جو مارننگ کالج میں لائبریرین تھے۔ میں نے ان سے دوستی کرلی۔ انھیں میں نے ایسا رام کیا کہ ہر روز وہ مجھے چار کتابیں جاری کرنے لگے۔ کئی موقعوں پر میرے لیے وہ دوسرے بنگالی اسٹاف سے لڑبھی گئے۔ میرا شوق دیکھ کر انھوں نے مجھے مشورہ دیا کہ تم ایم اے کے لیےعلی گڑھ یا دہلی چلے جاؤ۔ وہ خود علی گڑھ کے پروردہ تھے۔

میرے نصاب میں بنگال کے شاعر وحشت کلکتوی شامل تھے۔ ان پر کوئی معقول کتاب دستیاب نہیں تھی۔ میں نے طے کیا کہ ان پر ایک کتاب لکھوں گا۔ میں نے مواد جمع کرنا شروع کرکیا۔ کالج کی لائبری کے علاوہ مغربی بنگال اردو اکیڈمی کی لائبریری اور کلکتہ نیشنل لائبریری (علی پور) میں گھنٹوں وقت گزارنے لگا۔ وہاں کے اسٹاف سے دوستی ہوگئی۔

‘وحشت: حیات اور فن’ میری اولین کتاب ہے جو 2010 میں دہلی سے شائع ہوئی۔

میری کم عمری اور شوقِ مطالعہ کو دیکھتے ہوئے وہ میری مدد میں کوتاہی نہ کرتے۔ اس طرح دو سال کے عرصے میں آخر میں نے وحشت پر کتاب لکھ ماری۔

یہ وہی زمانہ ہے جب منور رانا کلکتے سے لکھنؤ شفٹ ہورہے تھے۔ میں ان کے پاس بیٹھنے لگا۔وہ مجھے کئی مشاعروں میں اپنے ساتھ لے گئے۔ اسی دوران کلکتے میں ایک سمینار منعقد ہوا جس میں پروفیسر قمر رئیس اور لطف الرحمٰن تشریف لائے۔

میں قمر رئیس صاحب سے ملا۔ انھوں نے حیرت انگیز طور پر میری حوصلہ افزائی کی۔ ان سے فون پر رابطہ رہنے لگا۔ انھوں نے میری کتاب کا مقدمہ لکھا اور مجھے دہلی آنے کا مشورہ دیا۔ میرے اساتذہ بھی چاہتے تھے کہ میں وہاں کی مقامی تدریسی سیاست کا حصہ نہ بنوں۔

مقدر کے فیصلے بھی عجیب ہوتے ہیں۔ میں نے کبھی سوچا نہ تھا کہ گھر سے دورجانا پڑے گا۔ بچھڑنے کے خیال ہی سے جان نکل جاتی لیکن ہوائیں اپنا رخ بدل چکی تھیں۔ میں دہلی کے جواہرلعل نہرو یونیورسٹی پہنچ چکا تھا۔

شہردہلی میری زندگی کا دوسرا پڑاؤ بنا۔ جے این یو میں داخل ہوتے ہی اجنبیت کا شدید احساس ہوا۔ ایسا لگا کہ دیوانہ آبادی سے نکل کر ویرانے کی طرف چلاآیا ہے۔ جنگل، پہاڑیوں کے نشیب و فراز اور خالی سڑکیں۔ سکون ایسا کہ دم گھٹنے لگے۔ گھر کی یاد آئی ۔ آنسو نکل پڑے۔ میں تو کشتیاں جلاکر آیا تھا۔اس لیے واپسی کے تمام راستے بند ہوچکے تھے۔

یہاں کی فضا سے مطابقت میں تھوڑا وقت لگا۔میں چونکہ بنگال سے آیا تھا، اور بنگال میں اس وقت لیفٹ کی حکومت تھی، اس لیے یہاں کی سیاسی فضا اجنبی نہیں لگی۔ یہاں بھی وہی نعرے گونج رہے تھے جن سے میرے کان بچپن ہی سے آشنا تھے۔ یہاں بنگالی طلبہ کی بھی کثیر تعداد تھی۔ پھر  کچھ دوست بنے۔ سالم سلیم میرے ہم درس تھے۔ فیاض احمد وجیہہ کے ساتھ سب سے زیادہ وقت گزرتا۔ راغب اختر کی ضیافت کے ہم سب قائل ہوئے۔

جابرزماں کا کمرہ مرجعِ خلائق بناہوا تھا جسے ہم لوگ ‘کتھارسس ہاؤس’ کہا کرتے تھے۔  یہاں ادبی محفلیں منعقد ہونے لگیں۔ اب دھیرے دھیرے جے این یو کے اسرار مجھ پر کھلنے لگے تھے۔ جیسے یہی اب میرا دوسرا گھر ہو، اور یہی احباب میرا خاندان۔

یہاں کی ہریالی، اراؤلی پہاڑی سلسلے کی قدامت، سناٹے کا شور یعنی فطرت کی گود میں بیٹھ کر کوئی نیا باب لکھاجارہا ہو۔ یہاں رات رات بھر ہم جاگتے ۔ ایک ڈھابے سے دوسرے ڈھابے ، کبھی پی ایس آر ، کبھی رنگ روڈ اور کبھی گنگا ڈھابے کی پہاڑی باقیات پر رات گزرجاتی۔رومان پرور فضا،  گرما گرم بحثیں، چائے اور غیبت۔

صبح جب مور پنکھ پھڑپھڑاتے ہوئے رقص کرتے، نیل گائیں جگالی کرتے ہوئے تھک جاتیں، کہیں دور ہرن جھاڑیوں میں چھپ جاتی، طرح طرح کے جانور اور پرندے بے خوف ہو کر بیدار ہورہے ہوتے اور ہم شب بیدار اپنا چراغ بجھا رہے ہوتے۔

کبھی کبھی لگتا کہ عرفانِ ذات بھی نہ ہوا،  رات بھی گئی لیکن خلوص اور بے لوث تعلق نے کبھی احساسِ زیاں کا شائبہ تک  نہ آنے دیا۔ ایسی آزاد فضا تھی کہ کیا چرند کیا پرند ؛ سب کو فطرت کی گود میں جینے کا حق تھا۔ایک  ہی سڑک پر ایک طرف انسان چل رہے ہوتے ، اور اسی سڑک کے کنارے کبھی کبھار سانپ بھی رینگ رہے ہوتے، لیکن کسی کو کسی سے خوف نہیں تھا۔

ہر تہذیب، خطے، نسل، مذہب اور زبان کے لوگ یہاں موجود تھے۔ رواداری کی عمدہ مثال تھی۔کسی کی آزادی مشروط نہیں تھی۔  کبھی اس آزادی پر حرف آتا تو انقلاب کے نعرے گونجتے۔ دنیا میں کہیں ظلم ہوتا تو یہاں کی صدائے احتجاج رات کا سینہ چیر دیتی۔ ایسا لگتا تھا کہ اب انقلاب آیا ہی چاہتا ہے۔ انقلاب تو نہیں آیا لیکن ہم نے انقلاب کے معنی ضرور سمجھ لیے۔

کبھی کبھی ہم کیمپس کے باہر بھی نکلتے۔ دہلی کی ادبی محفلوں کا حصہ بنتے۔ مشاعروں،سمیناروں اورر مذاکروں میں شرکت کرتے۔ ساہتیہ اکادمی، غالب انسٹی ٹیوٹ، غالب اکادمی، اردو اکادمی، دہلی یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ…….۔اس زمانے میں ان اداروں کی ادبی محفلیں پھیکی نہیں ہوتی تھیں۔ ہاسٹل کے کھانوں سے جی اوبتا تو ان اداروں کے سمینار اور مذاکرے لذتِ کام و دہن کا ذریعہ بنتے۔

کیمپس میں مجھے افسانہ نگار پروفیسر معین الدین جینابڑے کی سرپرستی میسر آئی۔ ان کے بارے میں طرح طرح کی افواہیں مشہور تھیں۔ یہ سچ ہے کہ وہ بے حد پیچیدہ شخصیت کے مالک ہیں۔ انھیں سمجھ لینے کا دعویٰ بے سود ہے لیکن ان کی فن کارانہ صداقت میں کلام نہیں۔ دل ایسا صاف کہ ان کے فیصلے کو دنیا کی کوئی طاقت بدل نہیں سکتی، اور جس سے بدگمان ہوئے، دنیا کی کوئی طاقت انھیں قائل نہیں کر سکتی۔

دہلی کی ادبی فضامیں کچھ نئے دوست بنے۔ تصنیف حیدر ذاکر نگر میں مقیم تھے۔ کبھی کبھی غالب ایاز سے بھی ملاقات ہوجاتی۔ دہلی کی ادبی کارگزاری زبیر رضوی اور شمیم حنفی کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ انھیں ہم کیمپس کے جلسوں میں آسانی سے بلالیتے تھے۔

زبیر رضوی سے قلبی تعلق تھا۔ ان کے دولت کدے پر میں اور فیاض وجیہہ اکثر چلے جاتے۔ دیر تک بیٹھتے اور ان کے کام کرنے کے طریقوں سے متاثر ہوتے۔ وہ ہم دونوں سے محبت کرتے تھے۔ ‘ذہن جدید’ کے صفحات ہمارے لیے کھلے ہوئے تھے۔ فیاض کے عمدہ افسانے یہیں شائع ہوئےتھے۔ جس نوع کے افسانے وہ لکھ رہے تھے ، کوئی اور رسالہ چھاپنے سے شاید قاصر رہتا۔

زبیر صاحب کا اکثر فون آجاتا۔ وہ گھنٹوں باتیں کیا کرتے۔ اکثر کہتے میرے ساتھ پریس کلب چلو۔

ابھی جے این یو آیا ہی تھا کہ دوسرے سمیسٹر میں آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہوگیا۔ یہاں بہت کچھ سیکھنے کا موقعہ ملا۔‘وحشت: حیات اور فن’ میری اولین کتاب ہے جو 2010میں دہلی سے شائع ہوئی۔

اسی سال میرا ،ایم اے مکمل ہوا۔ایم فل کے لیے دہلی یونیورسٹی کا رخ کرنا پڑا۔ ایم اے کے فوراً بعد قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان میں رسرچ اسسٹنٹ منتخب کرلیا گیا۔ تحریری امتحان پاس کرلینے کے بعد انٹرویو کی باری آئی۔

اس مقالے کو قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نے شائع کیا۔

شمس الرحمن فاروقی نے کونسل کے ڈائرکٹر حمید اللہ بھٹ سے میری سفارش کی، اور میں منتخب کرلیا گیا۔ 2012میں مومن خاں مومن پر ایم فل مکمل ہوئی۔ایک سال کے بعد اس مقالے کو قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نے شائع کیا۔ 2011میں ‘تخلیق، تخئیل اور استعارہ’ شائع ہوئی۔ اس کتاب نے مجھے اعتبار عطا کیا۔

اسی کتاب پر 2013 میں ساہتیہ اکادمی نے مجھے نوجوان ادیبوں کے قومی اعزاز سے سرفراز کیا۔شمس الرحمٰن فاروقی نے اس کتاب پر لکھتے ہوئے کہا؛

ایک مدت کے بعد اردو میں ایسی تنقیدی کتاب دیکھی جس کو پڑھ کر نہ الجھن ہوتی ہے، نہ دم الٹتا ہے ، نہ غصہ آتا ہے اور نہ تفہیم و ترسیل کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔

گوپی چند نارنگ نے شفقت فرمائی۔ ایک دن ان کا فون آیا۔ کہنے لگے جلدہی آپ کو ایک خوش خبری ملے گی۔ جس دن ایوارڈ کا اعلان ہوا، میں بنگلور میں قومی کونسل کا ایک ورک شاپ کروا رہا تھا۔ وہ میری زندگی کا ایک خوشگوار دن تھا۔

ملازمت کی وجہ سے اب میں جے این یو اور منیرکا سے شاہین باغ شفٹ ہوچکا تھا۔ سالم سلیم بھی ابوالفضل انکلیو شفٹ ہوئے۔ تصنیف سے ملاقات کاسلسلہ دراز ہوا۔ غالب ایاز اور کبھی کبھی زمرد مغل کے ساتھ وقت گزرنے لگا۔ فیاض وجیہہ اکثر جے این یو سے چلے آتے۔ جب وہ آتے تو ہمارا سارا وقت حقانی القاسمی کے ساتھ گزرتا تھا۔

اس کتاب پر 2013 میں ساہتیہ اکادمی نے مجھے نوجوان ادیبوں کے قومی اعزاز سے سرفراز کیا۔

سال 2014 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں میرا تقرر ہوگیا۔ ایک نئی فضا جہاں جدیدیت سے زیادہ تاریخی حوالوں پر زور دیا جارہا تھا۔ اس حقیقت کے باوجود کہ سرسید کے تمام سروکار جدید تھے۔یہاں سکون ہی سکون ہے۔ ٹھہری ہوئی فضا میں تحقیق، تنقید اور تخلیق کے لیے کافی گنجائشیں ہیں۔

جے این یو کی طرح یہاں وہ کھلاپن نہیں ہے جس کا سبب یہاں کی روایات ہیں۔ بعض روایتیں کھٹکتی ہیں، بعض اچھی لگتی ہیں۔ شاید یہی حدود اس ادارے کی پہچان بھی ہیں۔ حقیقت تو یہ بھی ہے کہ جے این یو بھی اب کافی بدل چکی ہے۔ سیاسی تبدیلیوں نے ایک نوع کا جبر مسلط کررکھا ہے۔ یہ جبر صرف تعلیمی اداروں پر نہیں بلکہ ہر شعبۂ حیات میں محسوس کیا جاسکتا ہے۔ علی گڑھ میرے لیے مادر علمی کبھی نہیں رہا۔

بحیثیت استاد میں نے ‘جدید غزل کی شعریات’ پر پی ایچ ڈی کا مقالہ داخل کیا، اور مجھے اس مقالے پر پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض ہوئی۔

یہاں  بحیثیت استاد میں نے ‘جدید غزل کی شعریات’ پر پی ایچ ڈی کا مقالہ داخل کیا، اور مجھے اس مقالے پر پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض ہوئی۔ مقالہ شائع ہوچکا ہے۔ یہاں مجھے تقریباً گیارہ برس ہوچکے ہیں ، لیکن مجھ سے کانکی نارہ کی تنگ گلیاں چھوٹیں، نہ کالج اسٹریٹ اور کلکتہ کافی ہاؤس کی شامیں، جے این یو کی آوارگی چھوٹ سکی نہ دہلی کا شور کم ہوسکا۔

یادیں مجھے دفن ضرور کردیں، میں یادوں کو دفن نہیں کرسکتا۔ آج میرے گلے میں غربت کا طوق نہیں ہے لیکن فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے لوگوں کے چہرے پڑھتا ہوں تو کاٹی ہوئی زنجیریں مجھ پر یلغار کردیتی ہیں۔ میں اپنا دکھ بھولنا بھی چاہوں تو نہیں بھول سکتا، کیوں کہ اس دنیا کا کمینہ پن روز چابک لیے تیار بیٹھا ہے اور موقعے کی تلاش میں ہے۔

فضا میں زہر ہوتو کوئی بات نہیں کہ لوگ مرجائیں گے، لیکن یہ دنیا احساس میں زہر بھردے تو گھٹ گھٹ کے جینے کے لیےآدمی مجبور ہوجاتا ہے۔ ذاتی زندگی کے بہت سے حوالے میں لکھنا چاہتا ہوں لیکن ان میں بکھراؤ اس قدر ہے کہ خود کو یکجا کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔

مصوری میرا پہلا عشق ہے اور شاعری دوسرا عشق، لیکن دوسرے عشق نے پہلے عشق پر  دبیز  پردے ڈال دیے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ دونوں میں کوئی فرق نہیں کیونکہ میں شاعری میں بھی رنگ آمیزی ہی کرہاہوں۔ مبہم لکیریں ہوں کہ مبہم الفاظ؛ ان میں معنی کا قرینہ تلاش کرہا ہوں۔

انٹرمیڈیٹ میں میری ایک غزل مغربی بنگال اردو اکیڈمی کے سہ ماہی رسالے ‘روحِ ادب’میں شائع ہوئی تھی۔ رسالے کا کوئی نسخہ میرے پاس محفوظ رہ سکا ، نہ اس غزل کا کوئی شعر مجھے یاد رہ سکا ہے۔ اسی زمانے میں بچوں کے لیے نظمیں لکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ پابندی سے ایوانِ اردو کے متعدد شماروں میں نظمیں شائع ہوئیں۔

جب باقاعدہ اردو درسیات کے نرغے میں آیا تو پتا چلا کہ یہاں تخلیقی فنکار ہونا معیوب ہے۔ یہاں محققین اور ناقدین کی پذیرائی ہوتی ہے،تخلیق کاروں کی نہیں۔

یہی سبب ہے کہ ہمارے ادارے بانجھ ہوتے جارہے ہیں۔ جے این یو آکر مجھے لگا کہ کچھ تو کرنا ہوگا کہ یونیورسٹی ٹیچنگ کا حصہ بن سکوں۔ ملازمت کا حصول میرا بنیادی مسئلہ تھا، ‘مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا’ کے مصداق ہر حال میں مجھے اسے حاصل کرنا تھا۔

میں نے تنقید لکھنا شروع کیا۔ بہت جلد دنیائے تنقید میں قبول کرلیا گیا۔ جب میری کتاب‘تخلیق، تخئیل اور استعارہ’شائع ہوئی تو ہر طرف سے پذیرائی ملی۔ شمس الرحمٰن فاروقی، گوپی چند نارنگ، شمیم حنفی،، عتیق اللہ،مرزاخلیل احمد بیگ، شافع قدوائی،  ناصر عباس نیر…..صف اول کے تمام ناقدین اور تخلیق کاروں میں زبیر رضوی، ستیہ پال آنند، انیس رفیع، شین کاف نظام، معین الدین جینابڑے، مشرف عالم ذوقی، مولا بخش وغیرہ نے دل کھول کر حوصلہ بڑھایا۔

آل انڈیا ریڈیو کے دہلی اسٹیشن میں اس کتاب پر مذاکرہ ہوا جس میں شمیم حنفی، عتیق اللہ، معین الدین جینا بڑے اور ابوبکر عباد شامل ہوئے۔ اس کتاب پر ممبئی کے رسالے ‘اردو چینل’ نے ایک خصوصی گوشہ شائع کیا جس میں ریڈیو کا یہ مذاکرہ بھی شامل تھا۔ اس کتاب کی مقبولیت اسے پاکستان سے افغانستان لے گئی اور وہاں پشتو زبان میں اس کا ترجمہ کیا گیا۔


تنقید میری درسی ضرورت تھی ، میرا جنون نہیں۔ جیسے ہی ملازمت ملی ، ضرورت پوری ہوگئی۔ اب میں ہوں، میری شاعری ہے اور ایک تماشے کی صورت ‘بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے’۔


یہ سچ ہے کہ تنقیدی مطالعات نے میرے تخلیقی شعور کو روشنی عطا کی۔ عروض ، آہنگ، معنی اور بیان کے رموز سے پردہ اٹھا۔ 2021 میں میرا پہلا شعری مجموعہ ‘آخری کنارے پر’اردو رسم الخط میں ریختہ فاؤنڈیشن نے شائع کیا۔

یہی مجموعہ ‘عشق’ کے عنوان سے ناگری رسم الخط میں بھی شائع ہوا جس کے اب تک متعدد اڈیشن نکل چکے ہیں۔ دوسرا مجموعہ زیرترتیب ہے۔ میں اب تنقید نہیں لکھتا۔ شاعری ہی اوڑھنا بچھونا ہے۔

میں اس کائنات کا چھوٹا سا  ذرہ ہوں۔ مٹی، پانی اور ہوا میرے لیے ایک ہیں۔ یہ اجزا ناقابل تقسیم ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی ہم ہر روز انسانوں کو تقسیم کرتے رہتے ہیں۔ میرے لیے انسانیت ناقابل تقسیم ہے۔ اس وسیع کائنات کا ایک چھوٹا سا حصہ ہم پر اثرانداز ہوتا ہے۔ اسی لیے ہر تخلیق کار اپنے باطن اور اطراف کی تخلیقی روداد قلم بند کرتا ہے۔

2021 میں میرا پہلا شعری مجموعہ ‘آخری کنارے پر’اردو رسم الخط میں ریختہ فاؤنڈیشن نے شائع کیا۔
یہی مجموعہ ‘عشق’ کے عنوان سے ناگری رسم الخط میں بھی شائع ہوا جس کے اب تک متعدد اڈیشن نکل چکے ہیں۔

وہ جس فضا اور جس جغرافیائی خطے میں رہتا ہے ، اس کے اثرات اس کی تخلیقی زندگی پر پڑتے ہیں۔ کسی تخلیق کار کی تخلیقی شخصیت اس کی مٹی اور اس کی جڑوں سے وابستہ ہوتی ہے۔ ایسا ہوہی نہیں سکتا کہ انسان جس فضا میں سانس لے رہا ہے، اس سے خود کو الگ کرلے۔

میری خوش قسمتی ہے کہ میں ایک ایسے ملک میں پیدا ہوا جس کی تاریخ  ، تہذیب  اور ثقافت دنیا کا قدیم ترین حوالہ ہے۔ میرا تخلیقی حوالہ اپنے ملک کی تاریخ، تہذیبی شناخت، جغرافیائی اثرات، سماجی اور سیاسی حالات اور مشترکہ و مخلوط تہذیبی وراثت کی روح میں پنہاں ہے۔ اس سفر میں میرا پہلا پڑاؤ پنڈت چندربھان برہمن لاہوری(1574ء) ہے جو اردو کا پہلا شاعر ہے۔

اردو زبان روزاول سے سیکولر مزاج کی آئینہ دار ہے۔دوسرا پڑاؤ امیر خسرو ہیں جنھیں ہم قومی یکجہتی کے علمبردار اور صوفی شاعر کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ خسرو ہمارا پہلا وطن پرست شاعر ہے جس نے ہندوستان کا قصیدہ لکھا۔ قطب الدین مبارک شاہ کی فتوحات پر مبنی مثنوی نہ سپہر(نو آسمانی طبقات ) میں ہندوستان کا یہ خوبصورت قصیدہ موجود ہے۔اس نے ہندوستان کو ترکی، ایران اور یونان سے  برترقرار دیاہے۔ ہندوستانی بود وباش، جانور، پرندوں، حسیناؤں، لباس، موسموں، تہواروں اورعلاقوں کے ساتھ ہندسہ،شطرنج اورپنچ تنترسے ہندوستان کی شناخت متعین کی ہے۔

میرا تیسرا پڑاؤ کبیر ہے جس نے انسانیت کی روح کو سمجھا اور ہندوستانیت کو اس کے برابر لاکھڑا کیا۔ میرا چوتھا پڑاؤ قلی قطب شاہ ہے جس نے ایران اور یونان کے مقابلے ہندوستانیت اور دکنیت کو برتر بتاتے ہوئے اپنی مٹی سے عشق کیا۔ میرا پانچواں پڑاؤ میر تقی میر ہے جس نے کہا؛

اس کے فروغ حسن سے جھمکے ہے سب میں نور
شمعِ حرم ہو یا کہ دیا سومنات کا

میرا چھٹا پڑاؤنظیر اکبرآبادی ہے جو صاف کہتا ہے:

زنار گلے یا کہ بغل بیچ ہو قرآن
عاشق تو قلندر ہے نہ ہندو نہ مسلمان

میرا ساتواں پڑاؤ غالب ہے جو کہتا ہے:

ایماں مجھے روکے ہےجو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے

مومن، اقبال، فیض، حسرت موہانی،فراق گورکھپوری کی فہرست میں وہ تمام شعرا جنھوں نے انسانیت سے محبت کی، اپنے اطراف کو تخلیقی رمز عطا کیا، میری تخلیقی بصیرت نے سب سے کسب فیض کیا ہے۔ ان سے بھی جنھوں نے عشق کے معنی سمجھائے، ان سے بھی جنھوں نے انقلاب کا مفہوم بتایا، اور ان سے بھی جنھوں نے تصوف کے وسیلے سے دنیا کا اصل چہرہ دکھایا۔ یہ انھی شعرا کا فیض ہے کہ میں اس طرح کے شعر کہہ سکا؛

میرے اندر کے بنارس کی طرف آنا پڑےگا
پاک ہونے کے لیے آنکھوں میں گنگا جل نہیں ہے

یہاں بنارس ایک شہر نہیں ، بلکہ استعارہ بن چکا ہے۔اگر میری بنیادی پہچان ہندوستان کی مٹی نہ ہوتی تو یہ لفظیات آتیں نہ یہ اسلوب بنتا۔

میں اپنے عہد کے مسائل سے آنکھیں ملاکر بات کرتا ہوں۔ان مسائل میں محبت بھی ہے اور نفرت بھی۔ مجھے یقین ہے کہ نفرت کا انجام محبت ہوگا۔اس لیے کہ ہندوستان ہمیشہ سے محبت ، رواداری، قربانی، انقلاب اور عشق کا علمبردار ، رہا ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ انسانیت کا پہلا اور آخری پڑاؤ محبت ہے۔ میرا پتا یہی پڑاؤ ہے۔سانس اگر اپنے ہی جسم میں بنواس کاٹنے لگے تو یہ داغ سریو کے مقدس پانی سے بھی نہیں دھل سکتا۔ جذبۂ تقدس نے عالم تخلیق میں دھونی رماکر آسن جمایا ہے اور محسوسات نے ناریل کے پانی سے وضو کرلیا ہے۔

اگر آپ مجھ سے ہندوستانیت کا مفہوم جاننا چاہتے ہیں تو میری ہندوستانیت انسانیت ہے۔ ہندوستان ایک ملک ضرور ہے لیکن ہندوستانیت کا کوئی ایک تصور قائم کرنا اور اس پر اڑے رہنا حماقت ہے۔ جذبۂ وطنیت کے ایک دھارے میں شریک ہونے کے باوجود اس کی الگ الگ شاخوں سے انکار ناممکن ہے۔

جس طرح ساری ندیاں مل کر ایک مہاساگر بناتی ہیں، اسی طرح الگ الگ تصور ِ حیات اور طرزِ معاشرت مل کر ایک عظیم ملک کا تصور پیش کرتے ہیں۔ہندوستان کو سمجھنے والے ہر نظریے کا ہمیں احترام کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ یہ ملک واقعی کثرت میں وحدت کی بہترین مثال ہے۔ ایسی مثال اور کہیں نہیں ملتی۔

میں نے تنقید لکھنا شروع کیا۔ بہت جلد دنیائے تنقید میں قبول کرلیا گیا۔

میں اپنے بچپن کا ہندوستان کیسے بھول جاؤں؟

موجودہ سیاست میں سچ بولنے والوں کے لیے جگہ نہیں ہے۔ گویا سچ بولنا گناہ ہو۔ اختلاف کو مخالفت سمجھ لیا گیا ہے۔ مذہب کے نام پر مثبت سروکاروں کو رسوا کیا جارہا ہے۔ بھیڑ کسی کو بھی اپنا نوالہ بنالیتی ہے۔ اقلیت ہونا جیسے گالی ہو۔

صفائی، صحت، تعلیم اور ،روزگار کے بجائے مندرومسجد کا قضیہ میڈیا کا محبوب موضوع بن جائے تو معاشرے کے اصل مسائل کا کیا ہوگا۔بعض مواقع پر عدالتیں بھی مایوس کردیتی ہیں۔ سماجی ڈھانچہ مسلسل تخریب کے عمل سے گزر،رہا ہے۔ حکمراں جیسے خدائی کا دعویٰ کررہے ہوں، اور جیسے کہ انھیں کسی نے یقین دلادیا ہو کہ تمھارا اقتدار کبھی ختم نہیں ہوگا۔

جب یہ احساس پیدا ہوجاتا ہے تو حکومت جمہوریت کے بجائے ڈکٹیٹرشپ کی طرف چل پڑتی ہے۔ احتجاج اور مثبت مزاحمت کے لیے جس معاشرے میں جگہ نہ ہو وہ معاشرہ صحت مند ہوہی نہیں سکتا۔

جہاں کمزور وں پر ظلم کیاجاتا ہو، اقتدار کا غلط استعمال کیا جاتا ہو، وہ معاشرہ بیمار ہے۔ اس کا علاج سیاست دانوں کے پاس نہیں ہوسکتا۔

اس بیماری کا علاج تو اس عہد کے فن کاروں، مصنفین، مورخین، صوفیااور دردمند افراد ہی کو  کرنا پڑے گا۔ ہر نفرت کی ایک عمر ہوتی ہے۔ کوئی بھی سماج صرف نفرت کے سہارے زیادہ دنوں تک نہیں چل سکتا، کیونکہ انسان بنیادی طور پر محبت کرنے کے لیے پیدا ہوا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارا یہ ملک تبدیل ہوگا اور یہ آلائشیں دم توڑ دیں گی۔

معید رشیدی، فوٹو: دی وائر

میری شاعری اسی عہد کی نبض سے نکلی ہے۔ میرے اشعار میرے عہد کی دھڑکنیں ہیں۔ ان میں میری ذات بھی ہے اور کائنات بھی۔ میں اگر مقتدرہ پر طنز کرتا ہوں تو اس کا مقصد تبدیلی کی تمنا ہے۔

میں صرف اپنے ملک ہی کو نہیں بلکہ پوری دنیا کو محبت کی آماجگاہ بنتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں۔ یہ خواب ضرور ہے لیکن یہ خواب نہ ہوں تو دم نکل جائے آدمی کا۔

میری شاعری میرے خوابوں کی تعبیر ہے، اور میرے قارئین کے لیے نئے خوابوں کا سرچشمہ۔ اس میں شک نہیں کہ بہت تیزی سے دنیا بدل رہی ہے۔ میں اپنے اطراف کی سیاست، ثقافت ، انسانی رویوں، رشتوں اور ان کے بکھراؤ کو دیکھتا ہوں تو گھن آنے لگتی ہے، لیکن انھی میں کہیں سے محبت کی روشنی پھوٹتی ہے اور جینے کے معانی نکل آتے ہیں۔ جس دن یہ روشی ختم ہوجائے گی، اندھیرا مجھے شکست دے دے گا، اور میں نہیں چاہتا کہ دنیا مجھے شکست خوردہ کہہ کر پکارے؛

جنگ باقی ہے ابھی ہار کہاں مانی ہے

اس سیریز کے مضامین  پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

Next Article

جموں و کشمیر میں کتابوں پر پابندی: مصنفین، سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں کا احتجاج

جموں و کشمیر انتظامیہ کی جانب سے 25 کتابوں پر پابندی عائد کرنے کے بعد سول سوسائٹی  کارکنوں، اظہار رائے کی آزادی کے لیے آواز بلند کرنے والے لوگوں  اور سیاسی جماعتوں نے اس فیصلے پر احتجاج کیا اور یونین ٹیریٹری انتظامیہ سے اس پابندی کو ہٹانے کی اپیل کی۔

علامتی تصویر۔(تصویر بہ شکریہ: بل کیر/فلکر، CC BY-SA 2.0)

سری نگر: جموں و کشمیر انتظامیہ کی جانب سے 25 کتابوں پر پابندی عائد کیے جانے کے ایک دن بعد سول سوسائٹی  کارکنوں، اظہار رائے کی آزادی کے لیے آواز بلند کرنے والوں اور سیاسی جماعتوں کے علاوہ دیگر نے اس فیصلے پر احتجاج کیا اور یونین ٹیریٹری انتظامیہ سے پابندی ہٹانے کی اپیل کی۔

کتابوں پر پابندی عائد کرنےکے اقدام کو ‘اختلافات کو دبانے’، ‘آمریت’ اور ‘جمہوری آوازوں کا گلہ گھوٹنے’ سے تعبیر کرتے ہوئے مظاہرین نے بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ وہ ریاست کی حیثیت کو بحال کرکے ‘جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکے۔’

تاہم، جموں و کشمیر پولیس نے جمعرات (7 اگست) کو دارالحکومت سری نگر سمیت وادی کے کئی حصوں میں کتابوں کی دکانوں پر چھاپے مار کر پابندی عائد کی، یہ چھاپے ماری اس لیے تھی کہ کسی بھی ممنوعہ لٹریچر کی شناخت کرتے ہوئے اس کو ضبط کیا جا سکے ۔

انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ ممنوعہ لٹریچر ‘جھوٹے بیانیے کا پروپیگنڈہ کرتا ہے، علیحدگی پسند نظریات کو فروغ دیتا ہے اور ہندوستان کی خودمختاری اور سالمیت کے لیے خطرہ  پیدا کرتاہے۔’

اس سلسلے میں سری نگر ضلع پولیس کے ایک ترجمان نے کہا،’یہ اقدامات تخریبی اور ملک دشمن مواد سے نمٹنے کی ایک جامع کوشش کے  طور پر اٹھائے گئے ہیں، جو امن کو بگاڑ سکتے ہیں یا ملکی سالمیت کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ تلاشی مہم پرامن طریقے سے چلائی گئی اور قانونی ضابطے کی پیروی کی گئی۔’

معلوم ہو کہ کتابوں کے حوالے سے پابندی کا یہ حکم نامہ منگل کو جموں و کشمیر کے محکمہ داخلہ نے جاری کیا تھا، جو براہ راست لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کو رپورٹ کرتا ہے۔

کتابوں پر پابندی ہماری ثقافت اور جمہوریت کے تصور کے خلاف ہے

اس حوالے سے ڈیوڈ دیوداس، جن کی کتاب ‘ان سرچ آف اے فیوچر – دی سٹوری آف کشمیر’ ان ممنوعہ کتابوں کی فہرست میں شامل ہے، نے کہا کہ کتابوں پر پابندی لگانا ‘ہماری ثقافت اور جمہوریت کے تصور کے خلاف’ ہے۔

انہوں نے دی وائر کو بتایا،’تاریخ نے بار بار دکھایا ہے کہ کتابوں کو جلانا اور اس پر پابندی عائد کرنا تہذیبوں کی ترقی میں رکاوٹ پیدا کرتاہے۔’

دیوداس نے کہا کہ ان کی کتاب سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے امن اقدام اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کی بھرپور حمایت کرتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ تنازعات جاری رکھنے میں اپنے مفادات رکھنے والوں کو اس کتاب سے نفرت ہے۔ تہذیبوں کے تصادم کے ایجنڈے کی حمایت کرنے والوں کے لیے یہ لعنت ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ جن کتابوں نے حقیقت کو سامنے لانے کا کام کیا، تنازعات کے سازشی عناصر اور بیرونی طاقتوں کی حکمت عملی کو بے نقاب کیا اور امن کے لیے کردار ادا کیا، ان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

انتظامیہ کے اس اقدام کی مخالفت کرتے ہوئے فکرمند شہریوں کے ایک غیر رسمی گروپ، فورم فار ہیومن رائٹس نے کہا کہ یہ فیصلہ’سینسر شپ کے ذریعے اختلاف رائے کو دبانے کی ایک اور مثال ہے’ جو کہ ‘پورے ہندوستان میں نظر آ رہا ہے اور جموں و کشمیر میں تو سب سے زیادہ  اس وقت اس کا مشاہدہ کیا گیا، جب 2019 میں  ریاست کو تقسیم کرکے یونین ٹیریٹری میں بدل دیا گیا۔

قابل ذکر ہے کہ کتابوں پر پابندی سے متعلق نوٹیفکیشن آرٹیکل 370 کو ہٹائے جانے کی چھٹی سالگرہ پر جاری کیا گیا، جسے فورم جموں و کشمیر میں لوگوں کے حقوق کو مسلسل دبانے کے طور پر دیکھا جا رہاہے۔ تنظیم نے اس کے خلاف وارننگ بھی جاری کی ہے۔

ایک بیان میں فورم نے کہا، ‘یہ نوٹیفکیشن،  جس کے بعد جموں و کشمیر میں کتابوں کی دکانوں پر چھاپوں مارے جا چکے ہیں، اس بات کا اشارہ ہے کہ لوگوں پر جبر میں اضافے کا ہمارا خدشہ جائز ہے۔ ہمیں یہ بھی خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں ضبط شدہ کتابوں کو اپنے پاس رکھنا بھی جرم تصور کیا جائے گا۔ پولیس کے چھاپے اور قابل اعتراض لٹریچر رکھنے کے دعووں کا  پہلے سے  ہی سخت یو اے پی اے (غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ) اور پی ایس اے (پبلک سیفٹی ایکٹ)  کے تحت الزام لگانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔یہ نوٹیفکیشن اس بدعنوانی کو ادارہ جاتی  بناتا ہے اور اسے واپس لیا جانا چاہیے۔’

یہ پابندیاں اظہار رائے کی آزادی پر ایک اور سفاک حملہ ہے

وہیں، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) نے اس پابندی کو اظہار رائے کی آزادی پر ایک اور سفاک  حملہ قرار دیا ہے۔

ایک بیان میں  پارٹی پولٹ بیورو نے لیفٹیننٹ گورنر سنہا پر الزام لگایا کہ وہ ‘بی جے پی کی زیرقیادت مرکزی حکومت کے نمائندے کے طور پر کام کر رہے ہیں’ اور’جارحانہ طور پر ہندوستانی آئین کے ذریعہ فراہم کردہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ‘کررہے ہیں۔

پارٹی نے ایک بیان میں کہا، ‘علیحدگی پسندی اور دہشت گردی کو فروغ دینے کے بہانے، ان کی انتظامیہ نے کشمیر کی تاریخ اور اس کے موجودہ مسائل کی جڑوں پر روشنی ڈالنے والی 25 کتابوں پر پابندی لگا دی ہے۔سی پی آئی (ایم) ان کتابوں پر سے فوراً پابندی ہٹانے کا مطالبہ کرتی ہے۔’

پارٹی نے جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ بحال کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ منتخب حکومت کو مکمل انتظامی اختیارات دیے جائیں۔ ایسے اقدامات سے ہی جموں و کشمیر کے لوگوں کا اعتماد بحال ہو سکتا ہے۔

اس معاملے پر شہری حقوق کی کارکن اور فری اسپیچ کلیکٹو کی شریک بانی گیتا شیشو نے کہا کہ جموں و کشمیر انتظامیہ کی جانب سے جن کتابوں پر پابندی عائد کی گئی ہے وہ سرکردہ ماہرین تعلیم، محقق اور صحافی کی کتابیں ہیں جو مبینہ طور پر کشمیر کے تنازعے کا ایک بامعنی تاریخی تجزیہ فراہم کرتی ہیں۔

شیشو نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا،’یہ مضحکہ خیزی ختم ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ پولیس اسٹیشنری کی دکانوں اور اسکول کالجوں کی کتابوں کی دکانوں پر ماہرین تعلیم، محققین اور صحافیوں کی کتابوں کی تلاشی لے رہی ہے؟ جلد ہی تعلیم خود ایک ‘شدت پسند’ سرگرمی بن جائے گی۔ پروپیگنڈے کا بول بالا  ہوگا۔’

پابندی نے جموں و کشمیر میں جمہوریت کی حالت اور اظہار رائے کی آزادی کے بارے میں تشویش کو جنم دیا ہے

دوسری جانب حکمراں نیشنل کانفرنس (این سی) نے بھی اس فیصلے کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ اس پابندی سے جموں و کشمیر میں جمہوریت اور اظہار رائے کی آزادی کے بارے میں تشویش پیدا  کر دی ہے۔

این سی کے ترجمان عمران نبی ڈار نے کہا، ‘اگر اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کتابوں میں تشدد کو ہوا دی گئی ہے یا دہشت گردی کی بڑائی بیان کی گئی ہے، تو حکومت کی جانب سے ان پر پابندی لگانا جائز ہے۔ لیکن اے جی نورانی جیسے قابل احترام مصنفین کی گہری تحقیق شدہ اور تنقیدی تخلیقات پر پابندی لگانا سنگین خدشات کو جنم دیتا ہے۔’

معلوم ہو کہ ممنوعہ کتابوں کی فہرست میں ہندوستانی آئینی ماہر اور دانشور اے جی نورانی کی مشہور کتاب ‘دی کشمیر ڈسپیوٹ’، برطانوی مصنفہ اور تاریخ دان وکٹوریہ شوفیلڈ کی ‘کشمیر ان کانفلیکٹ- انڈیا، پاکستان اینڈ دی انڈینڈنگ وار’، بکر پرائز یافتہ اروندھتی رائے کی ‘آزادی’  اور لندن کے سکول آف اکنامکس کے پروفیسر سمنتر بوس کی ‘کنٹسٹیڈ لینڈز’ شامل ہیں۔

مؤرخ وکٹوریہ شوفیلڈ نے ٹیلی گراف کو بتایا کہ محکمہ داخلہ کی طرف سے ان کی کتاب اور دیگر کتابوں پر ‘جھوٹے بیانیے کو فروغ دینے’ اور ‘دہشت گردی کی  بڑائی بیان کرنے’ کے الزامات ‘مکمل طور پر جھوٹے’ ہیں اور یہ پابندی ہندوستان میں جمہوریت کے لیے ‘سیاہ دن’ ہے ۔

انھوں نے لندن کے ایک اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا،’میرا ماننا ہے کہ ہندوستان کے لبرل ازم کی ایک خوبی یہ تھی کہ یہ کتاب اتنے سالوں تک لوگوں کے درمیان رہی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس تازہ ترین پیش رفت سے کتاب نہیں بلکہ اظہار رائے کی آزادی پر اثر پڑ رہا ہے، جو بتدریج ختم ہو رہی ہے۔

دی وائر سے بات کرتے ہوئے حزب اختلاف کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک رہنما واحد پارہ نے کہا کہ کتاب پر پابندی کو ‘تاریخ اور فکری تنوع کو مٹانے کے لیے نہ صرف آمرانہ کنٹرول کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا ہے، بلکہ یہ آنے والے وقت میں اور شدید جبر کی طرف بھی اشارہ ہے۔’

پارہ نے مزید کہا کہ یہ رجحان جرمنی کے معاملے میں واضح تھا۔ کشمیر میں جس طرح جمہوری آوازوں اور خیال، اظہار اور شخصی آزادی کی  سب سے بنیادی آزادی کو دبایا جا رہا ہے، اس سے ناراضگی اور بیگانگی مزید گہری ہو گی۔ آئیڈیاز کا مقابلہ آئیڈیاز سے ہونا چاہیے، سنسر شپ سے نہیں۔ خیالات کو کبھی دبایا نہیں جا سکتا؛ آپ انہیں سنسر شپ کے ذریعے مزید متعلقہ بنا سکتے ہیں۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔

Next Article

ووٹ چوری: راہل گاندھی نے پھر الیکشن کمیشن کو  نشانہ بنایا – دھمکی نہیں، ڈیجیٹل ووٹر لسٹ دیں

کانگریس کے رکن پارلیامنٹ اور لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف راہل گاندھی نے انتخابات کے دوران ووٹر لسٹ میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے اپنے الزامات کا اعادہ کرتے ہوئے ایک ریلی میں کہا کہ الیکشن کمیشن کو اپوزیشن لیڈروں کو دھمکی دینے کے بجائے مشین ریڈ ایبل فارمیٹ  ووٹر لسٹ دستیاب کرانی چاہیے اور سی سی ٹی وی فوٹیج کوضائع نہیں کرنا چاہیے۔

کانگریس لیڈر اور لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: کانگریس لیڈر اور لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف راہل گاندھی کے کرناٹک کے مہادیو پورہ اسمبلی حلقہ میں ایک لاکھ سے زیادہ ووٹوں کی ‘چوری’ اور الیکشن کمیشن اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے درمیان ملی بھگت کا الزام لگانے کےایک دن بعد کانگریس لیڈر نے اپنے الزامات کو اور پختہ کرتے ہوئے الیکشن کمیشن  پر ان کے دعوے کی حمایت میں حلف نامہ کا مطالبہ کرنے کو لے کر حملہ بولا۔

راہل گاندھی نے کہا کہ اپوزیشن لیڈروں کو دھمکی دینے کے بجائے کمیشن کو مشین ریڈ ایبل فارمیٹ  ووٹر لسٹ فراہم کرنی چاہیے اور سی سی ٹی وی فوٹیج کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔

دوسری جانب راہل گاندھی کے الزامات کے جواب میں الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ راہل گاندھی یا تو اپنے دعوے حلف نامہ میں پیش کریں یا پھر ملک سے معافی مانگیں۔

اس سلسلے میں جمعہ (8 اگست) کو بنگلورو میں ‘ووٹ ادھیکار ریلی’ سے خطاب کرتے ہوئے راہل گاندھی نے کہا، ‘ہمیں دھمکی دینے کے بجائے الیکشن کمیشن کو پانچ سوالوں کا جواب دینا چاہیے۔ آپ ووٹر لسٹ کو ڈیجیٹل مشین ریڈ ایبل فارمیٹ میں کیوں نہیں دے رہے ہیں؟ ویڈیو ثبوت کیوں مٹا رہے ہیں؟ الیکشن کمیشن ووٹر لسٹ میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کیوں کر رہا ہے؟ الیکشن کمیشن اپوزیشن کو دھمکیاں کیوں دے رہا ہے؟ الیکشن کمیشن کیوں بی جے پی کے ایجنٹ جیسا سلوک کر رہا ہے؟

راہل گاندھی نے کانگریس صدر ملیکارجن کھڑگے اور کانگریس کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ بنگلورو میں ایک ریلی سے خطاب  کیا۔ اس سے ایک دن پہلے ہی انہوں نے کہا تھاکہ کانگریس 2024 کے انتخابات میں بنگلورو سنٹرل لوک سبھا سیٹ ہار گئی کیونکہ 1,00,000 سے زیادہ ووٹ ‘چوری’ کیے گئے۔

جمعرات (7 اگست) کو راہل گاندھی نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ کانگریس نے بنگلورو سنٹرل لوک سبھا حلقہ میں آٹھ میں سے سات سیٹوں پر کامیابی حاصل کی، لیکن مہادیو پورہ اسمبلی حلقہ سے 1,14,000 سے زیادہ ووٹوں سے ہار گئی۔

کئی طریقوں سے ووٹوں کی چوری ہوئی: راہل گاندھی

انہوں نے کہا کہ پانچ طریقوں سے 1,00,250 ووٹ ‘چوری’ کیے گئے۔ ان میں 11,965 ڈپلیکیٹ ووٹرز، 40,009 جعلی اور فرضی ایڈریس والے ووٹرز، 10,452 بلک ووٹرز یا سنگل ایڈریس والے ووٹرز، 4,132 غیر قانونی تصویر والے ووٹرز اور 33,692 ووٹرز جنہوں نے نئے ووٹرز کے اندراج کے لیے فارم 6 کا غلط استعمال کیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا، ‘ہر افسر اور الیکشن کمشنر کو واضح طور پر سمجھنا چاہیے کہ یہاں (کرناٹک میں) ایک لوک سبھا حلقہ کی چوری ہوئی ہے۔ یہ کرناٹک کے لوگوں کے خلاف مجرمانہ فعل ہے اور کرناٹک حکومت کو اس جرم کی تحقیقات کر کے کارروائی کرنی چاہیے۔’

انہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں یہ بھی کہا کہ ‘اگر ہمیں الکٹرانک ڈیٹا مل جاتا ہےتو ہم ثابت کر دیں گے کہ وزیراعظم چوری کے ووٹوں سے منتخب ہوئے ہیں۔’

کانگریس لیڈر کے مطابق، ‘نریندر مودی 25 سیٹوں کے فرق سے وزیر اعظم بنے ہیں ۔ ہم نے ثابت کر دیا کہ ایک سیٹ چوری  کی گئی تھی۔ انہوں نے 35,000 یا اس سے کم ووٹوں کے فرق سے 25 نشستیں جیتی ہیں۔ میں گارنٹی کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ اگر الیکشن کمیشن ہمیں الکٹرانک ریکارڈ اور ویڈیو گرافی کا ریکارڈ فراہم کرے تو ہم یہ ثابت کر دیں گے کہ کرناٹک میں نہ صرف ایک سیٹ چوری ہوئی بلکہ پورے ہندوستان میں اور بھی سیٹیں چوری  کی گئیں۔’

جمعرات کو راہل گاندھی کے الزامات کے جواب میں الیکشن کمیشن نےان کے دعوؤں کو ثابت کرنے کے لیے ووٹروں کے رجسٹریشن رولز، 1960 کے قاعدہ 20(3) (بی)کے تحت اعلامیہ/حلف نامہ پر دستخط کرکے اپنی شکایت کمیشن کو دینے کو کہا تھا۔

اس کے جواب میں راہل گاندھی نے کہا، ‘الیکشن کمیشن مجھ سے حلف نامہ داخل کرنے اور حلف کے تحت معلومات دینے کو کہہ رہا ہے۔ میں نے پارلیامنٹ کے اندر آئین پر حلف اٹھایا ہے۔ آج جب لوگ ہمارے ذریعے جاری کردہ اعداد و شمار کی بنیاد پر الیکشن کمیشن سے سوال کر رہے ہیں،  تو الیکشن کمیشن نے مدھیہ پردیش، راجستھان اور بہار میں اپنی ویب سائٹ بند کر دی ہے۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر لوگ اعداد و شمار کی بنیاد پر سوالات اٹھانا شروع کر دیں گے  تو ان کا پورا ڈھانچہ ہی گر جائے گا۔’

‘حلف نامہ دیں یا ملک سے معافی مانگیں’

معلوم ہو کہ جمعرات کو الیکشن کمیشن نے راہل گاندھی سے کہا تھا کہ وہ اپنے دعوے حلف نامہ پر پیش کریں، وہیں جمعہ کو کمیشن نے انہیں ایسا کرنے یا ملک سے معافی مانگنے کو کہا۔

جمعہ کو ایک ‘فیکٹ چیک’ ٹوئٹ میں کمیشن نے کہا، ‘ مشین ریڈ ایبل فارمیٹ

 ووٹر لسٹ فراہم کرنے کی کانگریس کی درخواست کو معزز سپریم کورٹ نے کمل ناتھ بمقابلہ الیکشن کمیشن آف انڈیا، 2019 میں مسترد کر دیا تھا۔’

کمیشن نے مزید کہا کہ کوئی بھی متاثرہ امیدوار 45 دنوں کے اندر متعلقہ ہائی کورٹ میں اپنے انتخاب کو چیلنج کرنے والی الیکشن پٹیشن (ای پی) دائر کر سکتا ہے۔

کمیشن کے مطابق،’اگر کوئی ای پی فائل کی جاتی ہے، تو سی سی ٹی وی فوٹیج محفوظ رکھی جاتی ہے، بصورت دیگر اس کا کوئی مقصد نہیں ہوتا – جب تک کہ کوئی ووٹر کی رازداری کی خلاف ورزی کرنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو۔ مثال کے طور پر، ایک لاکھ پولنگ اسٹیشنوں کی سی سی ٹی وی فوٹیج کا جائزہ لینے میں ایک لاکھ دن لگیں گے – یعنی 273 سال – اور اس سے کوئی قانونی نتیجہ نکلنے کا امکان نہیں ہے۔’

کمیشن نے مزید کہا کہ کانگریس نے 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے بعد شاید ہی کوئی اپیل دائر کی  ہے۔

الیکشن کمیشن کے مطابق، ‘شری راہل گاندھی کی طرف سے اس طرح کے بہت سے الزامات لگائے جا رہے ہیں اور میڈیا میں  رپورٹ کیے جا رہے ہیں، جبکہ انہوں نے کبھی کوئی تحریری شکایت درج نہیں کرائی ہے۔ ماضی میں بھی انہوں نے ذاتی طور پر کبھی اپنے دستخط سے خط نہیں بھیجا ہے۔ مثال کے طور پر، انہوں نے دسمبر 2024 میں مہاراشٹر کا مسئلہ اٹھایا۔ اس کے بعد آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے ایک وکیل نے الیکشن کمیشن کو خط لکھا۔ ہمارا جواب مورخہ 24 دسمبر 2024 الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر عوامی طور پر دستیاب ہے۔ پھر بھی، راہل گاندھی کا دعویٰ ہے کہ الیکشن کمیشن نے کبھی جواب نہیں دیا۔’

اس دوران الیکشن کمیشن نے یہ بھی کہا کہ یا تو راہل گاندھی اپنے  اٹھائے گئے مسائل پر حلف  پر دستخط کریں یا پھر ملک سے معافی مانگیں۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔