دہلی:سنگھو بارڈر سے گرفتار صحافی مندیپ پنیا کو ضمانت ملی

آزادصحافی مندیپ پنیا کوسنگھو بارڈر سے سنیچر کو حراست میں لینے کے بعد اتوارکو 14 دن کی عدالتی حراست میں بھیجا گیا تھا۔ عدالت نے انہیں ضمانت دیتے ہوئے کہا کہ شکایت گزار، متاثرہ، گواہ سب پولیس اہلکارہیں۔ اس بات کا امکان نہیں ہےکہ ملزم کسی پولیس افسر کو متاثر کر سکتا ہے۔

آزادصحافی مندیپ پنیا کوسنگھو بارڈر سے سنیچر کو حراست میں لینے کے بعد اتوارکو 14 دن کی عدالتی حراست میں بھیجا گیا تھا۔ عدالت نے انہیں ضمانت دیتے ہوئے کہا کہ شکایت گزار، متاثرہ، گواہ سب پولیس اہلکارہیں۔ اس بات کا امکان نہیں ہےکہ ملزم کسی پولیس افسر کو متاثر کر سکتا ہے۔

اتوار کو عدالت لے جانے کے دوران مندیپ پنیا۔ (فوٹو: Twitter/@TimesTrolley)

اتوار کو عدالت لے جانے کے دوران مندیپ پنیا۔ (فوٹو: Twitter/@TimesTrolley)

نئی دہلی: دہلی کی ایک عدالت نے سنگھو بارڈر پر کسانوں کے احتجاج کی جگہ سے دہلی پولیس کے ذریعے گرفتار کیے گئے آزاد صحافی مندیپ پنیا کی ضمانت عرضی منگل کو قبول کر لی۔چیف میٹروپولیٹن مجسٹریٹ ستبیر سنگھ لامبا نے کہا کہ شکایت گزار، متاثرہ اور گواہ سب پولیس اہلکار ہیں۔

جج نے کہا، ‘اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ ملزم/عرضی گزار کسی پولیس افسر کومتاثر کر سکتا ہے۔’سنگھو بارڈر پر کسانوں کے مظاہرہ کی جگہ پر تعینات پولیس اہلکاروں کے ساتھ بدسلوکی  کرنے کے الزام میں پنیا کو سنیچر کو گرفتار کیا گیا تھا۔

پنیا کے خلاف آئی پی سی کی دفعات186(سرکاری ملازم کے کام میں جان بوجھ کر رکاوٹ پیدا کرنا)، 353(ڈیوٹی کر رہے سرکاری ملازم کو پیٹنایا اس کے خلاف طاقت کا استعمال)اور 332(ڈیوٹی کر رہے سرکاری ملازم کو جان بوجھ کر چوٹ پہنچانا)کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔

عدالت نے پنیا کو اس کی پیشگی اجازت کے بنا ملک سے باہر نہیں جانے کی ہدات دی۔ اس نے کہا، ‘ملزم ضمانت پر رہائی کے دوران اس طرح  کا کوئی جرم یا کوئی اور جرم  نہیں کرےگا۔ ملزم کسی بھی طرح کےشواہد سے چھیڑ چھاڑ نہیں کرےگا۔’

عدالت نے ہدایت  دی کہ جب جانچ ایجنسی کو ضرورت  ہوگی، تب ملزم پیش ہوگا۔دہلی پولس نے پنیا کی ضمانت کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ مظاہرین  کو اکسا سکتا ہے اور مختلف کمیونٹی کے گروپ کے ساتھ احتجاج کی جگہ  پرہنگامہ کھڑاکر سکتا ہے اور جانچ میں رکاوٹ پیدا کر سکتا ہے۔

ان کے خلاف ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ وہ ایک کانسٹبل کے ساتھ جسمانی رابطہ میں آیا تھا اور پولیس کے ذریعے بنائے گئے بیریکیڈکو پار کرنے کی کوشش کی تھی۔ایک سینئر پولیس افسر نے انڈین ایکسپریس کو بتایا تھا کہ اس نے بدسلوکی  کی اور کہا کہ کچھ چھیڑ چھاڑ بھی ہوئی تھی۔

حالانکہ، کارواں میگزین کے مدیران  نے کہا تھا کہ انہیں(پنیا)تب گرفتار کیا گیا تھا جب وہ 30 جنوری کو سنگھو بارڈر پر خود کو مقامی  بتانے والے لوگوں کی بھیڑ کو لےکر ایک رپورٹ پر کام کر رہے تھے۔عدالت نے کہا، ‘یہاں یہ ذکر کرنا موزوں ہے کہ موجودہ  معاملے کی مبینہ ہاتھاپائی کا واقعہ شام لگ بھگ 6.30 بجے کا ہے۔ حالانکہ، موجودہ ایف آئی آر اگلے دن لگ بھگ 1.21 بجے درج کی گئی تھی۔’

پنیا نے اپنی عرضی  میں ایف آئی آر درج کرنے میں ہوئی اس سات گھنٹے کی تاخیر کا بھی ذکر کیا تھا۔پنیا کو ضمانت دیتے ہوئے عدالت نے کہا، ‘ضمانت پر رہا ہونے کی صورت میں ملزم اس طرح کے جرم یا کسی دیگر جرم  میں ملوث  نہیں ہوگا۔ ملزم کسی بھی طریقے سے شواہد کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کرےگا۔’

پنیا کو 25000 روپے کی ضمانت رقم  اور اتنی ہی رقم  کی ضمانت پیش کرنی ہوگی۔بتا دیں کہ بار اینڈ بنچ نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ پنیا نے اپنی ضمانت عرضی  میں اس بات کو اجاگر کیا تھا کہ ان کے پاس اپنا پریس کارڈ نہ ہونا، انہیں حراست میں لینے کے لیے خاطر خواہ ثبوت نہیں تھی۔

صحافیوں نے ان کی گرفتاری کی سخت مذمت  کی تھی اور نئی دہلی میں پولیس ہیڈکوارٹر کے باہر مظاہرہ  بھی کیا تھا۔

(اس خبر کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)