معاملہ جالنا ضلع کا ہے۔اہل خانہ کا دعویٰ ہے کہ طویل عرصے سے چلے آ رہے زمینی تنازعےکی وجہ سے4ستمبرکو دو بھائیوں،22سالہ راہل بوراڈےاور25سالہ پردیپ بوراڈےکاایس ٹی کمیونٹی کے پچاس سے زیادہ لوگوں کی بھیڑ کے ذریعےقتل کر دیا گیا۔
مہاراشٹر کے جالنا ضلع کے پنشیندرگاؤں میں ایک بھیڑکے ذریعے دو بھائیوں کےقتل کے 12 دنوں بعداہل خانہ اورسماجی کارکنوں نے سی بی آئی سے معاملے کی جانچ کروانے کامطالبہ کیا۔گھروالوں کا دعویٰ ہے کہ 4 ستمبر کو طویل عرصےسے چلے آ رہے زمینی تنازعہ کی وجہ سے دونوں نوجوان22سالہ راہل بوراڈےاور25سالہ پردیپ بوراڈے کاایس ٹی کمیونٹی کے 50 سے زیادہ لوگوں کی بھیڑ نےقتل کر دیاتھا۔
ان کے30سالہ بھائی رامیشور اور ماں نرمدا بھی بھیڑکےتشدد میں شدیدطور پرزخمی ہو گئے۔ دونوں کا فی الحال جالناضلع اسپتال میں علاج چل رہا ہے۔نوجوانوں کے گھروالوں نےالزام لگایا ہے کہ حملہ منصوبہ بند تھا جبکہ معاملے کی جانچ کرنے والی جالنا پولیس نے ابھی بھی سازش کے لیےآئی پی سی کی دفعہ120(بی)نہیں لگائی ہے۔
پولیس نے آئی پی سی کی دفعات کے تحت ملزمین کے خلاف قتل اور قتل کی کوششوں کے لیے معاملہ درج کیا ہے۔پولیس نے اس معاملے میں ابھی تک 25 لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔ معاملے کی جانچ کرنے والے سب ڈویژنل پولیس افسر سدھیر کھرادکر نے کہا کہ وہ مہلوکین کے اہل خانہ کی شکایت پر پانچ اورلوگوں کی تلاش میں ہیں۔
کھرادکر نے دی وائر کو بتایا،‘واقعہ کےفوراًبعدملزمین کو حراست میں لے لیا گیا۔ ہم اس کی وجہ پتہ لگانے کی کوشش میں ہیں اوراسی کےمطابق یہ طے کریں گے کہ کیا اورالزام بڑھائے جانے کی ضرورت ہے۔’گزشتہ4 ستمبر کوصبح تقریباً6 بجے جب دونوں نوجوان ٹوائلٹ کے لیے باہر گئے تھے،تبھی بھیڑ نے ان پر حملہ کر دیا تھا۔ گھروالوں کادعویٰ ہے کہ یہ حملہ بھیل کمیونٹی کے کچھ ممبروں سےتنازعہ کی وجہ سے ہوا ہے۔
ان کے چچا تکارام کہا لے نے کہا،‘17 اگست کو راہل اورملزمین کے بیچ ایک جھگڑا ہوا۔ بھیل کمیونٹی بیل پولا تہوار(وسطی ہندوستان میں منایا جانے والا ایک روایتی زرعی تہوار)منا رہا تھا اور کسی بحث کے بعد کچھ لوگوں نے راہل کی بری طرح پٹائی کر دی تھی۔ اسے تب کئی ٹانکے آئے تھے۔’
کہا لے نے بتایا کہ پہلی شکایت پر پولیس نے فوراً کارروائی نہیں کی تھی، جس کی وجہ سے ان پر 4 ستمبر کو حملہ ہوا تھا۔کہا لے نے کہا، ‘پولیس نے ایک کاؤنٹر کیس درج کیا تھا اورصرف ملزمین کو وارننگ دی تھی۔ انہوں نے تقریباً دو ہفتے تک سازش کی، ایک موقع کا انتظار کیا اور آخرکار حملہ کر دیا۔
کہا لے نے کہا کہ تشدد کی ایک طویل تاریخ ہے اور جب تک پولیس ان سب پر غور نہیں کرتی تب تک اس معاملے کی ٹھیک سےجانچ نہیں ہو پائےگی۔ اس لیے ہمارا ماننا ہے کہ صرف سی بی آئی معاملے کی غیرجانبدارانہ جانچ کر پائےگی۔پنشیندرگاؤں میں تقریباً350 گھر ہیں۔ ان میں سے 20 فیصدی گھر بھیل قبیلہ کے ہیں جبکہ 8 فیصدی بودھ (بوراڈے بھی بودھ ہیں)اور کچھ مراٹھا اورخانہ بدوش کمیونٹی کے ہیں۔
گاؤں کی شرح خواندگی70 فیصدی ہے اور زیادہ تردلت فیملی حاشیے پر گزارہ کرنے والے کسان ہیں۔بوراڈے فیملی نے کئی برس پہلے گیران(چراگاہ )پر اپنا حق جماتے ہوئے اسے جوتنا شروع کر دیا تھا۔ اس کے بعد دیگر دلت فیملی نے بھی دھیرے دھیرے زمین جوتنا شروع کر دیا۔ بوراڈے کے رشتہ داروں نے کہا کہ اس کی وجہ سے مقامی تنازعہ شروع ہوا۔
ایک رشتہ دار نے دی وائر کو بتایا کہ بوراڈے چراگاہ کی قریب پانچ ایکڑ زمین جوت رہے تھے، جو اس جگہ کے بالکل بغل میں ہے جہاں سے ‘سمردھی مہامارگ’ نکلنا ہے۔ایک رشتہ دارکا الزام ہے،‘زمین مافیا نےملزمین کے ذریعے ان سے زمین چھوڑ دینے کی بات کہی تھی۔ پچھلے تین سالوں سے ملزم ان کے لیے پریشانیاں کھڑی کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ہم اس معاملےکی جڑ تک تب تک نہیں پہنچیں گے، جب تک پولیس سنجیدگی سے اس کی جانچ نہیں کرتی۔’
آلوک سرودیکر جالنا کے ایک کاسٹ مخالف کارکن ہیں، ان کا بھی الزام ہے کہ معاملے میں پولیس ٹھیک سے کام نہیں کر رہی ہے۔
وہ کہتے ہیں،‘ایسے کئی الزام ہیں، جن میں سے زیادہ تر اس واقعہ کے کئی دنوں پہلے سے ہو رہی سازش کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ حالانکہ پولیس نے ان میں سے کسی بھی الزام کو سنجیدگی سے نہیں لیا ہے۔ سازش کی سب سے بنیادی اوراہم بات کاہی پولیس ایف آئی آر میں ذکر نہیں ہے۔ اور کسی بھی مقدمے میں ملزم کا مقصد بےحداہم پہلو ہوتا ہے۔’
ان الزامات کے بارے میں پوچھے جانے پر پولیس افسر کھرادکر نے کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔گن رتن سونونے جوایک سماجی کارکن ہیں، ریاستی حکومت سے متاثرہ فیملی کو معاوضہ دینے کی مانگ کر رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں،‘حالانکہ متاثرین ایس سی کمیونٹی سے آتے ہیں، لیکن انہیں ایس سی ایس ٹی ایکٹ کے تحت معاوضہ نہیں مل سکتا کیونکہ ملزم بھی ایس ٹی کمیونٹی سے ہیں۔ یہ واضح طور پر ماب لنچنگ کا معاملہ ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے اس طرح کے ماب لنچنگ کے معاملے میں معاوضے کے لیےواضح گائیڈلائن دیے گئے ہیں۔
سونونے نے بتایا کہ ریاستی حکومت نے اب تک متاثرین سے رابطہ نہیں کیا ہے۔
بتا دیں کہ سال 2018 میں سپریم کورٹ نے ریاستی حکومتوں کو ہدایت دی تھی کہ وہ اس فیصلے کی تاریخ سے ایک مہینے کےاندر سی آر پی سی کی دفعہ357اے میں مذکور ضابطے کےمطابق لنچنگ/ماب لنچنگ متاثرہ کومعاوضہ دینے کا منصوبہ تیار کریں۔ اس طرح کے معاملےمیں تیس دنوں کے اندرمتاثرین یا مہلوکین کےاہل خانہ کو معاوضہ دیا جانا چاہیے۔
حالانکہ مہاراشٹر سرکار کی جانب سے ابھی تک ایسا کوئی اہتمام نہیں کیاگیا ہے۔
(اس خبر کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)