مہاراشٹر حکومت نے انٹر کاسٹ اور بین مذہبی شادی کرنے والے جوڑوں اور اس طرح کی شادیوں کے بعد اپنے خاندانوں سے الگ ہو نے والی خواتین اور ان کے خاندان کے بارے میں جانکاری اکٹھی کرنے کے لیےکمیٹی تشکیل دی ہے۔ اس کی مخالفت کرتے ہوئے این سی پی نے کہا ہےکہ حکومت کو لوگوں کی نجی زندگی کی جاسوسی کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
نئی دہلی: مہاراشٹر حکومت نے انٹرکاسٹ اور بین مذہبی شادی کرنے والے جوڑوں اور اس معاملے میں اپنے خاندانوں سے الگ ہونے والی خواتین اور ان کے خاندان کے بارے میں جانکاری جمع کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔
کمیٹی کے سربراہ اور ریاستی وزیر منگل پربھات لوڑھا نے کہا کہ اس قدم کا مقصد شردھا والکر کیس جیسے واقعات سے بچنا ہے۔
اپوزیشن نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) نے اسے ‘رجعت پسند’ قدم قرار دیا اور کہا کہ ایکناتھ شندے حکومت کو لوگوں کی نجی زندگی کی جاسوسی کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
ریاستی خواتین اور بچوں کی ترقی کے محکمے کی طرف سے منگل کو جاری کردہ حکومتی قرارداد (جی آر) میں کہا گیا ہے کہ ‘بین مذہبی/انٹرکاسٹ شادی-خاندانی رابطہ کمیٹی (ریاستی سطح)’ کی سربراہی ریاستی خواتین اور بچوں کی ترقی کے وزیر منگل پربھات لوڑھا کریں گے۔
بدھ کو نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے لوڑھا نے کہا کہ ریاستی حکومت کی طرف سے کمیٹی کی تشکیل اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش ہے کہ شردھا والکر جیسا معاملہ نہ دہرایا جائے۔
انہوں نے کہا، ‘یہ بات حیران کن ہے کہ والکر کے خاندان کو معلوم نہیں تھا کہ اس کی موت چھ ماہ قبل ہوگئی تھی… ہم شردھا والکر کی طرح ایک اور کیس نہیں چاہتے اور اسی لیے کمیٹی تشکیل دی گئی ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ایسی شادیاں کرنے والی خواتین کو اپنے گھر والوں سے دور نہ ہوں۔
والکر کو مبینہ طور پر اس کے لیو ان پارٹنر آفتاب پونا والا نے اس سال مئی میں دہلی میں قتل کر دیا تھا۔ پونا والا نے مبینہ طور پر شردھا کا گلا دبا کر قتل کیا تھااور مبینہ طور پر شردھا کی لاش کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے شہر کے مختلف حصوں میں پھینک دی تھی۔
جی آر میں کہا گیا ہے کہ کمیٹی ایسی شادیوں میں شامل خواتین، جو شاید اپنے خاندانوں سے الگ ہو چکی ہیں، کے لیے ضلعی سطح کے اقدامات کی نگرانی کرے گی تاکہ ضرورت پڑنے پر انھیں مدد فراہم کی جا سکے۔
جی آر میں کہا گیا ہے کہ کمیٹی خواتین اور ان کے خاندانوں کے لیے مشاورت اور مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک فورم ہو گی۔ اس میں کہا گیا ہے کہ کمیٹی میں سرکاری اور غیر سرکاری شعبوں کے 13 ارکان ہوں گے جو اس معاملے سے متعلق فلاحی اسکیموں اور قانون سازی سے متعلق ریاستی اور مرکزی حکومت کی پالیسیوں کا مطالعہ کریں گے۔
کمیٹی ضلعی عہدیداروں کے ساتھ باقاعدگی سے میٹنگ کرے گی اور رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ بین مذہبی اورانٹر کاسٹ شادیوں، عبادت گاہوں میں ہونے والی شادیوں اور گھر سے بھاگ کر کی جانے والی شادیوں کے بارے میں معلومات اکٹھی کرے گی۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، کمیٹی اسٹامپ ڈیوٹی اور رجسٹرار دفاتر سے بین مذہبی/ انٹرکاسٹ شادی کرنے والے جوڑوں کے بارے میں بھی معلومات بھی جمع کرے گی، ایسی نو شادی شدہ خواتین کے ساتھ ساتھ ان کےمائیکہ سے بھی رابطہ کرے گی؛پتہ کرے گی کہ کیا وہ ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں ہیں؛ ایسے معاملات میں جہاں خواتین کے والدین ان سے تعلقات منقطع کرتے ہیں، ان کے پتے حاصل کریں اور ایسے معاملات میں والدین سے رابطہ کریں اور ان والدین کو مشاورت فراہم کریں جو دوبارہ رابطہ قائم کرنے سے گریزاں ہیں۔
اسی دوران این سی پی کے سینئر لیڈر اور سابق ریاستی وزیر جتیندر اوہاد نے ایک ٹوئٹ میں کہا، ‘انٹرکاسٹ/بین مذہبی شادیوں کی تحقیقات کرنے والی یہ کمیٹی کیا بکواس ہے؟ کون کس سے شادی کرتا ہے، اس کی جاسوسی کرنے والی سرکار کون ہے ؟ یہ ایک آزاد خیال مہاراشٹر میں رجعت پسندانہ، نفرت انگیز قدم ہے۔ ترقی پسند مہاراشٹر کس جانب بڑھ رہا ہے۔ لوگوں کی ذاتی زندگی سے دور رہیں۔
This is anti constitutional and enchroching into fundamental rights and law commission has taken strong objection
— Dr.Jitendra Awhad (@Awhadspeaks) December 14, 2022
گزشتہ ماہ وزیر لوڑھا نے ریاستی خواتین کمیشن سے کہا تھا کہ وہ ان خواتین کی شناخت کے لیے ایک خصوصی دستہ تشکیل دیں جنہوں نے خاندان کی رضامندی کے بغیر شادی کی اور بعد میں ان سے علیحدگی اختیار کر لی۔ یہ فیصلہ شردھا والکر قتل کیس کے پیش نظر لیا گیاتھا۔
اس سے قبل مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس نے کہا تھا کہ ان کی حکومت ‘لو جہاد’ پر دیگر ریاستوں کے بنائے گئے قانون کا مطالعہ کرے گی، لیکن ریاست میں فی الحال اس طرح کا قانون لانے کا فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)