خصوصی رپورٹ: 2020 میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے تقریباً ہر سنگین جرم میں عدالتی فیصلے کا انتظار کیے بغیر ملزمین کو سزا دینے کے لیے ان سے متعلق تعمیرات کو غیر قانونی قرار دے کر بلڈوز کردیا گیا۔ مبینہ جرم کی سزا ملزم کے اہل خانہ کو دینے کی ان من مانی کارروائیوں کا نشانہ زیادہ تر مسلمان، دلت اور محروم طبقات کے لوگ ہی رہے۔
تصویر بہ شکریہ: Twitter/@Krashanpal4BJP
کئی نسلوں سے یہاں رہ رہے ہیں۔ تقریباً 60 سال ہو چکے ہیں۔ مکان کی رجسٹری بھی ہے، میونسپل کارپوریشن میں ادا کیے گئے ہاؤس ٹیکس کی رسیدیں بھی ہیں اور کچھ سال قبل اس مکان کی تعمیر کے لیے میونسپل کارپوریشن سے لی گئی اجازت کے کاغذات بھی ہیں … لیکن پولیس اور انتظامیہ کے لوگ اس دن کچھ بھی دیکھنے کو تیار نہیں تھے۔ بس آئے اورگھر پر بلڈوز چلا دیا …
گوالیار: یہ الفاظ ہیں مدھیہ پردیش کے گوالیار ضلع کے مادھو گنج تھانہ حلقہ کے رہنے والے سنیل راوت کے۔ ان کے 18 سالہ بیٹے سمت راوت کو پولیس نے گزشتہ جولائی میں ایک طالبعلم کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ یہ واقعہ 10 جولائی کو پیش آیا، 13 جولائی کو سمت کو پکڑا گیا اور اگلی ہی صبح مقامی پولیس اور انتظامیہ کے اہلکار سمت کے گھر کے باہر بلڈوزر لے کر کھڑے تھے۔
سنیل کی بیوی کرانتی کہتی ہیں، ‘بیٹے نے غلطی کی ہے، اسے سزا دو… لیکن پولیس اور انتظامیہ کے اہلکار آکر کہتے ہیں کہ تم نے اپنے بیٹے کو کیا سکھایا ہے!’
سنیل نے دی وائر کو اپنے گھر سے متعلق دستاویزات بھی پیش کیں۔ غور طلب ہے کہ جس مکان کو غیر قانون قرار دے کر پولیس اور انتظامیہ نے آناً فاناً میں گرا دیا، اسی مکان کو گروی رکھ کر اس کارروائی سے تقریباً چھ ماہ قبل ہی انہوں نے بینک سے 5 لاکھ روپے کالون بھی لیا تھا۔
جب مکان کو توڑے جانے کی بھنک لون جاری کرنے والے ‘لکشمی بائی مہیلا ناگرک سہکاری بینک مریادت (گوالیار)’ کو لگی تو انہوں نے مدھیہ پردیش حکومت، ضلع کلکٹر (گوالیار)، سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (گوالیار) اور میونسپل کارپوریشن (گوالیار) کے خلاف ہائی کورٹ میں ایک عرضی لگا دی، جس میں اس کارروائی کو غیر قانونی اور من مانی قرار دیتے ہوئے چاروں مدعا علیہان سے قرض کی رقم کی وصولی کا مطالبہ کیا گیا۔
بینک کی جانب سے مکانات گرانے کی کارروائی کو غیر قانونی اور من مانی قرار دیتے ہوئے انتظامیہ کے خلاف دائر کی گئی عرضی۔ (فوٹو: دیپک گوسوامی)
مکان کی ملکیت 75 سالہ کمل سنگھ کے پاس ہے۔ کمل سنگھ بیمار ہیں۔ گھر میں وہ، ان کی بیوی، ان کے بیٹے—بہو سنیل اور کرانتی سمیت کل 8 لوگ رہتے تھے۔ سنیل کا کہنا ہے کہ اس مکان کو گروی رکھ کر اب تک لیا گیا کل قرض 7.5 لاکھ روپے ہے۔
ہائی کورٹ میں دائر بینک کی رٹ پٹیشن میں لکھا ہے؛
‘مدعا علیہان نے غیر قانونی طور پر اور من مانی طور پر اس مکان کو توڑ دیا جس کو درخواست گزار بینک کے پاس رہن تھا۔ اس کے پیچھے انہوں نے وجہ بتائی کہ یہ گھر قتل کے ملزم سمت راوت کا ہے، جبکہ اس حقیقت کا پتہ نہیں لگایا کہ گھر کا مالک سمت نہیں بلکہ کمل سنگھ رجک ہے۔’
کرانتی کہتی ہیں،’ہمیں بغیر کچھ کیے سزا دی گئی اور بے گھر کر دیا گیا۔ ہم نے اپنے دن ادھر ادھر رہ کر گزارے۔ وہ تو پڑوسیوں کے گھروں سے ہمارے گھر کی دیواریں ملحق تھیں، اس لیے جب توڑ پھوڑ کا اثران کے گھروں پر بھی پڑا تو وہ احتجاج کرنے لگے اور مکان کا کچھ حصہ زمین بوس ہونے سے بچ گیا۔’
ٹوٹ پھوٹ سے بچےمکان کے اسی چھوٹے سے حصے کی مرمت کے بعدخاندان نے وہاں رہنا شروع کر دیا ہے ۔
اپنا ٹوٹا ہوا مکان دکھاتے ہوئے سنیل راوت۔ (تصویر: دیپک گوسوامی)
یہ ان کارروائیوں کی صرف ایک مثال ہے جو 2020 میں تختہ پلٹ کے بعد مدھیہ پردیش میں بنی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت میں شروع ہوئیں۔ قانون کے خلاف کی گئی ایسی کارروائیوں کو ریاستی حکومت اور وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کی حمایت حاصل رہی۔ وہ اس ‘بلڈوزر جسٹس’ کے برانڈ ایمبیسیڈر بنے اور عوامی پلیٹ فارم سے کئی بار عوامی سطح پر اس کی تعریف وتحسین کرتے نظر آئے۔
قانون کی حکمرانی کے تحت مجرم کو عدالتوں سے سزا سنائی جاتی ہے لیکن انصاف کے اس تیز رفتار طریقہ کار کے تحت پولیس، انتظامیہ کے ساتھ مل کر، ان جائیدادوں کو بلڈوز کر دیتی ہے جن سے ملزم کا تعلق ہوتا ہے۔ اس دوران یہ دیکھنے تک کی زحمت گوارہ نہیں کی جاتی کہ ملزم اصل میں اس جائیداد کا مالک ہے بھی یا نہیں۔
ان جائیدادوں کو غیر قانونی قرار دے کر گرا دیا جاتا ہے، جبکہ کئی ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جب کسی اور کے نام پر رجسٹرڈ جائز جائیدادوں کو بھی ملزمین کی غیر قانونی جائیداد قرار دے کر گرا دیا گیا ہے۔
اپریل 2022 میں کھرگون میں رام نومی کے جلوس پر پتھراؤ کے بعد 16 مکانات اور 29 دکانوں کو بلڈوز کر دیا گیا، جس میں
حسینہ خان کا گھر بھی شامل ہے جو ‘پردھان منتری آواس یوجنا’ کے تحت بنایا گیا تھا۔
اسی طرح، اپریل 2022 میں راج گڑھ میں بھی پی ایم آواس یوجنا کے تحت بنائے گئے
عزیز خان اور ریحانہ خان کے مکان کو توڑ دیاگیاتھاکیونکہ ان کا بیٹا سلمان ریپ کے ایک کیس میں مفرور تھا۔ اس کی شکایت وزیر اعلیٰ سے بھی کی گئی۔ والدہ ریحانہ کے مطابق، جو گھر گرایا گیا وہ سلمان کے نام نہیں بلکہ ان کے سسر غفور خان کے نام تھا۔ بیٹے کا قصور ہویا نہ ہو،لیکن سزا گھر میں رہنے والے 11 افراد کو بے گھر کر کے دی گئی۔
ایسی اکثر کارروائیوں میں دیکھا گیا ہے کہ تعمیرات کو غیر قانونی بتا کر گرانے سے پہلے نوٹس بھی جاری نہیں کیا جاتا۔ جن معاملات میں نوٹس جاری بھی ہوتا ہے تو محض خانہ پُری کے لیے کیونکہ سب کچھ اتنی عجلت میں کیا جاتا ہے کہ لوگوں کو اپنی بات کہنے کا موقع تو دور کی بات ہے ، گھر کا سامان تک باہر نکالنے کا وقت نہیں ملتا۔
سنیل راوت کو بھی نوٹس نہیں ملا تھا اور نہ ہی انہیں گھر سے سامان نکالنے کا موقع ملا۔
ایک اور معاملے میں للیتا سکسینہ (تبدیل شدہ نام) کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ ان کے اکلوتے 26 سالہ بیٹے کا نام قتل کے ایک مقدمے میں سامنے آیا تھا۔ للیتا کے مطابق،پڑوسیوں نے ہی انہیں بتایا کہ دروازے پر گھر کو گرانے کا نوٹس لگاہے۔ یہ صبح آٹھ بجے کا وقت تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کرتیں، ایک گھنٹے میں پولیس اور انتظامیہ کے اہلکار بلڈوزر لے کر دروازے پر کھڑے تھے۔
میڈیکل ڈپارٹمنٹ سے ریٹائرڈ للیتا کے شوہرکا انتقال ہو چکا ہے۔ انہوں نے دی وائر کو بتایا،’بیٹے کی شادی صرف 3-4 ماہ پہلے ہوئی تھی۔ گھر پر صرف میں اور بہوتھی۔ انہوں نے سامان نکالنے کا موقع بھی نہ دیا اور بلڈوزر چلا دیا۔ پھر کچھ پڑوسی آئے اور جو کچھ ہو سکا، انہوں نے نکال لیا۔ یہ گھر 5-6 سال پہلے زندگی بھرکی جمع پونجی سے بنایاتھا۔ میں نے ان سے یہ بھی کہا کہ یہ غیر قانونی نہیں ہے، اس کی رجسٹری میرے نام پر ہے، لیکن انہوں نے کہا کہ یہ تمہارے بیٹے کی غیر قانونی کمائی سے بنا ہے۔’
انہوں نے مزید بتایا کہ بعد میں ان کےٹوٹے پڑے مکان میں چوری بھی ہو گئی اور اندر رکھے سامان کے ساتھ ساتھ چور نل کی ٹونٹیاں تک چرا لے گئے۔
للیتا نم آنکھوں سے پوچھتی ہے، ‘بیٹا جس نے جرم کیا ہے اسے سزا ملنی چاہیے… ہم دفاع نہیں کر رہے، لیکن یہ کیسا انصاف ہے! جرم کیا ہے تو عدالت سزا دے گی؟ جرم ابھی ثابت تو ہوانہیں ہے نہ؟اور ہمارا کیا قصور ہے کہ آپ ہمیں بے گھر کر رہے ہو؟’
وہ سوال کرتی ہیں، ‘افسر نے اس دن کہا – تم نے اپنے بیٹے کو کیا سکھایا – کیااس کے لیے مجھے سزا دی گئی؟’
اسی طرح گوالیار کی جیوتی سُروے کا دعویٰ ہے کہ ان کے گھر کو بھی اس وقت توڑا گیا جب اس پر تالا لگا ہوا تھا اور وہ مہاراشٹر میں تھیں۔ ان کے بیٹے بالا سُروے کو بھی سمت راوت والے کیس میں ہی ملزم بنایا گیا تھا۔ ان کے گھر سے تھوڑے سے فاصلے پررہنے والی ان کی ایک رشتہ دار پولیس اور انتظامی کارروائی کا عینی شاہد تھیں۔
وہ کہتی ہیں،’ہمیں پڑوسیوں نے بتایا کہ پولیس گھر کو گرانے آئی ہے۔ ہم نے دوڑے بھاگے وہاں گئے تو دیکھا کہ ایک کافی حصہ توڑا جا چکا تھا۔ جو بھی سامان نکال سکتے تھے، نکال لیا، باقی سب کچھ اندر ہی پھنس گیا اور وہ لوگ مکان توڑتے رہے۔’
جیوتی کا گھر ایک تنگ گلی میں ہے اور دوسرے گھروں سے ملحق ہے۔ جب بلڈوزر کا پہنچنا ممکن نہ ہوا تو کارپوریشن کے کارکنوں نے بڑے ہتھوڑےلے کر گھر پر مارنا شروع کردیا۔ جب دوسرے ملحقہ مکانات کو نقصان پہنچا تو لوگوں کے احتجاج کے بعد وہ رک گئے۔ تاہم اس وقت تک چھت، سیڑھیاں اور دیواریں توڑی جاچکی تھیں۔ اس گھر میں صرف جیوتی اور بالا رہا کرتے تھے۔
جیوتی سروے کا توڑا گیا مکان۔ (تصویر: دیپک گوسوامی)
قریب 55 سالہ جیوتی کے مطابق، یہ پٹے کا مکان تھا اور یہ ان کی آنجہانی ساس وتسلا بائی سُروے کے نام پر ہے۔ ان کا خاندان یہاں نسل در نسل 60-70 سال سے رہ رہا تھا۔ بالا جیل میں ہے اور جیوتی اب اپنے رشتہ داروں کے یہاں رہ رہی ہیں۔
جیوتی کہتی ہیں، ‘واقعے کے دن میرا بیٹا مہاراشٹر میں تھا۔ جب دیگر ملزمین نے اس کا نام لیا تو پولیس نے اسے گرفتار کر لیا۔ اگر کوئی اس طرح کسی کا نام لے گا تو کیا پولیس اسے ملزم بنا کر اس کا گھر توڑ دے گی؟ جرم کیا ہے تو ثابت تو ہونے دو، تب سزا ملے گی، گھر گرانے کااختیار تھوڑی ہے۔’
مالی حالت حکومت کی من مانی کو عدالت میں چیلنج کرنے کی راہ میں حائل ہے
پچھلے تین سالوں میں مدھیہ پردیش کی بی جے پی حکومت نے ریاست بھر میں اس طرح کے بے شمار اقدامات کیے ہیں۔ اس حوالے سے وزیر اعلیٰ شیوراج کا کہنا ہے کہ ‘
ماما کا بلڈوزر چلا ہے، اب رکے گا نہیں جب تک کہ بدمعاشوں کو دفن نہیں کر دے گا۔’
ان کارروائیوں کو ایڈوکیٹ امیتابھ گپتا نے سال 2022 میں جبل پور ہائی کورٹ میں ایک پی آئی ایل کے ذریعے چیلنج کیا تھا۔ انہوں نے عرضی میں یہ مسئلہ اٹھایا تھا کہ ملزمین/مشتبہ افراد کے مکانات اور پختہ ڈھانچوں کو مناسب قانونی طریقہ کار کے بغیرتوڑے جا رہے ہیں۔
ان کی عرضی میں ذکر کیا گیا تھا؛
‘ہمارے آئینی اور قانونی ڈھانچے کے مطابق پولیس کو کسی بھی معاملے میں سزا دینے کا حق نہیں ہے۔ یہاں تک کہ کسی بھی دوسرے قانون،دیوانی یا فوجداری،کے تحت تشکیل دی گئی اتھارٹی بھی قانون کے مناسب طریقہ کار پر عمل کرنے کے بعد ہی سزا دینے کا اختیار استعمال کر سکتی ہیں، جس میں کم از کم سماعت کا موقع دینا شامل ہے۔ یہ بات پوری طرح سے فہم سے بالا تر ہے کہ کسی ملزم کے گھر/جائیداد کو محض اس لیے گرا دیا جائے کہ اسے ملزم بنای گیا ہےاس پر جرم کرنے کا شبہ ہے۔ کسی بھی ملزم کے اہل خانہ کو مناسب قانونی طریقہ کار پر عمل کیے بغیر مذکورہ طریقے سے سزا دینا ممکن نہیں ہے۔ ایسی کوئی بھی سرگرمی ہندوستانی آئین کے تحت بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔’
امیتابھ گپتا دی وائر کو بتاتے ہیں،’اس عرضی کوہائی کورٹ کی بنچ نے یہ دلیل دیتے ہوئے مسترد کر دی تھی کہ جن لوگوں کے مکانات گرائے گئے، انہیں اپنی اور اپنی جائیدادوں کی حفاظت کا قانونی حق حاصل ہے۔ اس لیے متاثرین خود عدالت سے رجوع کریں۔’
وہیں، گوالیار کے ایڈوکیٹ وشوجیت رتونیا نے بھی مدھیہ پردیش انسانی حقوق کمیشن کو ایک درخواست دی تھی، جس میں انہوں نے ان کارروائیوں کو شہری حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔ وشوجیت بتاتے ہیں کہ کمیشن کے چیئرمین جسٹس نریندر کمار جین نے سماعت کرنے سے ہی انکار کر دیا اور پوچھنے لگے کہ، ‘کیا آپ کاکوئی ذاتی نقصان ہوا ہے؟ دقت ہے توپی آئی ایل فائل کرو۔’
وشوجیت کہتے ہیں، ‘ایک ملزم کے گھر والوں اور بچوں کا کیا قصور ہے کہ ان کا گھر گرا کر انہیں بے گھر کر دیا جائے؟ جب عدالت میں مقدمے کی سماعت نہیں ہوئی تو عدالت نے کوئی حکم نہیں دیا، پھر بھی اس طرح کی کارروائیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں عدالت نامی ادارہ کالعدم ہو چکا ہے۔ انسانی حقوق کمیشن نے بھی متعصبانہ رویہ اپنایا۔’
دی وائر نے مدھیہ پردیش میں تقریباً پچاس ایسی کارروائیوں کا تجزیہ کیا اور پایا کہ سرکاری بلڈوزر کا شکار ہونے والے زیادہ تر لوگ کم آمدنی والے طبقے سے آتے ہیں یا مالی طور پر اس قابل نہیں ہیں کہ ایک طرف ملزم بنائے گئے اپنے خاندان کے ممبران کاقانونی مقدمہ لڑ سکیں اور دوسری طرف ان کی جائیداد توڑنے والی حکومت کی اس غیر قانونی کارروائی کو عدالت میں چیلنج کر سکیں۔
جیوتی سُروے کی بات کریں تو کچھ عرصہ پہلے تک وہ ایک اسکول میں 4000 روپے ماہانہ پر صفائی کا کام کرتی تھیں۔ دی وائر سے بات کرتے ہوئے ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ کہتی ہیں،’میں مہینوں سے ایک رشتہ دار کے گھر رہ رہی ہوں۔ ایک تو ٹوٹے ہوئے گھر کی مرمت کے لیے پیسے نہیں ہیں اور دوسری بات یہ کہ اگر میں اسے ٹھیک کروا دوں اور وہ اسے دوبارہ گرا دیں تو کیا ہوگا؟’
وہ مدد مانگتے ہوئے اور کوئی ایسا طریقہ بتانے کو کہتی ہیں جس سے وہ اپنے گھر کو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے رہنے کے قابل بنا سکیں۔ جب ان سے عدالت سے رجوع کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ ‘کیس لڑنے کے لیے بہت پیسہ لگتا ہے، اتنے پیسے کہاں سے لائیں؟ میرے بیٹے کے کیس کے لیے بھی پیسوں کی ضرورت ہے۔’
سنیل راوت بھی کچھ ایسا ہی کہتے ہیں،’ہم بھی عدالت جانے کے بارے میں سوچ رہے ہیں، لیکن بہت پیسہ خرچ ہو رہا ہے۔ پولیس نے سمت کے ساتھ بڑے بیٹے اپدیش کو بھی ملزم بنا دیا ہے۔ سمت چھوٹے نہ چھوٹےں لیکن ہم اپدیش کو چھڑانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس لیے پہلے بیٹے کو چھڑائیں پھر گھر کے کیس کا سوچیں گے۔’
ان کے علاوہ جن ملزمان کے گھر مسمار کیے گئے ان میں کوئی پتنگ کا
چینی مانجھا بیچتا تھا، کوئی سمیک کی پڑیاں بیچتا تھا اور کوئی مزدوری کرتا تھا۔ ایک طرف مالی حالت اور دوسری طرف ملزمان کے مجرمانہ پس منظر کی وجہ سے ان افراد کے لواحقین بلڈوزر کی کارروائی کو چیلنج نہیں کر سکے۔
وہیں للیتا کہتی ہیں، ‘میں حال ہی میں ریٹائر ہوئی ہوں۔ کمانے والا کوئی نہیں ہے۔ پنشن بھی شروع نہیں ہوئی کہ اخراجات پورے کیے جا سکیں۔ اس کے لیے چکر کاٹ رہی ہوں۔ رشتہ داروں نے دوری بنالی ہے۔ کسی کا ایک پیسے کا سہارا نہیں ہے۔ اس کے علاوہ مجھے اپنے بیٹے کا مقدمہ بھی لڑنا ہے۔’
اس دوران وہ اپنے جسم کے بائیں جانب اشارہ کرتی ہیں اور بتاتی ہیں کہ حال ہی میں فالج کا دورہ بھی پڑا ہے۔
للیتا ڈری ہوئی ہیں۔مکان کی تصویرتک کھینچنے نہیں دیتیں کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ اس سے افسران چڑ نہ جائیں۔ وہ کہتی ہیں،’حکومت جو چاہے کر سکتی ہے، ہم اس سے تھوڑی لڑ سکتے ہیں۔ وہ کہے گی یہ غلط ہے تو غلط ہے، کہے گی صحیح ہے تو صحیح ہے۔ حکومت سے کون لڑ سکتا ہے!’
ان کا ڈر یوں ہی نہیں ہے۔ اس کی ایک مثال
زید پٹھان ہیں۔ حکومت کی بلڈوزنگ مہم کی مخالفت کرنے کی قیمت اس سماجی کارکن کو گزشتہ سال کھرگون ضلع میں نیشنل سیکورٹی ایکٹ (این ایس اے) کے تحت گرفتار ہوکرچکانی پڑی تھی۔
تاہم، امیتابھ گپتا بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ زیادہ تر لوگ جو غیر قانونی اور من مانی حکومتی بلڈوزنگ کا شکار ہوئے ہیں، مالی طور پر اس قابل نہیں ہیں کہ وہ اپنے مقدمات کو عدالت میں لے جا سکیں۔ جس کی وجہ سے حکومت کو کسی چیلنج کا سامنا نہیں ہے اور وہ خوف پیدا کرنے کے اپنے مقصد میں کامیاب ہو رہی ہے۔
وہ کہتے ہیں،’ان کارروائیوں کے ذریعے حکومت کا مقصد کسی کو انصاف فراہم کرنا یا کسی بھی متاثرہ کو راحت پہنچانے کے لیے کچھ کرنا نہیں تھا، بلکہ خوف پیدا کرنا تھا۔ وہ بلڈوزر دکھا کر لوگوں کو ڈرانا چاہتی تھی۔’
بی جے پی کے ریاستی ترجمان راجپال سسودیابھی اس بات کو قبول کرتے ہیں اور دی وائر کو بتاتے ہیں، ‘ہم نے یہ کارروائیاں مجرموں میں خوف پیدا کرنے کے لیے کی ہیں کہ حکومت مجرموں کے لیے پتھر کی طرح سخت ہے، جبکہ عوام کے لیے پھول کی طرح نرم ، اس میں ہمیں کامیابی بھی ملی۔’
کھرگون میں پچھلے سال ہوئی بلڈوزرکارروائی ۔ (تصویر بہ شکریہ: ٹوئٹر)
’کیا حکومت کو غیر قانونی تعمیرات کے بارے میں اس وقت پتہ چلتا ہے جب کوئی جرم کرتا ہے…‘
دی وائر کی تحقیقات میں ایک اور بات سامنے آئی کہ سرکاری بلڈوزر کے نیچے تعمیرات سے محروم ہونے والے افراد کی پہلی ترجیح ان کے لواحقین کو قانونی مدد فراہم کرنا ہے جن کو ملزم بنایا گیاہے، جس کی وجہ سے وہ اس حکومتی من مانی کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اس بھاگ دوڑ میں کافی وقت گزر جاتا ہے جس کے بعد لوگ سب کچھ بھول کر ٹوٹی پھوٹی عمارتوں کی مرمت کرانے کے بعد وہاں رہنا شروع کر دیتے ہیں۔
ٹوٹے ہوئے مکان میں آڑ کے لیے ایک دیوار اٹھواکر للیتا نے بھی وہیں رہنا شروع کر دیا ہے۔ سنیل راوت نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔ ایسی اور بھی مثالیں دیکھنے کو ملیں۔
پچھلے سال، ریاست کے ہی ایک ضلع میں ایک عمر رسیدہ شخص کو ایک لڑکی کے ریپ کے معاملے میں ملزم بنایا گیا تھا۔ اگلے ہی دن پولیس اور انتظامیہ کی کارروائی میں ان کے گھر کا ایک حصہ بلڈوزر سے مسمار کر دیا گیا۔ ملزم جیل میں ہیں اور مقدمہ فاسٹ ٹریک کورٹ میں چل رہا ہے۔
ملزم کے بیٹے جتن (بدلا ہوا نام) کا کہنا ہے کہ ‘مکان مکمل طور پر قانونی ہے اور والد کے نام پر ہے۔ بغیر کسی نوٹس کے مسماری کے بعد ہمیں ایک سال تک کرائے پر رہنا پڑا تھا، لیکن اب مرمت کے بعد ہم نے یہاں رہنا شروع کر دیا ہے۔’
جتن کا کہنا ہے کہ وہ اپنے گھر کو بلڈوز کرنے کی کارروائی کے خلاف عدالت جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا، ‘میں نے وکیل سے بات کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ایسے معاملات میں تین سال تک اپیل کی جا سکتی ہے۔ کاغذات تیار ہیں، صرف والد کے کیس کا فیصلہ آنے والا ہے، اس کے بعد ہی اس پر آگے بڑھنے کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔’
ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘جرم کسی نے کیا، گھر والوں کو سزا کیوں؟ ہم یہاں 30-32 سال سے رہ رہے ہیں، آج تک یہ مکان غیر قانونی نہیںتھا۔ باپ پر صرف الزام ہیں، کوئی جرم ثابت نہیں ہوا۔ کل وہ بے گناہ ثابت ہوگئے، پھر حکام اس کارروائی کا جواز کیسے دیں گے؟’
زیادہ تر متاثرین مسلم اقلیت اور ریزرو کاسٹ کے لوگ ہیں
دی وائر نے ایسے 58 کیسز کی بغیر کسی مقررہ پیرامیٹرز کے رینڈم تفتیش کی، جن میں ملزمان کی جائیدادوں پر بلڈوزر چلانے کی کارروائی کی گئی تھی۔ ان میں سے 49 مقدمات میں (85 فیصد) ملزم بنائے گئے لوگوں میں مسلم، دلت، قبائلی یا او بی سی کمیونٹی کے لوگ شامل تھے۔
مسلمانوں سے متعلق 28 مقدمات تھے۔ تقریباً ان تمام معاملات میں تمام ملزمان (کلیدی ملزم اور شریک ملزم) مسلمان تھے۔ 10 کیسوں میں دلت ملزمان کے گھروں پر بلڈوزر چلائے گئے (ان میں سے کچھ معاملات میں دلت ملزمان کے ساتھ دیگر ذاتوں کے شریک ملزمان بھی شامل تھے)۔
او بی سی کیٹیگری کے ملزمان کے 10 کیسز رہے(ان میں سے کچھ کیسز میں او بی سی ملزمان کے ساتھ دیگر ذات کے شریک ملزمان بھی شامل تھے)۔
ایک واقعہ میں ایک قبائلی کا گھر بھی مسمار کر دیا گیا۔ 4 کیسز میں ذات کا پتہ نہیں چل سکا جبکہ 2 کیسز میں ملزمان کے دلت ہونے کا امکان ہے۔ تین واقعات میں برہمن ملزمان کے گھروں کو بھی بلڈوز کر دیا گیا۔
قابل ذکر ہے کہ نہ صرف مدھیہ پردیش بلکہ ملک بھر میں بی جے پی مقتدرہ ریاستوں میں مسلمانوں کے خلاف چنندہ طریقے سے بلڈوزر کارروائیاں کی گئی ہیں، جن کو لے کر
جمعیۃ علماء ہند نے سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا تھا۔ اس سلسلے میں اپریل 2022 میں سپریم کورٹ نے ان بی جے پی مقتدرہ ریاستوں کو نوٹس بھیجا تھا جہاں مسلمانوں کی جائیدادوں پر بلڈوزر چلائے گئے تھے۔ مدھیہ پردیش بھی ان ریاستوں میں سے ایک تھی۔
اس کیس میں درخواست گزار گلزار اعظمی کا انتقال ہو چکا ہے، جبکہ ان کے وکیل رہے شاہد ندیم نے بتایا کہ یہ کیس ابھی بھی سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔
کانگریس کی خاموشی کی وجہ
ریاست کے موجودہ اسمبلی انتخابات میں اہم اپوزیشن پارٹی کانگریس وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ کی قیادت والی بی جے پی حکومت کو گھیرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑ رہی ہے، لیکن نہ تو پارٹی کا منشور، نہ انتخابی مہم اور نہ ہی کسی لیڈر کی زبان پر بی جے پی حکومت کی اس مدت کے دوران کی گئی ان غیر قانونی کارروائیوں کا کوئی ذکر ہے۔
دراصل مدھیہ پردیش میں سرکاری بلڈوزر کی گرج کمل ناتھ کی قیادت والی کانگریس حکومت کے دوران شروع ہوئی تھی۔ ‘اینٹی مافیا’ اور ‘شدھ کے خلاف یدھ’ مہم چلا کر کمل ناتھ حکومت نے ریاست بھر میں مبینہ
مافیاؤں کی غیر قانونی جائیدادوں پر بلڈوزر چلائے تھے۔
اس کے بعد حکومت پر انتقامی کارروائی کرنے اور بی جے پی سے وابستہ لوگوں کو نشانہ بنانے کا الزام لگایا گیا تھا۔
پندرہ ماہ بعد کانگریس کی حکومت گر گئی اور پھر بی جے پی نے شیوراج سنگھ کی قیادت میں حکومت بنائی۔ اس بار شیوراج بدلے ہوئے تھے، انہوں نے کمل ناتھ حکومت کے چھوڑے گئے بلڈوزر کو نہیں روکا، بلکہ ان کے پہیوں کا رخ کانگریس کی جائیدادوں کی طرف موڑ دیا۔
بی جے پی کی جانب سے انتخاب میں ‘بلڈوزر انصاف’ کا کوئی ذکر نہیں
قابل ذکر ہے کہ اتر پردیش میں گزشتہ اسمبلی انتخابات کی مہم کے دوران بی جے پی نے یوگی کی امیج کو ‘بلڈوزر بابا’ کے طور پر خوب مشتہر کیا تھا اور مجرموں کی جائیدادوں پر بلڈوزر چلانے کے معاملے پر ووٹ بھی مانگے تھے۔ کچھ عرصہ پہلے تک مدھیہ پردیش میں بھی شیوراج اور پارٹی کے دیگر لیڈر ہر پلیٹ فارم سے بلڈوزر کارروائی کا ذکر کرتے تھے اور اسے اپنا ایک کارنامہ قرار دیتے تھے۔
بی جے پی ایم ایل اے رامیشور شرما نے تو بھوپال میں ’
ماما کا بلڈوزر‘ کے پوسٹر بھی لگوا دیے تھے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر انتخابی مہم پارٹی یا لیڈر بلڈوزر کا ذکر تک نہیں کر رہے ہیں۔