لکھنؤ کی میئر نے 2 اپریل کو میونسپل کارپوریشن سے کہا تھاکہ وہ شہر کی گنجان آبادی والے ان علاقوں کی نشاندہی کرے، جہاں گوشت اور مچھلی کی دکانیں ہیں اور ان دکانوں کو منتقل کرنے کی ہدایت دی۔ جس کی وجہ سے چھوٹے دکانداروں کوان کے ذریعہ معاش چھن جانےکا خوف ستا رہاہے۔
نئی دہلی: اترپردیش کے لکھنؤ شہر کی میئر سنیکتا بھاٹی نے 2 اپریل کو لکھنؤ میونسپل کارپوریشن سے کہا تھاکہ وہ شہر کی گنجان آبادی والےان علاقوں کی نشاندہی کرے، جہاں گوشت اور مچھلی کی دکانیں ہیں اور ان دکانوں کو منتقل کرنے کی ہدایت دی۔
اس مجوزہ پروجیکٹ سے متاثراور لکھنؤ کے گوشت فروشوں میں سے ایک فیضل کہتے ہیں کہ انہوں نے ای رکشہ کے لیے بچت شروع کر دی ہے۔
انہوں نے دی وائر کو بتایا،ابھی تک آرڈر نہیں آیا ہے،لیکن جب بھی آتا ہے، میری دکان چھن سکتی ہے اور مجھے ای رکشہ چلانا پڑ سکتا ہے۔ میرے پاس کوئی اور کام کرنے کی اہلیت نہیں ہے۔
یہ ہدایت اتر پردیش حکومت کی جانب سے اپریل کے مہینے میں چلنے والے متعدی مرض کے بارے میں بیداری پروگرام شروع ہونے کے بعد آئی ہے۔ ایڈیشنل میونسپل کمشنر ابھے پانڈے کو منتقلی کی کارروائی کے لیے علاقوں کو نشان زد کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
بھاٹی نے اہلکاروں کو یہ بھی ہدایت دی ہے کہ وہ اس بات کی نشاندہی کریں کہ کون سی دکانیں طے شدہ اصولوں کے مطابق کام نہیں کررہی ہیں اور وہ صاف ستھری نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ طے شدہ ضابطوں پر عمل پیرا نہ ہونے اور گندگی پائے جانےپرسخت سزا دی جائے گی۔ شہر سے آوارہ خنزیروں کو ہٹانے کی بھی ہدایت دی گئی ہے۔
فیضل جیسے بہت سے دکاندار ہیں،جن کے پاس اپنی دکانوں کے لیے لائسنس نہیں ہیں اور اس طرح اس نئے نظام میں ان کے پورے طور پر باہر ہو جانے کا امکان ہے۔
دی وائر سے بات کرنے والےاکثر گوشت فروشوں نے کہا کہ وہ اپنی دکانوں کے لیے لائسنس چاہتے ہیں، لیکن اس عمل کے لیے ضروری دستاویز فراہم کرنے کے اس پیچیدہ عمل کی وجہ سے وہ بیچ میں ہی لٹکے ہوئے ہیں۔
آل انڈیا جمیعت القریش (اے آئی جے کیو) کے رکن اور وکیل حاجی یوسف قریشی کا کہنا ہے کہ انجکشن لینے، متعدد فارم بھرنے، کئی دور کی جانچ کرنےسمیت نئےرہنما خطوط دیے گئے ہیں۔
اے آئی جے کیو قریشی برادری کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتا ہے اور یہ کمیونٹی عموماً گوشت کے کاروبار سے وابستہ ہے۔
انہوں نے دی وائر کو بتایا کہ لائسنس جاری کرنے اور اس کی تجدید کے لیے سنگل ونڈو سسٹم کی مانگ گزشتہ کچھ برسوں سے مسلسل بڑھ رہی ہے۔
انہوں نے کہا، بڑے تاجر بچت کے لیے کافی کماتے ہیں اور وہ آسانی سے کسی دوسری صنعت میں شامل ہو سکتے ہیں۔ بڑے تاجروں کو لائسنس لینے میں بھی کوئی پریشانی نہیں ہوتی لیکن ہم (چھوٹے تاجر) مارے جاتے ہیں۔
روزانہ 300-800 روپے کمانے والے گوشت کے بیشتر چھوٹے تاجر اپنی روزی روٹی کے کھو جانے کی بات سے خوفزدہ ہیں۔
لکھنؤ کے ایک سماجی کارکن ماہر حسن نے کہا کہ شہر میں زیادہ تر گوشت فروش غریب مسلم خاندانوں سے ہیں۔ ان کا بڑا نقصان ہوگا۔
لکھنؤ کے علی گنج علاقے میں ایک ریستوراں کے مالک رینا پانڈے نے کہا،اس قدم سے گوشت کی کوالٹی بھی متاثر ہو سکتی ہے کیونکہ اس سےگوشت کو لانے اورلے جانے میں وقت لگے گا۔ بات یہ ہے کہ اس سے ڈیلیوری کی لاگت بھی بڑھ جائے گی۔
پانڈے نے کہا،اضافی نقل و حمل کی لاگت کا مطلب ہے کہ ہمیں کھانے کی قیمت میں اضافہ کرنا ہوگا، جو ہمارے مجموعی منافع کو متاثر کرے گا کیونکہ ہوسکتا ہے کہ صارف اضافی رقم خرچ کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔ اس اضافی وقت کے ساتھ گوشت کو دور دراز کے علاقے میں لے جانے سے گوشت کی کوالٹی پربھی اثر پڑے گا۔
ان کے ریستوراں ریناز کچن میں روزانہ تقریباً 15 کلوگرام گوشت ڈیلیورہوتا ہے۔ انہوں نے کہا، اس وقت گوشت کی دکانیں ہماری رسائی میں ہیں اور ہم جب چاہیں زیادہ گوشت حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر دکانیں دور ہوں گی تو گوشت کو فریج میں رکھنا پڑے گا۔
سال 2017 میں بی جے پی کے انتخابی منشور میں اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے پولیس حکام کو ریاست میں غیر قانونی گوشت کی دکانوں اور مذبح خانوں کو بند کرنے کے لیے ایک ایکشن پلان تیار کرنے کی ہدایت دی تھی۔
اس سے گوشت کی صنعت متاثر ہوئی اور اس کے بعد سے ہی اتر پردیش کی سالانہ گوشت کی پیداوار میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔
قریشی نے کہا کہ انہوں نے یوپی حکومت سے ریاست میں جدید مذبح خانوں کے ساتھ ساتھ گوشت کی فروخت کے لیے علیحدہ منڈیوں کے قیام کے لیے کئی بار گزارش کی۔ انہوں نے کہا کہ سبزی اور فروٹ منڈیوں کی طرح گوشت بھی ایک جگہ پر دستیاب ہونا چاہیے۔
جدید مذبح خانوں میں خون اور دیگر فضلہ کو زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے اور مقررہ اصولوں کے مطابق اس کو ٹھکانے لگایا جاتا ہے۔ جانوروں کو ذبح کرتے وقت صفائی کا خیال رکھنے کے بھی معیارات ہیں۔
قریشی نے کہا، حکومت لوگوں کے لیے نوکریاں پیدا کرنے کے لیے ہے لیکن یہ حکومت اس کے بالکل الٹ کر رہی ہے، یہ غریبوں کا ذریعہ معاش چھین رہی ہے۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)