واقعہ آگرہ کا ہے۔دھرم جاگرن سمنویہ سنگھ نام کےگروپ نے ساجد نامی شخص پر ایک ہندو لڑکی کو اغوا کرنے کا الزام لگاتے ہوئے ان کے گھر پر حملہ کیا۔ حالاں کہ بعد میں سوشل میڈیا پر آئے ایک ویڈیو میں مذکورہ خاتون نے اپنی جان کو خطرہ بتاتے ہوئے کہا ہے کہ اس نےاپنی مرضی سے شادی کی ہے۔
آگرہ میں ہندوتوا گروپ نے مسلم نوجوان کے گھر کو آگ لگا دی۔(فوٹوبہ شکریہ: ٹوئٹر/محمد زبیر)
نئی دہلی: اتر پردیش کے آگرہ میں دائیں بازو کے کارکنوں نے جمعہ کو ایک ہندو لڑکی کو اغوا کرنے کے الزام میں ایک مسلم خاندان کے دو گھروں کو نذر آتش کر دیا۔ حالاں کہ، ہندو لڑکی نے بعد میں ایک ویڈیو میں کہا کہ وہ اس شخص کے ساتھ اپنی مرضی سے گئی تھی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں آٹھ لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ حملہ 15 اپریل کو دھرم جاگرن سمنویہ سنگھ نامی ہندوتوا گروپ کے ارکان نے کیا تھا۔
اس سلسلے میں ایک پولیس چوکی کے انچارج کو غفلت برتنے کی وجہ سےمعطل کر دیا گیا ہے اور مقامی تھانے کے انچارج کے خلاف انکوائری کا حکم دیا گیا ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ آگرہ کے رنکتہ علاقےمیں ہجوم نے اس گھر کو نذر آتش کر دیا، جس میں جم کے مالک ساجد رہتے تھے۔ اس خاندان سے ملحقہ ایک اور گھر کو بھی جلا دیا گیا ہے۔
تاہم
ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ساجد کے بھائی مجاہد اور چچا رئیس کے گھروں کو بھی آگ لگا دی گئی ہے۔
ساجد کے گھر پر حملے میں کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ہے۔ آلٹ نیوز کے صحافی محمد زبیر نے ٹوئٹ کیا کہ دھمکیاں ملنے کے بعد سجاد اور ان کے اہل خانہ نے گھر چھوڑ دیا ہے۔ اسی لیے جب ان گھروں کو آگ لگائی گئی تو گھر میں کوئی نہیں تھا۔
اس سے پہلے ہندوتوادی بھیڑ ہندو لڑکی کو اغوا کرنے کے الزام میں ساجد کی گرفتاری کا مطالبہ کر رہی تھی۔ اس دوران رنکتہ بازار میں دکانیں بند رہیں اور تاجروں نے ساجد کی گرفتاری کا مطالبہ بھی کیا۔
دوسری جانب پولیس کا کہنا ہے کہ اس لڑکی کی عمر 22 سال ہے،لیکن وہ ابھی سکول میں ہے۔ تاہم اطلاعات کے مطابق لڑکی کے والد نے صحافیوں کو بتایا کہ ان کی بیٹی متھرا کے ایک کالج میں بی اے کی طالبہ ہے۔
لڑکی کے اہل خانہ نے گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی تھی، جس کے بعد پولیس اس کی تلاش میں لگ گئی تھی۔ اہل خانہ کی شکایت پر آئی پی سی کی دفعہ 366 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
اس دفعہ کا تعلق کسی لڑکی کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے یا اس سے شادی کرنے کے مقصد سے اغوا کرنے سے ہے۔
اس دوران پولیس کو لڑکی مل گئی۔وہیں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو سامنےآیا جس میں لڑکی کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ وہ بالغ ہے اور اپنی مرضی سے ساجد کے ساتھ گئی تھی۔
ویڈیو میں وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے ساجد سے اپنی مرضی سے شادی کی ہے اور دونوں ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے گھر واپس نہیں جانا چاہتی کیونکہ اسے ڈر ہے کہ اس کے گھر والے اسے مار ڈالیں گے۔ ویڈیو میں خاتون یہ بھی دعویٰ کر رہی ہیں کہ اس کے گھر والوں نے اسے پہلے بھی زہر دے کر مارنے کی کوشش کی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان کی وجہ سے کسی کو ہراساں نہ کیا جائے، نہ ان کے اہل خانہ اور نہ ہی ساجد کے گھر والوں کو۔ وہ پولیس کی حفاظت میں رہے گی اور مجسٹریٹ کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کرائے گی۔
دریں اثنا، آگرہ کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس سدھیر کمار سنگھ نے صحافیوں کو بتایا، دونوں بالغ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پولیس لڑکی کو عدالت میں پیش کرے گی لیکن عدالتوں میں چھٹی ہونے کی وجہ سے وہ اب تک ایسا نہیں کر سکی ہے۔
اس واقعے کے بعد مقامی پولیس چوکی کے انچارج کو غفلت برتنے کی وجہ سے معطل کر دیا گیا ہے اور سکندرہ تھانے کے انچارج کے خلاف انکوائری کا حکم دیا گیا ہے۔
سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس نے کہا کہ اگر وہ قصوروار پایا گیا تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)