مسجدوں میں لاؤڈ اسپیکر کا استعمال بنیادی حق نہیں: الہ آباد ہائی کورٹ

الہ آباد ہائی کورٹ نے اتر پردیش کے بدایوں ضلع کے رہنے والے عرفان کی جانب سے دائرعرضی کو خارج کرتے ہوئے یہ تبصرہ کیا۔ اس عرضی میں ضلع انتظامیہ کے دسمبر 2021 کے فیصلے کو رد کرنے کی مانگ کی گئی تھی، جس کے تحت مسجد میں اذان کے وقت لاؤڈ اسپیکر کا استعمال کرنے کی گزارش کو مسترد کر دیا گیاتھا۔

الہ آباد ہائی کورٹ نے اتر پردیش کے بدایوں ضلع کے رہنے والے عرفان کی جانب سے دائرعرضی کو خارج کرتے ہوئے یہ تبصرہ کیا۔ اس عرضی میں ضلع انتظامیہ کے دسمبر 2021 کے فیصلے کو رد کرنے کی مانگ کی گئی تھی، جس کے تحت مسجد میں اذان کے وقت لاؤڈ اسپیکر کا استعمال کرنے کی گزارش کو مسترد کر دیا  گیاتھا۔

الہ آباد ہائی کورٹ۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

الہ آباد ہائی کورٹ۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: الہ آباد ہائی کورٹ نے اذان کے دوران مسجد میں لاؤڈ اسپیکر بجانے کی اجازت دینے کی درخواست کو بدھ (4 مئی) کوخارج کر دیا۔

عرضی  کو خارج کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ ، اب قانون میں واضح ہوچکا ہے کہ مسجدوں  میں لاؤڈ اسپیکر کا استعمال  بنیادی حق نہیں ہے۔

جسٹس وویک کمار برلا اور جسٹس وکاس بدھوار کی بنچ نے بدایوں ضلع کے عرفان نامی شخص کی عرضی  پر یہ فیصلہ سنایا ہے۔

درخواست گزار عرفان نے بدایوں ضلع کی تحصیل بسولی کے سب ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے 3 دسمبر 2021 کو آرڈر کے خلاف ہائی کورٹ کا رخ کیا تھا۔

سب ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے گاؤں کی مسجد میں اذان کے وقت لاؤڈ اسپیکر بجانے کی اجازت طلب کرنے والی عرفان کی عرضی  خارج  کر دی تھی۔

درخواست گزار کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مذکورہ حکم مکمل طور پر غیر قانونی ہے اور یہ درخواست گزار کے مسجد میں لاؤڈ اسپیکر بجانے کے بنیادی اور قانونی حقوق کی خلاف ورزی  ہے۔

تاہم عدالت نے درخواست گزار کے وکیل کی دلیل کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ، اب قانون میں واضح ہو چکا ہے کہ مسجد میں لاؤڈ اسپیکر کا استعمال بنیادی حق نہیں ہے۔

عدالت نے کہا، مذکورہ فیصلے میں ایک ٹھوس وجہ بتائی گئی ہے۔ اس طرح ہم محسوس کرتے ہیں کہ موجودہ پٹیشن واضح طور پر غلط ہے، لہذا اس کو خارج کیا جاتا ہے۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، مئی 2020 میں، ہائی کورٹ نے مانا تھا کہ اذان اسلام کا لازمی اور اٹوٹ حصہ ہوسکتی ہے، لیکن لاؤڈ اسپیکر یا دیگر آواز بڑھانے والے آلات کے ذریعے عبادت کرنے کو آئین کے آرٹیکل 25 میں درج بنیادی حقوق کو تحفظ فراہم کرنے والے مذہب  کا اٹوٹ حصہ نہیں کہا جاسکتا، جو  امن عامہ، اخلاقیات یا صحت اور آئین کے حصہ III کی دیگر دفعات سے مشروط ہے۔

عدالت  غازی پور کے ایم پی افضل انصاری، کانگریس لیڈر سلمان خورشید اور وکیل ایس وسیم اےقادری  کی جانب سے دائر درخواستوں پر یہ فیصلہ سنایا گیا تھا۔ ان لوگوں نے غازی پور، فرخ آباد اور ہاتھرس انتظامیہ کے اس فیصلے کو چیلنج کیا تھا، جس میں مساجد کو کووڈ پابندیوں کے تحت اذان کے لیے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال بند کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔

جسٹس ششی کانت گپتا اور اجیت کمار کی بنچ نے تب کہا تھا کہ مسجد کی میناروں سے انسانی آواز کا استعمال کرتے ہوئے بغیر کسی ایمپلیفائنگ ڈیوائس کی مدد کے نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ اس نے ضلع انتظامیہ کو ہدایت دی تھی کہ جب تک اس طرح کے رہنما خطوط کی خلاف ورزی نہیں کی جاتی ہے، تب تک  اس میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ کی جائے۔

معلوم ہو کہ اذان کے وقت لاؤڈ اسپیکر پر جاری تنازعہ کے درمیان اتر پردیش حکومت نے اب تک مذہبی مقامات سے 50000 سے زیادہ لاؤڈ اسپیکر ہٹا دیے ہیں اور 60000 سے زیادہ لاؤڈ اسپیکر کی آواز کو کم کیا گیا ہے۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)