گراؤنڈ رپورٹ: 2020 میں فسادات کی زد میں آنے والے پارلیامانی حلقہ شمال-مشرقی دہلی کے رائے دہندگان منقسم ہیں۔ جہاں ایک طبقہ بی جے پی کا روایتی ووٹر ہے، وہیں کئی لوگ فرقہ وارانہ سیاست سے قطع نظر مقامی ایشوز پر بات کر رہے ہیں۔ یہاں بی جے پی کے منوج تیواری اور ‘انڈیا’ الائنس کے کنہیا کمار کے درمیان سیدھا مقابلہ ہے۔
شمال-مشرقی دہلی کی ایک گلی۔ (تمام تصویریں: شروتی شرما)
نئی دہلی: دہلی میں لوک سبھا انتخابات کے لیے ووٹنگ کا دن قریب ہے۔ اس مہینے کی 25 تاریخ کو دارالحکومت کی تمام سات سیٹوں پر ووٹ ڈالے جائیں گے۔ دہلی کی تمام سیٹوں پر سیدھامقابلہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور ‘انڈیا’ الائنس کے بیچ ہے۔
دی وائر کی ٹیم نے یہ جاننے کے لیے اس علاقے کا دورہ کیا کہ 2020 کے دہلی فسادات کی زد میں آئے شمال-مشرقی دہلی کے ایکویشن کیا کہتے ہیں۔
سال 2020 کے فسادات کے بعد دہلی میں یہ پہلا الیکشن ہے۔ 2020 کے اسمبلی انتخابات کے 15 دن بعد شمال-مشرقی دہلی کے کچھ حصوں – موج پور، مصطفی آباد، جعفرآباد، شیو وہار میں فسادات شروع ہوگئے تھے۔ اس دوران متنازعہ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف پوری دہلی میں مظاہرے ہو رہے تھے۔
اس کے چار سال بعد جب یہ پوچھا گیا کہ کیا 2020 کے فسادات کا اثر علاقے میں نظر آتا ہے تو کپڑے کا روبار کرنے والے عرفان نے کہا، ‘فسادات سے پہلے ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کے گھر جا کر کھانا کھاتے تھے، لیکن اب ایسا بالکل نہیں ہے، فسادات کے بعد یہ علاقہ ہندو مسلم میں تقسیم ہو چکا ہے۔ آپسی بھائی چارہ ختم ہو گیا۔’
علاقے کے کئی لوگوں نے دی وائر ٹیم کو بتایا کہ دہلی فسادات کا اثر آئندہ انتخابات میں نظر آ سکتا ہے۔
کانگریس امیدوار کنہیا کمار ‘انڈیا’ الائنس کی جانب سے شمال-مشرقی دہلی سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔وہیں، این ڈی اے کی طرف سے بی جے پی کے منوج تیواری ان کے سامنے ہیں۔ منوج تیواری دو بارسےاس سیٹ پر جیت درج کرتے آ رہے ہیں، جبکہ جے این یو اسٹوڈنٹ یونین کے صدر رہے کنہیا کمار نے 2019 کے عام انتخابات میں بہار کے بیگوسرائےسے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی) کے ٹکٹ پر مقدر آزما یا تھا، جہاں انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
شمال-مشرقی دہلی کے ایکویشن کافی دلچسپ بنے ہوئے ہیں۔ لوگوں سے بات چیت کے بعد یہ پتہ چلتا ہے کہ وہاں کے رائے دہندگان منقسم ہیں۔
ایک ہیں بی جے پی کے روایتی ووٹر، جو صاف کہتے ہیں کہ ان کا ووٹ صرف بی جے پی کو جائے گا۔ وہیں دوسرا طبقہ کانگریس کے حامیوں کا ہے، جس میں زیادہ تر لوگ مسلم کمیونٹی سے ہیں۔ تیسرے ہندو مذہب کے وہ لوگ ہیں، جو بی جے پی کو پسند نہیں کرتے۔ اس کی دو وجوہات ہیں، ایک تو یہ کہ بی جے پی کے لیڈر پچھلے 10 سالوں سے اس علاقے سے ایم پی ہیں، اس لیے انہیں اقتدار مخالف لہر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور دوسری یہ کہ وہ بی جے پی پر صرف ہندو مسلم کی سیاست کرنے کا الزام لگا رہے ہیں۔ چوتھا طبقہ اروند کیجریوال کے حامیوں کا ہے۔
برہمپوری کے رہنے والے نریش گری پلاسٹک کا سامان بنانے والی فیکٹری میں کام کرتے تھے۔ چھ سال قبل فیکٹری بند ہونے کے بعد سے وہ بے روزگار ہے۔ انہوں نے کہا، ‘چاہے وہ کانگریس ہو یا بی جے پی یا عام آدمی پارٹی، کہتے سب ہیں لیکن کرتا کوئی نہیں۔’
بی جے پی ایم پی منوج تیواری کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے کہا کہ جب بھی کچھ پوجا-پاٹھ کا موقع ہوتا ہے، وہ آتے ہیں لیکن کوئی مسئلہ حل کرنے نہیں آتے۔
بی جے پی حمایتی بزنس مین۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سڑکیں اور گلیاں سب خراب ہیں، جرائم بہت بڑھ گئے ہیں، لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ تاہم، بات ختم کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ رام بھکتی کے لیے ووٹ وہ بی جے پی کو ہی دیں گے۔
‘اگر بی جے پی اس سیٹ پر کسی جانور کو بھی کھڑا کرتی ہے تو ہم اسے ہی ووٹ دیں گے۔’ یہ کہنا ہے سیلم پور مارکیٹ کے ایک سونے کے تاجر کا، جو خود کو مودی کا حامی بتاتے ہیں۔ ‘بی جے پی ہندوؤں کے لیے کام کرتی ہے۔ ہمارے آباؤ اجداد ایودھیا میں رام مندر کا خواب دیکھتے ہوئے چلے گئے، مودی جی کی وجہ سے ہم نے رام مندر کو بنتے دیکھا، اس لیے ہمارا ووٹ ہمیشہ مودی جی کو جائے گا، چاہے وہ کسی جانور کو ہی کیوں نہ ٹکٹ دےدیں،’ انہوں نے مزید کہا۔
ایک اور تاجر راجیش کمار نے بھی کہا کہ ان کا ووٹ بی جے پی کو جائے گا، کیونکہ مودی جی نے بہت کام کیا ہے۔ جب دی وائر کے رپورٹر نے ان سے مودی کی طرف سے کیے گئے چار کام گنوانے کو کہا تو راجیش نے کہا، ‘مودی جی نے کورونا کے دور میں بہت کام کیا تھا اور رام مندر بنوایا۔’
علاقے میں ملنے والے کئی مسلم ووٹر کانگریس کے حامی تھے۔
جعفرآباد میں درزی کا کام کرنے والے محمد عرفان نے بتایا کہ ان کا ووٹ کانگریس کو جائے گا۔’میرے انتخابی مسائل تعلیم، روزگار، بھائی چارہ، سلامتی اور صاف صفائی ہیں،’ عرفان نے بتایا۔ منوج تیواری کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے کہا کہ تیواری جی کو علاقے میں کبھی نہیں دیکھا گیا اور نہ ہی اس علاقے نے کوئی ترقی دیکھی۔
جعفرآباد کے رہنے والے سلیم نے کہا کہ ‘بی جے پی نے دس سالوں میں کچھ نہیں کیا، منوج تیواری صرف اروند کیجریوال کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں۔ اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ کانگریس آئے اور لوگوں کو روزگار دے، پڑھے لکھے نوجوان بے روزگار گھوم رہے ہیں۔’
موج پور کے رہنے والے عرفان نے کہا کہ مودی کے دور حکومت میں مسلمانوں کو کم توجہ دی جاتی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘مذہب کے نام پر الیکشن نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں ایسے لیڈر کا انتخاب کرنا چاہیے جو تمام برادریوں کو ساتھ لے کر چلے، کنہیا کمار سے امید ہے کہ وہ یہ کام کریں گے۔’
میڈیا سے بات کرنے میں ہچکچاہٹ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ مسلمان بولنے سے ڈرتے ہیں، وہ میڈیا کے سامنے کھل کر بات نہیں کر پاتے کیونکہ پتہ نہیں میڈیا ان کی بات کو کیسے دکھائے اور پھر سرکار ان کی روزی روٹی بند کر دے۔
دہلی فسادات کی وجہ سے ہندو اور مسلم کے بیچ کی گہری ہوتی کھائی عام لوگوں کے ساتھ بات چیت میں واضح طور پرمحسوس ہوتی ہے۔
وہیں، علاقے میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اروند کیجریوال کے حامی ہیں، اور ان کا کہنا ہے کیجریوال جس پارٹی کی حمایت کریں گے، وہ لوگ اسی پارٹی کو ووٹ دیں گے۔
ایک آٹو رکشہ ڈرائیور یوسف علی نے بی جے پی پر اروند کیجریوال کو جھوٹے مقدمے میں پھنسانے کا الزام لگاتے ہوئے کہا، ‘کیجریوال ملک کے بہترین لیڈر ہیں، وہ گھوٹالہ کر ہی نہیں سکتے، وہ ہمیشہ ملک کے مفاد میں سوچتے ہیں۔ بی جے پی انہیں پھنسا رہی ہے۔ چاہے جو ہو جائے ، میرا ووٹ کیجریوال کو ہی جائے گا۔’
تاہم اس علاقے میں کچھ ایسے ہندو ووٹر بھی ملے جو فرقہ وارایت سے اوپر اٹھ کر صرف ترقی کے نام پر ووٹ دینے کی بات کر رہے ہیں۔
راکیش کمار جسمانی طور پر معذور ہیں۔ انہوں نے کہا، ‘اگر بی جے پی حکومت کچھ دن اور اقتدار میں رہتی ہے، تو عوام کے ہاتھ میں کٹورا آ جائے گا۔ مودی نے پچھلے دس سالوں میں صرف خود کو مضبوط کیا ہے اور عوام کے لیے کچھ نہیں کیا۔’
جب انہیں بتایا گیا کہ لوگ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کا کریڈٹ بی جے پی کو ہی دے رہے ہیں، تو انہوں نے مزید کہا، ‘مندر کوئی بھی بنا سکتا ہے، ہم-آپ کوئی بھی۔ لیکن وہ مندر دور ، ایودھیا میں ہے تو جیب میں پیسے رہیں گے، تبھی تو ہم جا پائیں گے دیکھنے! ہمارا گھر ٹوٹا پڑا ہے اور بی جے پی کہہ رہی ہے کہ انہوں نے مندر بنوا دیا، تو یہ مندر ہمارے کون کام کا؟ انہوں نےمزید کہا کہ مذہب اور سیاست کو الگ الگ رکھنا چاہیے۔