دہلی میں رہ رہے بہار کے رام پکار پنڈت کی موبائل فون پر بات کرنے کے دوران روتے ہوئے تصویر گزشتہ دنوں سرخیوں میں رہی تھی۔ ان کے بیٹے کی موت ہو گئی ہے اور وہ اب تک گھر والوں سے نہیں مل سکے ہیں۔
نئی دہلی: کچھ دن پہلے موبائل فون پر بات کرتے وقت روتے ہوئے ایک مزدورکی تصویر سوشل میڈیا پر چرچہ کے مرکز میں رہی تھی۔ یہ تصویر لاک ڈاؤن کی وجہ سے روزگار کھو چکے دوسری ریاستوں میں پھنسے مہاجر مزدوروں کے المیے کی علامت بن گئی ہے۔اس تصویر میں سڑک کنارے بیٹھے ایک مہاجر مزدور رام پکار موبائل فون پر بات کرتے ہوئے زارزار رو رہے تھے۔ یہ واقعہ ملک کی راجدھانی دہلی کا ہے۔
ملک میں جاری لاکڈ اؤن کی وجہ سے مہاجروں کے لیے پیدا ہوئے بحران کو پیش کرتی اس تصویر کو کافی سرخیاں ملیں، لیکن رام پکار اپنے گھر والوں سے اب تک مل نہیں پائے ہیں اور اپنے ایک سال کے بیٹے کی موت سے پہلے اس کی صورت تک نہ دیکھ پانے کے دکھ نے ان کو توڑکر رکھ دیا ہے۔
بیگوسرائے کے بریارپر گاؤں کے رہنے والے38 سالہ رام پکار اب بہار پہنچ گئے ہیں، لیکن وہ اب تک اپنے اہم خانہ سے مل نہیں پائے ہیں۔خبررساں ایجنسی ‘پی ٹی آئی’ کے فوٹوجرنلسٹ اتل یادو نے دہلی کے ایک سنیما ہال میں کنسٹرکشن سائٹ پر مزدور رام پکار کو نظام الدین پل کے کنارے دیکھا تھا۔ وہ اس وقت فون پر اپنے گھر والوں سے بات کرتے ہوئے رو رہے تھے۔ اسی دوران انہوں نے ان کی تصویر لی تھی۔
دہلی سے تقریباً 1200 کیلومیٹر دور بیگوسرائے میں اپنے گھر پہنچنے کے لیے جوجھ رہے 38 سالہ رام پکار کی تصویر کو میڈیا میں شیئر کئے جانے کے بعد انہیں بہار تک پہنچنے میں مدد مل گئی۔ وہ اس وقت بیگو سرائے کے باہر ایک گاؤں کے اسکول میں کورنٹائن سینٹر میں رہ رہے ہیں۔
رام پکار اس بات سے دکھی ہیں کہ وہ اپنے بچہ کی موت سے پہلے گھر نہیں پہنچ سکے اور اسے آخری بار دیکھ بھی نہ سکے۔یہ تصویر لیے جانے کے کچھ ہی دیر بعد گزشتہ11 مئی کو ان کے بیٹے کی موت ہو گئی تھی۔رام پکار نے ‘پی ٹی آئی’ سے فون پر کہا، ‘ہم مزدوروں کی کوئی زندگی نہیں ہے۔’
انہوں نے کہا، ‘میرا بیٹا جو ایک سال کا بھی نہیں ہوا تھا، اس کی موت ہو گئی اور میرے سینہ پر مانو کوئی پہاڑ گر گیا۔ میں نے پولیس حکام سے مجھے گھر جانے دینے کی فریاد کی، لیکن کسی نے میری کوئی مدد نہیں کی۔’رام پکار نے کہا، ‘ایک پولیس اہلکار نے تو یہ تک کہہ دیا کہ کیا تمہارے گھر لوٹنے سے، تمہارا بیٹا زندہ ہو جائےگا۔ لاک ڈاؤن جاری ہے، تم نہیں جا سکتے، مجھے ان سے یہ جواب ملا۔’
انہوں نے بتایا کہ دہلی کی ایک خاتون اور ایک فوٹوگرافر نے اس کی مدد کی۔ وہ فوٹو جرنلسٹ اتل یادو کا نام نہیں جانتے۔رام پکار نے کہا، ‘میں تھکا ہارا سڑک کنارے بیٹھا تھا اور یہ سوچ رہا تھا کہ میں گھر کیسے پہنچ سکتا ہوں۔ ایک صحافی آیا اور اس نے مجھ سے پوچھا کہ میں پریشان کیوں ہوں۔ اس نے مجھے اپنی کار سے لے جاکر مدد کرنے کی کوشش کی، لیکن پولیس نے اس کی اجازت نہیں دی۔ اس کے بعد ایک خاتون آئیں اور اس نے کچھ انتظام کیا… وہ میرے مائی باپ کی طرح تھیں۔’
مدد پہنچنے سے پہلے تین دن تک نظام الدین پل پر پھنسے رہے رام پکار نے کہا، ‘خاتون نے مجھ%D