لانسیٹ جریدے کے ایک نئے تجزیے کے مطابق، 2020 اور 2021 میں کووڈ-19 کی وبا کے دوران ہندوستان میں ایک اندازے کے حساب سے 40.7 لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔ یہ تعداد سرکاری طور پر ہندوستان میں کووڈ-19 سے ہونے والی اموات سے آٹھ گنا زیادہ ہے۔ حالاں کہ حکومت نے اس رپورٹ کو خارج کر دیا ہے۔
نئی دہلی: ایک نئے تجزیے کے مطابق، 2020 اور 2021 میں کووڈ-19 کی وبا کے دوران ہندوستان میں ایک اندازے کے حساب سے 40.7 لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔
یہ تعداد سرکاری طور پر ہندوستان میں کووڈ-19 سے ہوئی اموات سے آٹھ گنا زیادہ ہے۔ اس وقت کورونا وائرس کے انفیکشن سے ہوئی اموات کی تعداد پانچ لاکھ سے کچھ زیادہ ہے۔
اس تجزیے کے ذریعے پہلی بار دنیا بھر میں کووڈ-19 کے دوران حد سے زیادہ اموات کا اندازہ لگایا گیا ہے اوراس کو گزشتہ جمعرات کو
دی لانسیٹ میں شائع کیا گیا ہے۔
اس تجزیے میں بتایا گیا کہ مارچ 2010 سے اب تک 191 ممالک میں 1.82 کروڑ افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں، جبکہ اس عرصے میں ان ممالک میں اموات کی سرکاری تعداد 59.4 لاکھ بتائی گئی تھی۔
مجموعی طور پراس تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں وبائی امراض کے دوران کسی بھی ملک کے مقابلے شرح اموات سب سے زیادہ رہی ۔
انسٹی ٹیوٹ فار ہیلتھ میٹرکس اینڈ ایویلیوایشن (آئی ایچ ایم ای) کے ماہرین کی ایک ٹیم نے یہ تجزیہ کیا ہے۔
آئی ایچ ایم ای امریکہ کا ایک آزاد تحقیقی ادارہ ہے۔ یہ وبائی مرض کے پھیلنے کے بعد سے مختلف وبائی امراض کی پیش گوئیاں جاری کرتا رہا ہے۔
بتایا گیا ہے کہ کووڈ-19 سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا دوسرا ملک امریکہ ہے۔ یہاں ان 24 مہینوں کے دوران 11.3 لاکھ افراد ہلاک ہوئے جو کہ امریکہ کے سرکاری اعداد و شمار سے 1.14 گنا زیادہ ہے۔
اس عرصے میں پانچ مزید ممالک روس، میکسیکو، برازیل، انڈونیشیا اور پاکستان میں کورونا سے پانچ لاکھ سے زائد اموات ہوئیں۔ دنیا بھر کے 191 ممالک کے مقابلےکورونا کی وجہ سے ہوئی موتوں میں سے نصف سے زیادہ اضافی موتیں ان سات ممالک میں ہوئی ہیں۔
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ وبائی امراض کے دوران یہ موتیں ہوئی ہیں، ضروری نہیں کہ یہ موتیں کورونا سے ہی ہوئی ہوں۔
رپورٹ کے مطابق، تحقیقاتی ٹیم نے ملک میں تمام وجوہات سے ہونے والی اموات کے اعداد و شمار کا حساب کورونا سے ہوئی اموات کے اعداد و شمار سے نکالا ہے۔
تحقیق کے مطابق بعض ممالک بعض متعینہ وجوہات سے ہوئی اموات کے اعداد و شمار بھی شیئر کرتے ہیں لیکن گزشتہ دو سالوں میں یہ 36 ممالک تک ہی محدود رہا۔
ریاضی دان اور ڈیزیز ماڈلر مراد باناجی کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں اس طرح کی تحقیق کرنے کی کوشش کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ انہوں نے دی وائر سائنس کو بتایا،میں ہندوستان کے بارے میں یہ بات پورے اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ہندوستان میں یہ معلوم کرنا ایک خواب جیسا ہوگا کہ ملک میں کورونا سے مزید کتنی اموات ہوئی ہیں۔
بتادیں کہ باناجی آئی ایچ ایم ای کے تجزیہ میں بھی شامل تھے۔
پچھلے سال شائع ہونے والے ان کے اندازوں کے مطابق، 2020 اور 2021 میں ہندوستان میں 30 لاکھ سے زیادہ اموات ہو سکتی تھیں۔
آل کاز مورٹیلٹی (اموات کی تمام وجہیں)
ہندوستان کے لیےآئی ایچ ایم ای کی تجزیاتی ٹیم نے ان اضافی اموات کا اندازہ لگانے کے لیے سول رجسٹریشن سسٹم (سی آر ایس ) شروع کی۔ اس سال زیادہ اموات کا حساب لگانے کے لیے محققین کو دو قسم کے ڈیٹا کی ضرورت ہوگی۔ پہلا موت کی بنیاد (بیس لائن)کا اندازہ لگانے کے لیے اور دوسرا اس بیس لائن سے زیادہ اموات کی تعداد کا اندازہ لگانے کے لیے۔
سال 2018 اور 2019 کے یہ بیس لائن اعداد و شمار سی آر ایس سے آئے ۔ اس کے بعد 2020 اور 2021 میں اضافی اموات کی گنتی کی گئی۔ جب انہوں نے ان سالوں میں ریکارڈ کی گئی اموات کی اصل تعداد کا موازنہ کیا تو انہیں 40 لاکھ سے زیادہ اموات کا فرق ملا۔
جیسا کہ باناجی نے پہلے کہا تھا کہ یہ نظام گمراہ کن طور پرسہل ہے۔ ہندوستان میں گزشتہ کئی برسوں میں موت کے اندراج کا رجحان ایک جیسا نہیں رہا۔ مثال کے طور پر، کوئی صوبہ پچھلے سال کے مقابلے ایک سال میں ہوئیں کل اموات میں صرف نصف کو ہی ریکارڈ کرتا ہے۔اس سے بیس لائن خود ہی ناقابل اعتبار ہو جاتا ہے۔
اس سے بچنے کے لیے تحقیقی ٹیم نے 2019کے لیےایک اور ذرائع گلوبل برڈن آف ڈیزیز اسٹڈی کے ڈیٹا کا بھی استعمال کیا۔
دوسرا، سی آر ایس صرف 12 ریاستوں کے لیے ہی دستیاب تھا توایسے میں ٹیم نے دیگر 16 ریاستوں کے لیے موت کے ان اضافی اعداد و شمار کا حساب کیسے لگایا۔ اس پر تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ،یہ جاننے کے لیے ہم نے ایک شماریاتی ماڈل ڈیزائن کیا، جس میں بنیادی طور پر کووڈ-19 سے متعلق جیسےسیروپریویلنس، انفیکشن کا پتہ لگانے کے تناسب اور ضرورت سے زیادہ اموات کے درمیان تعلق کی نشاندہی۔
دراصل محققین نے اس جانکاری کا استعمال قومی رجسٹریشن ڈیٹا کی جگہ پر کیا۔
دی وائر سائنس نے ہیلتھ میٹرکس سائنسز کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور اس تجزیہ کےاہم محقق، ہیڈونگ وانگ کو بھی ای میل کیا ہے اور اس سلسلے میں ان کا جواب موصول ہونے کے بعد اسے رپورٹ میں شامل کیا جائے گا۔
ریاستی منظرنامہ
تجزیہ کے مطابق ہندوستان کی آٹھ ریاستوں میں اموات کی شرح فی ایک لاکھ افراد میں 200 سے زیادہ رہی۔ دنیا کے 191 میں سے صرف پچاس دیگر ممالک میں کورونا کے دوران اموات کی شرح اس سے بدتر رہی۔
ہندوستان کی یہ آٹھ ریاستیں اتراکھنڈ، منی پور، مہاراشٹر، چھتیس گڑھ، ہریانہ، ہماچل پردیش، پنجاب اور کرناٹک ہیں۔
دوسری طرف، اروناچل پردیش، آندھرا پردیش، تلنگانہ، سکم، راجستھان، گجرات، اتر پردیش، جھارکھنڈ، مغربی بنگال اور گوا میں اموات کی شرح عالمی اوسط سے کم رہی۔
اندازہ لگائی گئی موت کی صحیح تعداد کے لحاظ سے مہاراشٹر چھ لاکھ موتوں کے ساتھ ہندوستان میں سرفہرست رہا۔ اس کے بعد بہار تین لاکھ اموات کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہا۔
آئی ایچ ایم ای کاتجزیہ پہلا تجزیہ نہیں ہے، جس میں ہندوستان میں وبائی امراض کے دوران انتظامیہ کے ذریعہ ممکنہ طور پر اموات کے کم اعدادوشمار کو اجاگر کیا گیا ہے۔ (مثالیں یہاں، یہاں، یہاں، یہاں اور یہاں دیکھیں۔)
ایسے کئی سارے اندازے تھے جن میں یہ تعداد 29 لاکھ سے پچاس لاکھ تک بتائی گئی تھی۔
چھ جنوری،2002 کو، یونیورسٹی آف ٹورنٹو کے وبائی امراض کے ماہر پربھات جھا کی سربراہی میں کیے گئے ایک تجزیے میں ہندوستان میں 2020 اور 2021 میں 32 لاکھ سے زیادہ اموات بتائی گئیں، جبکہ کورونا کی دوسری لہر کے دوران یہ تعداد 27 لاکھ بتائی گئیں۔
جب بھی ایسے اندازے منظر عام پر آتے ہیں، مرکزی حکومت اس سے مکمل طور پرانکار کرتی رہی ہے۔ حکومت نے 12 جون 2021، 22 جولائی 2021، 27 جولائی 2021 اور 14 جنوری 2022 کو چار بیانات بھی جاری کیے اور ان تمام مواقع پر اس نے سی آر ایس کو ‘مضبوط’ قرار دیا اورکورونا سے ہوئی اموات کی کم گنتی کے امکان کو مسترد کردیا۔
حکومت نے لانسیٹ کی رپورٹ کو خارج کیا
مرکزی وزارت صحت نے جمعہ کو لانسیٹ کے نتائج پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے انہیں’قیاس آرائیوں اور غلط معلومات پر مبنی’ رپورٹ قرار دیا اور کہا کہ تجزیہ کے مصنفین نے خود طریقہ کار میں خامیوں اور تضادات کو تسلیم کیا ہے۔
وزارت نے ایک بیان میں کہا کہ یہ مطالعہ مختلف ممالک کے لیے مختلف طریقوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ہندوستان کے لیے مطالعہ میں استعمال کیے گئے ڈیٹا کا ماخذ اخباری رپورٹ اور غیر مطبوعہ مطالعات پر مبنی معلوم ہوتا ہے۔
(اس رپورٹ انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)