این آئی اے نےسوموار کو صوبے میں حقوق انسانی کے سرگرم کشمیری کارکن خرم پرویز کو گرفتار کیا ہے۔اس سے پہلےٹیررفنڈنگ سےمتعلق ایک معاملے میں رواں سال کی شروعات میں سری نگر میں ان کے گھر اور دفترکی تلاشی لی گئی تھی۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے اس قدم کی تنقید کرتے ہوئے حراستی تشدد کے خطرے کے مدنظرتشویش کا اظہارکیا ہے۔
خرم پرویز(فوٹوبہ شکریہ: ٹوئٹر)
نیشنل انویسٹیگیشن ایجنسی(این آئی اے)نے سوموارکو حقوق انسانی کے سرگرم کشمیری کارکن خرم پرویز کو گرفتار کیا۔ اس سے پہلے سری نگر میں ان کے گھراور دفتر کی تلاشی لی گئی تھی۔
ان کےگھر کےایک فرد نے دی وائر کو بتایا کہ سری نگر کے سوناور علاقے میں خرم کے گھر پر سوموارکی صبح کواین آئی اے کےافسروں نے چھاپےماری کی۔اس دوران این آئی اے کے ساتھ مقامی پولیس اور نیم فوجی دستوں کے جوان بھی تھے۔
ایک اورچھاپےماری امیرا کدل علاقے میں ان کےدفتر پر بھی کی گئی۔یہ چھاپےماری رواں سال کی شروعات میں این آئی اےکی جانب سے دائر ایک معاملے میں کی گئی۔
دی وائر کوملےخرم کی گرفتاری میمو کی کاپی کےمطابق،‘یہ معاملہ آئی پی سی کی دفعہ120بی(مجرمانہ سازش)، 121(حکومت ہندکے خلاف جنگ)، 121اے (حکومت ہند کے خلاف جنگ کی سازش کے لیے سزا)،غیر قانونی سرگرمیاں روک تھام ایکٹ 1967 کی دفعہ 17(دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے فنڈز اکٹھا کرنا)، 18(سازش کی سزا)، 18 بی(دہشت گردانہ کارروائیوں کےلیے افراد کو بھرتی کرنا)، 38(دہشت گرد تنظیم کی رکنیت سے متعلق جرائم)اور 40( دہشت گرد تنظیم کے لیے فنڈز جمع کرنے کا جرم)کےسلسلے میں درج کیا گیا ہے۔’
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایجنسی نے سوموار دوپہر کو خرم کو سری نگر کے چرچ لین میں ایجنسی کے کیمپ آفس میں لے جانے سے پہلے ان کے آفس سے ان کا موبائل فون، لیپ ٹاپ، کچھ کتابوں اور دستاویزوں کو ضبط کر لیا۔
گھر کے ایک فرد کا کہنا ہے کہ سوموار شام کو ہمیں فون کرکے ان کے کپڑے لانے کو کہا گیا۔
بتا دیں کہ ان کی اہلیہ اور بیٹے این آئی اے کے آفس گئے اور ان کے (خرم)کے کپڑے حکام کو سونپے۔ این آئی اے نے ابھی تک خرم کی گرفتاری کو لےکر کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔
معلوم ہو کہ خرم ایشین فیڈریشن اگینسٹ ان والینٹری ڈس ایپیرینسزیعنی جبراً لاپتہ کیے جانے والے لوگوں سےمتعلق ایک تنظیم کےسربراہ ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کےاہل خانہ کو سوموار شام کو ان کی گرفتاری کا میمو دیا گیا اور انہیں منگل کو سری نگر سے نئی دہلی لے جایا جا سکتا ہے۔
دریں اثنااقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ وہ خرم کی گرفتاری سے پریشان ہیں۔
اقوام متحدہ کی نمائندہ برائے تحفظ حقوق انسانی میری لالر نے ٹوئٹ کرکے کہا، ‘میں تشوتشناک خبر سن رہی ہوں کہ خرم پرویز کو کشمیر میں گرفتار کر لیا گیا اور ان پر ہندوستان میں دہشت گردی سےمتعلق جرائم کےالزام عائد کیے جانے کا خطرہ ہے۔ وہ دہشت گرد نہیں ہیں۔ وہ حقوق انسانی کے محافظ ہیں۔’
اقوام متحدہ کے سابق خصوصی ریپورٹییر ڈیوڈ کایے نے کہا کہ دہشت گردی کےالزامات میں خرم کی گرفتاری کشمیر میں غیرمعمولی زیادتی کی ایک اور مثال ہے۔
دنیا بھر میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی جنیوا میں قائم ایک غیر منافع بخش تنظیم دی ورلڈ آرگنائزیشن اگینسٹ ٹارچر (او ایم سی ٹی) کا بھی کہنا ہے کہ اس کو خرم کی گرفتاری پر گہری تشویش ہے۔
انہوں نے ٹوئٹ کرکے کہا، ‘ہم حراست میں تشدد کیےجانے کو لےکر فکرمند ہیں۔ہم ان کی فوراً رہائی کی مانگ کرتے ہیں۔’
کشمیر کے سرکردہ انسانی حقوق کے محافظوں میں سے ایک خرم نے سری نگر واقع جموں وکشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی(جے کے سی سی ایس)کےکوآرڈینیٹر کے طور پرکشمیر میں سیکورٹی فورسز اوردہشت گردوں کے ذریعہ مبینہ زیادتیوں کو بڑے پیمانے پر دستاویز کیا ہے۔
جے کے سی سی ایس نے کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو لےکر درجن بھر سے زیادہ رپورٹ شائع کی ہے۔ان کی آخری رپورٹ‘کشمیر انٹرنیٹ سیج’آرٹیکل 370 ہٹائے جانے کے بعد جموں وکشمیر میں بڑے پیمانےپر اجتماعی گرفتاریوں اور عدالتی نظام کے تار تار ہونے پر مرکوزہے۔
سال 2019 میں جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کیے جانے کے بعد خرم زیادہ فعال نہیں رہے، انہوں نے کم ٹوئٹ کیے اور معاملوں پر میڈیا سے بات کرنے سے بھی پرہیز کیا۔ کشمیر میں سیاسی حالات کے بدتر ہونے پرجے کے سی سی ایس نے پانچ اگست 2019 کے بعد اپنے کام کو بھی روک دیا۔
رواں سال میں 30 اگست کو کیا گیا ان کا آخری ٹوئٹ ایک پروگرام کے بارے میں تھا، جسے ایشین فیڈریشن اگینسٹ ان والینٹری ڈس ایپیرینسز اور اس کے رکن ممالک نے منعقد کیا تھا، جنہوں نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ سچائی کو دبایا نہیں جائےگا اور قصورواروں کو معاف نہیں کیا جائےگا۔
خرم نے ٹوئٹ کیا تھا،‘دنیا بھر میں غائب ہوئے لوگوں کےخاندان اس ناامیدی کے بیچ آج اس امید کے ساتھ انٹرنیشنل ڈے آف ڈس ایپیرڈے منا رہے ہیں کہ ان کی جدوجہد کے ذریعے ایک دن انہیں غائب ہو چکے ان کے لوگوں کی سچائی کے بارے میں پتہ چلےگا۔’
سرکاری پالیسیوں کے بولڈ ناقد خرم نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ پانچ اگست 2019 کے دن مرکزی حکومت کے فیصلے کامقصدمقامی آبادی کو بے اختیار بنانا تھا۔انہوں نے پانچ اگست 2019 کے مرکزی حکومت کے اس فیصلے کواقوام متحدہ کےتجویزکی خلاف ورزی بتایا۔
انہوں نے پچھلے سال ترکی کی نیوز ایجنسی انادولو کو دیےاس
انٹرویو میں کہا تھا، ‘تمام وعدوں کو توڑکر اور فوج کے ذریعے کشمیر میں تبدیلیاں لانے سے کشمیر کی حقیقت نہیں بدلےگی۔ اسرائیل نے یہی سب کیا لیکن فلسطین کا معاملہ ابھی بھی زندہ ہے اور آدھی سے زیادہ دنیافلسطین کے ساتھ ہے۔’
قابل ذکر ہےکہ خرم (44)جسمانی اعتبار سے جزوی طور پر معذور بھی ہیں۔ایک کار لینڈ مائن بلاسٹ میں انہوں نے اپنے پاؤں گنوادیےتھے۔ اس بلاسٹ میں ان کی ساتھی اورصحافی آسیہ گیلانی کی موت ہو گئی تھی۔
علیحدگی پسند سرگرمیوں کی فنڈنگ سے متعلق معاملے میں پچھلے سال خرم کا آفس ان دس مقامات میں سے ایک تھاجہاں این آئی اے نے چھاپےماری کی۔ اس دوران سری نگر کے انگریزی اخبار گریٹر کشمیر کے دفتر پر بھی چھاپےماری کی گئی۔
این آئی اے نے جاری بیان میں کہا تھا، ‘یہ اکائیاں نامعلوم عطیہ دہندگان سےپیسہ حاصل کر رہی تھیں، جس کا استعمال دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے کیا جا رہا ہے۔’
بتا دیں کہ ان چھاپےماری کو لےکر ہیومن رائٹس واچ اور ایمنیسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا تھا۔
ہیومن رائٹس واچ نے بیان جاری کرکے کہا،‘سرکاری پالیسیوں کےناقد اورصحافیوں کے خلاف ہتھکنڈے اپنائے جانے کے طریقے روکنے کی ضرورت ہے۔ ہندوستان سلامتی کے سنگین چیلنجز کا سامنا کر رہا ہےلیکن صحیح طریقے سےمسائل سے نمٹنے کے بجائے انتظامیہ تعمیری تنقیدکو کچلنے کے لیےپرعزم نظر آ رہی ہے۔’
معلوم ہو کہ خرم کو 2006 میں ریبک ہیومن رائٹس ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا تھا۔انہیں 2016 میں اقوامِ متحدہ کی حقوق انسانی کی کونسل کے اجلاس میں حصہ لینے کے لیے سوئٹزرلینڈ جانے سے روک دیا گیا تھا، جس کے ایک دن بعد ہی انہیں گرفتار کر لیا گیا تھا۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)