اکتوبر 2020 میں ہاتھرس گینگ ریپ کیس کی کوریج کے لیے جاتے ہوئے یو پی پولیس کے ذریعے گرفتار کیے گئے صحافی صدیق کپن کو گزشتہ ستمبر میں یو اے پی اے کیس میں سپریم کورٹ نے ضمانت دےدی تھی۔ تاہم ان کے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج ہونے کی وجہ سے انہیں رہا نہیں کیا گیا تھا۔
کیرل کے صحافی صدیقی کپن۔ (فوٹو بی شکریہ: ٹوئٹر/@vssanakan)
نئی دہلی: الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے منی لانڈرنگ کیس میں جمعہ کو کیرالہ کے صحافی صدیق کپن کو ضمانت دے دی۔
کپن کی ضمانت عرضی پر یہ فیصلہ جسٹس دنیش کمار سنگھ نےسنایا۔ کپن اس وقت لکھنؤ کی ڈسٹرکٹ جیل میں بند ہے۔
کپن کے وکیل محمد دانش کے ایس نے
دی وائر کو بتایا کہ عدالت نے غیر مشروط ضمانت دی ہے، حالانکہ انہیں اس کا حکم موصول نہیں ہوا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ضمانت ملنے سے رسمی کارروائی مکمل کرنے کے بعد جیل سے ان کی رہائی کا راستہ صاف ہو گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ عدالت نے کپن کو ضمانت کے لیے دو ضمانت دار دینے کی بات کہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ یہ اس سال عدالت کا آخری ورکنگ ڈے تھا، کپن کم از کم 2 جنوری تک حراست میں رہیں گے، جب عدالت دوبارہ کھلے گی۔ اس کے بعد وہ صحافی کی رہائی کی اپیل کریں گے۔
اب جب کہ عدالتوں نے ان کے خلاف درج دونوں مقدمات میں ضمانت دے دی ہے، اس لیے امکان ہے کہ وہ 26 ماہ سے زائد عرصے کے بعد جیل سے باہر آئیں گے۔
تاہم، دانش نے کہا کہ انہیں خدشہ ہے کہ ریاستی حکام کی جانب سے اس طرح کی لال فیتہ شاہی سےان کی رہائی میں مزید تاخیر ہو سکتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے مؤکل کو سپریم کورٹ سے یو اے پی اے اور آئی پی سی کی دیگر دفعات سے متعلق مقدمے میں ضمانت ملنے کے بعد بھی ضمانت داروں کی اب تک تصدیق نہیں ہوئی ہے۔ اس معاملے میں سپریم کورٹ نے انہیں 9 ستمبر کو ضمانت دی تھی۔
دانش نے خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کو بتایا،پہلے معاملے (یو اے پی اے) میں سپریم کورٹ نے 9 ستمبر کو کپن کو ضمانت دی تھی۔ لیکن ضمانت داروں کی تصدیق تین ماہ گزرنے کے باوجود نہیں کرائی جاسکی۔ اس لیے جیل سے رہائی کا اصل مسئلہ یہی ہے۔ جمعہ کے فیصلے کے بارے میں ہمیں اس کا مطالعہ کرنا پڑے گا کیونکہ یہ ابھی تک (ویب سائٹ پر) اپ لوڈ نہیں کیا گیا ہے۔
معلوم ہو کہ کپن، ملیالم نیوز پورٹل ‘اجیمکھم’ کے نمائندے اور کیرالہ یونین آف ورکنگ جرنلسٹس کی دہلی یونٹ کے سکریٹری کو 5 اکتوبر 2020 کو تین دیگر افراد کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا۔
کپن اس وقت ہاتھرس ایک 19 سالہ دلت لڑکی کے ریپ کے بعد ہسپتال میں ہوئی موت کی رپورٹنگ کے لیےوہاں جا رہے تھے۔ ان پر الزام ہے کہ وہ امن و امان کو خراب کرنے کے لیے ہاتھرس جا رہے تھے۔
ہاتھرس میں 14 ستمبر 2020 کو ایک دلت لڑکی کے ساتھ چار افراد نے گینگ ریپ کیا تھا اور اس کے بعد اس کو قتل کر دیا تھا۔
ان کی گرفتاری کے دو دن بعد یوپی پولیس نے کپن کے خلاف ذات پات کی بنیاد پر فسادات بھڑکانے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے کا مقدمہ درج کیا تھا۔ اس کے بعدان پرسیڈیشن کے الزامات اور یو اے پی اے کے تحت بھی مقدمات شامل کیے گئے تھے۔
جبکہ پولیس نے الزام لگایا ہے کہ کپن علاقے میں امن و امان کو خراب کرنے کی سازش کا حصہ تھا، ان کے وکلاء نے دعویٰ کیا کہ وہ ایک دلت لڑکی سے متعلق کیس کی رپورٹ کرنے جا رہے تھے۔
کپن کے ساتھ آنے والے تین دیگر افراد میں عتیق الرحمان، مسعود احمد اور ان کے کار ڈرائیور محمد عالم شامل ہیں، جبکہ دیگر تین کو تفتیش کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔ وہیں، ملزم رؤف شریف کو 12 دسمبر 2020 کو گرفتار کیا گیا۔
سپریم کورٹ نے 9 ستمبر کو یو اے پی اے کیس میں کپن کو ضمانت دے دی تھی۔ تاہم، کپن کو ان کے خلاف منی لانڈرنگ کیس کی وجہ سے رہا نہیں کیا گیا تھا۔ 31 اکتوبر کو لکھنؤ کی ایک مقامی عدالت نے منی لانڈرنگ کیس میں کپن کی ضمانت خارج کر دی تھی۔
ای ڈی نے فروری 2021 میں کپن کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔ مرکزی ایجنسی نے کپن، رحمان، احمد اور عالم پر فسادات بھڑکانے کے لیے کالعدم تنظیم پی ایف آئی سےپیسہ لینے کا الزام لگایا ہے۔ رحمان پی ایف آئی کے طلبہ ونگ کیمپس فرنٹ آف انڈیا کے قومی خزانچی ہیں۔
احمد کیمپس فرنٹ آف انڈیا کی دہلی یونٹ کے جنرل سکریٹری ہیں، جبکہ عالم اس تنظیم کے اور پی ایف آئی کے رکن ہیں۔ ای ڈی کا دعویٰ ہے کہ کیمپس فرنٹ آف انڈیا کے قومی جنرل سکریٹری شریف نے ہاتھرس کے سفر کے لیے فنڈز فراہم کیے تھے۔
تحقیقات کے دوران ای ڈی نے دعویٰ کیا تھا کہ ہاتھرس کیس کے بعد ماحول خراب کرنے کے لیے پی ایف آئی کے اراکین کو 1.38 کروڑ روپے دیے گئے تھے۔ الزام ہے کہ کپن نے پی ایف آئی ممبران کی بلیک منی کو وہائٹ کرنے میں مدد کی تھی۔
اپوزیشن جماعتوں اور صحافیوں کی تنظیموں نے سابقہ کیس میں کپن کو ضمانت دینے کے سپریم کورٹ کےفیصلے کا خیر مقدم کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ کپن کو اتر پردیش حکومت نے ‘قربانی کا بکرا’ بنایا ہے۔
جب تک وہ میرے سامنے نہیں آ جاتے، مجھے اس کا یقین نہیں ہو گا: صدیق کپن کی اہلیہ
منی لانڈرنگ کیس میں الہ آباد ہائی کورٹ سے ضمانت ملنے کے بعد ان کی اہلیہ ریحانہ صدیق نے اس پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔
ریحانہ نے کہا، ‘انہیں ای ڈی کیس میں ہائی کورٹ سے ضمانت مل گئی ہے۔ انصاف کی کرن دیر سے ضرورآئی ہے مگرمیں اس پر خوش ہوں۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، انہوں نے کہا، یو اے پی اے کیس میں ضمانت کی تصدیق ابھی مکمل ہونا باقی ہے۔ تین ماہ سے زیادہ ہو گیا ہے۔ ابتدائی طور پر یہ مشکل تھا کہ کوئی بھی ضمانت دینے والا نہیں تھا کیونکہ ہمیں اتر پردیش سے کسی کی ضرورت تھی اور ہم وہاں کسی کو اچھی طرح سے نہیں جانتے تھے۔ بعد ازاں میڈیا اور دوستوں کے ذریعے دو افراد نے ملاقات کی اور ضمانت دینے پر رضامندی ظاہر کی۔
واضح ہو کہ طویل عرصے تک کوئی ضمانت دار نہ ملنے کے بعد لکھنؤ یونیورسٹی کی سابق وائس چانسلر اور سماجی کارکن روپ ریکھا ورما نے کپن کی ضمانت بھری تھی۔ دوسرے ضامن نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کو کہا ہے۔
ریحانہ کا مزید کہنا ہے کہ یہ ضمانتی آرڈر ملنے کے بعد پتہ چلے گا کہ اس بار بھی ایسی کوئی شرائط رکھی گئی ہیں یا نہیں۔ آرڈر ملنے کے بعد ہمیں ضامن تلاش کرنا پڑے گا، امید ہے اس بار زیادہ پریشانی نہیں ہوگی۔
انہوں نے مزید کہا،دراصل مجھے ضمانت ملنے کی امید نہیں تھی کیونکہ اس سے پہلے کے ٹرائل کورٹ نے ان کی (کپن کی) عرضی مسترد کر دی تھی۔ ہمیں، ہمارے بچوں کو اس طرح رہتے ہوئےدو سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ جب وہ میرے سامنے آکرکھڑے ہوں گےتبھی مجھے یقین ہو گا کہ ان کو رہا کر دیا گیا ہے۔ ابھی تو یہی حالت ہے۔ لیکن تاخیر سے ہی سہی ، ہمیں انصاف ملے گا… ہمیں اب ضمانت مل گئی ہے۔
انہوں نے مزیدکہا کہ جس کار میں یہ سب تھے، اس کے ڈرائیور عالم ضمانت ملنے کے باوجود جیل میں ہیں۔ امید ہے کہ انہیں بھی انصاف ملے گا اور جلد رہا کر دیا جائے گا۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)